بہت پہلے سوچ لیا تھا ۔۔۔ بانو محبوب جوکھیو
بہت پہلے سوچ لیا تھا
بانو محبوب جوکھیو
بہت پہلے سوچ لیا تھا
اگرچاہتی ہوں مرنا
اور میں نے خودکشی کی
تو سب کچھ مر جائے گا
میری ماں تو جیتے جی مرجائے گی
اور بابا بھی کیسے یہ صدمہ سہہ پائیں گے
میرے بھائی کی چوڑی چھاتی بھی
سکڑ کر رہ جائے گی
محلے کے ملا کی نمازجنازہ نہ پڑھانے
اور فتوے دینے پر
شاید میرےرشتیداربھی اس سے الجھ پڑیں
میری بہن رات کو
گھر کے آنگن سے ڈرنے لگے
اور دن میں آنگن میں کھڑے برسوں سے
معمرگھرکے افراد جیسے درخت کو
اجنبی سمجھنے لگے
اور اس سے اتنا ڈرے
جتنا بچپن میں جنات کے تصور سے
وہ زندگی بھر درختوں کے نیچےبیٹھنا چھوڑدےگی
میری سہیلی آٹا گوندھتے
پانی کے ساتھ آنسو بھی
ملاتی جائے گی
اور روٹی پکاتے ہوئے اندر سے بھی جھلستی رہے گی
بچے مایوس ہوجائیں گے
ان کو پتہ چل جائے گا کہ
موت تک رسائی کا
اس طرح بھی کوئی آسان ذریعہ ہے
جواپنے ہاتھ میں ہے
مایوسی میری آنے والی نسلوں تک
منتقل ہوکر
بڑھتی ہی جائے گی
درد دھمال ڈالتا رہے گا
اور ہنستی کھیلتی بستیوں میں اس کے ڈیرے ہوں گے
لیکن ۔۔۔
اگر میں زندہ رہی
اور درد کو پینے کی ہمت کرلی
تو پھر سب ہی اسی طرح خوش رہیں گے
پرند چرند
لوگ اور جانور
آنکھوں کے سامنے طواف کرنے لگیں گے
فطرت اپنے اوج پر ہوگی
ہوائوں کے دوش پر پانی کی لہریں
تعظیم میں اٹھیں گی ، جھکیں گی
پھول کلیاں آپس میں
گلے مل کر سرگوشیاں کریں گے اور جھومیں گے
آسمان عید کےجوڑےکی طرح
نیا لگنے لگے گا
رات میلی بھی ستاروں سے چمکے گی
پڑوس میں پکی ہوئی روٹی کی خوشبو جب
بھوکے حواسوں پر سوار ہوگی
یا آنگن پر جب بارش کی بوندیں
چیکی مٹی کی خوشبو کو جگائیں گی
اماں چولہے پر گڑ والی چائے چڑھائیں گی
تب چودہ ہی طبق روشن ہوجائیں گے
سب خوشی کی سانسیں لینے لگیں گے
آنکھوں سے اپنوں کو
جب سامنے پاوں گی
اس وقت ایک شرمندگی میرے اندر ضرور جاگے گی
کہ میں کتنی خودغرض تھی کہ
ان سب کو پیٹھ دیکر مرنے کا سوچا
زندگی کا خاتمہ چاہا
زندگی
جو سو اموات سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے
جو کڑی ہوتے ہوئے بھی میٹھی ہے
مالک کی طرف سے ملی ہوئی امانت ہے
اس میں خیانت کا سوچا!؟
اتنی بے ایمانی کا تصور بھی کیسے کرلیا؟!
بس پھر بہت پہلے
خود سے ایک سمجھوتہ کیا
اپنے اندر میں اپنے آپ کو دفن کرکے
ان سب کو زندہ رکھا ۔
۔۔۔۔۔مترجم: علی عابد سومرو