دیوار ۔۔۔ جین پال سارتر
دیوار
( ژاں پال سارتر )
انہوں نے ہمیں چونے سے پتے ایک سفید ہال میں دھکیل دیا۔ میری آنکھیں چندھیانے لگیں۔ وہاں کی تیز روشنی میں میری آنکھوں میں تکلیف شروع ہوگئی۔تبھی میں نے ٹیبل کے نیچے چارسویلین کو ایک کاغذ پرجھکا ہوا دیکھا۔ انہوں نے پیچھے دوسرے قیدیوں کو ایک قطار میں کھڑا کررکھا تھا۔ ان کے پاس پہنچنے کے لیے ہمیں پورا ہال پار کرناپڑا۔ قیدیوں میں سے میں کئی لوگوں کو جانتا تھا۔ ان میں کچھ غیر ملکی بھی تھے۔ میرے سامنے کھڑے دونوں افسر گورے چٹے اور گول سر والے تھے۔ میرے انداز سے وہ فرانسیسی، ان میں ناٹے قد والا باربار اپنی پینٹ کو اوپر کھینچ کر اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سنتری، قیدیوں کو یکے بعد دیگرے ٹیبل کے پاس لے جانے لگے۔ افسروں نے ہر ایک سے ان کا نام اور پتہ پوچھا۔ زیادہ پوچھ تاچھ نہیں کی۔ زیادہ سے زیادہ اِدھراُدھر کا ایک آدھ سوال پوچھ لیا۔ جواب وہ دھیان سے نہیں سن رہے تھے۔ خاموشی سے سامنے دیکھتے ہوئے کاغذات پر لکھنا شروع کردیتے تھے۔ انہوں نے ٹام سے جاننا چاہا کہ کیا وہ انٹرنیشنل بریگیڈ کا ممبر ہے؟ ٹام اپنی جیب سے برآمد ہونے والے کاغذات کی وجہ سے انکار نہ کرسکا۔ زوان سے انہوں نے کچھ نہیں پوچھا۔ صرف اس کا نام جاننے کے بعد دیر تک کاغذوں پر کچھ لکھتے رہے۔
’’میرا بھائی جوز باغی ہے۔‘‘زوان نے کہنا شروع کیا۔’’آپ جانتے ہیں کہ وہ یہاں سے فرار ہوچکا ہے؟ میں کسی پارٹی کا ممبر نہیں ہوں، نہ ہی سیاست سے کوئی تعلق رکھتا ہوں۔ میں کسی دوسرے کے کیے کی سزا بھگتنے کو تیار نہیں۔‘‘ زوان کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ ایک سنتری اسے پکڑ کر باہر لے گیا۔ اس کے بعد میری باری تھی۔’’تمہارا نام پابلوا بیتیا؟‘‘ ایک افسر نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
اس نے کاغذات دیکھ کر پوچھا۔’’رامن گریس کہاں ہے؟‘‘
’’مجھے پتہ نہیں۔‘‘وہ ایک منٹ تک کچھ لکھتا رہا۔ اس کے بعد سنتری وہاں سے مجھے باہر لے آیا۔ برآمدے میں ٹام اور زوان انتظار کر رہے تھے۔
’’اس کا مطلب؟‘‘ ٹا م نے ایک پہرے دار سے پوچھا۔
’’مطلب کا کیا مطلب؟‘‘ پہرے دار نے جواب دینے کی بجائے سوال کیا۔
’’یہ جرح تھی یا سزا؟‘‘
’’سزا۔‘‘ پہرے دار نے کہا۔ ’’وہ ہمارے ساتھ کیا کریں گے؟‘‘
’’تمہاری سزا تمہاری کوٹھری میں سنائی جائے گی۔‘‘ ہماری کوٹھری ایک اسپتال کا تہہ خانہ تھی۔ سیلن کی وجہ سے بے حد ٹھنڈی۔ ہم اس میں ساری رات کانپتے رہے۔
’’کیا ہم مارے جائیں گے؟‘‘ ایک طویل خاموشی کے بعد ٹام نے کہا۔
’’میرا بھی ایسا ہی خیال ہے لیکن وہ لڑکے کو کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘
’’اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔ یہ ایک فوجی کا بھائی ہے، بس۔‘‘ ٹام نے کہا۔
بس زوان کی جانب دیکھا۔ مجھے لگا کہ وہ کچھ بھی نہیں سن رہا ہے۔’’تمہیں پتہ ہے یہ لوگ سرگوسا میں کون سا طریقہ اپناتے ہیں؟‘‘ ٹام نے کہنا جاری رکھا، ’’وہاں قیدیوں کو سڑک کے اوپر لٹاکر اوپر سے ٹرک دوڑاتے ہیں۔ یہ اطلاع مجھے مراکش کے رہنے والے ایک شخص سے ملی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ گولیاں بچانے کے لیے یہ طریقہ اپناتے ہیں۔‘‘
’’اس سے گیس کی بچت تو ہوتی نہیں ہوگی؟‘‘ میں نے طیش میں آکر کہا۔ مجھے ٹام پرغصہ آرہا تھا۔ اسے ایسی بات کہنا نہیں چاہیے تھی۔
ٹام پھر سے بتاتا گیا، ’’پھر افسران وہاں ٹہلتے ہوئے آتے ہیں۔ مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سگریٹ پیتے رہتے ہیں۔ تم کیا سوچتے ہو وہ قیدیوں کو ایک دم سے ختم کردیتے ہیں۔۔۔؟آہ۔۔۔نہیں! وہ انہیں چیختے ہوئے چھوڑدیتے ہیں۔‘‘
’’میں یقین نہیں کرتا کہ ہمارے ساتھ ایسا ہوگا؟‘‘ میں نے کہا۔ چاروں دیواروں کے روشن دانوں اور چھت کے درمیان گول کٹاؤ سے ہوکر جس سے آسمان صاف دکھائی دیتا تھا نیا دن داخل ہورہا تھا۔ میں ایک دم ’سُن‘ نہیں تھا۔ پھر بھی اپنے کندھے اوربازوؤں کو محسوس نہیں کررہا تھا۔ بیچ بیچ میں خیال آتا جیسے کوئی چیز کھوگئی ہو۔ پھراچانک یاد آیا انہوں نے میرا کوٹ تو واپس کیا ہی نہیں۔ دن کیسے اور کب گزرگیا اس کا پتہ ہی نہیں چلا۔ رات میں آٹھ بجے دو پہرے داروں کے ساتھ ایک میجراندر آیا۔ میجر کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ ’’ان تینوں کے نام کیا ہیں؟‘‘ اس نے پہرے دار سے دریافت کیا۔ ’’اسٹین واک،ابیتیا اور مربل۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
میجر آنکھوں پر چشمہ چڑھا کر فہرست دیکھنے لگا۔ اسٹین واک۔۔۔اسٹین واک ۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے۔ تمہیں موت کی سزا دی گئی ہے۔ صبح تمہیں گولی سے اڑا دیا جائے گا۔‘‘
’’باقی لوگوں کو بھی؟‘‘ ٹام نے پوچھا۔ میجر نے اپنے کندھے ہلائے۔ ٹام اور میری طرف مڑکر بولا،’’تم میں سے کوئی واسک ہے؟‘‘
’’ہم میں سے کوئی واسک نہیں۔‘‘ ہمارے جواب سے میجر ناراض ہوگیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہاں تین واسک ہیں؟ لیکن میں ان کی کھوج میں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ میں جانتا ہوں کہ تمہیں پادری کی ضرورت تونہیں ہوگی۔‘‘ہم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ’’ایک بیلجین ڈاکٹر یہاں جلد آئے گا۔‘‘ میجر نے آگے کہا، ’’اسے تم لوگوں کے ساتھ رات بتانے کو کہا گیا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی فوجی سلام ٹھوک کر وہ باہر چلاگیا۔ ’’میں نے پہلے ہی کہا تھا۔ ہم مار دیے جائیں گے۔‘‘ ٹام بولا۔
’’ہاں۔‘‘ میں نے کہا، ’’اس لڑکے کے لیے بہت برا ہوا۔‘‘ یہ بات میں نے ہمدردی جتانے کے لیے کہی تھی۔ یوں تو میں زوان کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کا چہرہ پچکا ہوا تھا اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے اس کے سارے نقوش گھل مل کر بدصورتی میں بدل گئے تھے۔ تین دن پہلے وہ ایک چست نوجوان تھا۔ تب وہ زیادہ برا دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اب وہ ایک بوڑھی عورت جیسا نظر آرہا تھا۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اگر وہ اسے چھوڑ بھی دیں تو وہ دوبارہ کبھی جوان نہیں ہوگا۔
میرے دل میں اس کے لیے رحم دلی ہونی چاہیے تھی لیکن اب رحم دلی سے مجھے چڑ بلکہ وحشت سی ہورہی تھی۔ تاریکی بڑھتی جارہی تھی۔ روشن دان سے ہلکی سی روشنی چھن کر اڑرہی تھی۔ کوئلے کا ڈھیر آسمان کے ٹکڑے کے نیچے ایک کالے دھبے کی طرح نظر آرہا تھا۔ اچانک تہہ خانے کا دروازہ کھلا۔ دو پہرے داروں کے درمیان ایک گورے چٹے آدمی نے جو کتھئی وردی میں تھا اندر داخل ہوا، اس نے ہمیں سلام کیا اور بولا، ’’میں ڈاکٹر ہوں۔ مجھے ان تکلیف بھرے لمحات میں آپ کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ اس کی آواز وہاں کے لوگوں سے الگ اور پراعتماد لگ رہی تھی۔
’’تم یہاں کیا کرنا چاہوگے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’میں آپ کی مرضی کے مطابق کام کروں گا۔ آپ کے آخری لمحات کو آسان بنانے میں میں آپ کی مدد کروں گا۔‘‘
’’تم یہاں کیوں آئے؟ جب کہ اور بھی بہت مجرم ہیں؟ سارا اسپتال ان سے بھرا پڑا ہے۔‘‘
’’مجھے بطور خاص یہیں بھیجا گیا ہے۔‘‘ اس نے گول مول جواب دیا۔ اس نے ہمیں انگلش سگریٹ دینے کی کوشش کی۔ ہم نے انکار کردیا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ حیرت زدہ تھا۔ ’’تمہیں یہاں دیانت داری دکھانے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے۔‘‘ میں نے کہا،’’اس کے علاوہ میں تمہیں جانتا ہوں۔ اپنی گرفتاری کے دن میں نے تمہیں بیرکوں کے احاطے میں فاشسٹوں کے ساتھ دیکھا تھا۔‘‘ میں نے اپنا بیان جاری رکھا مگر پتہ نہیں مجھے کیا ہوا؟ ڈاکٹر نے میری دلچسپی ایک دم ختم کردی۔ میں نے جسم کو ایک جھٹکا دیا اور اس طرف سے نظریں پھیرلیں۔
میں نے دونوں ساتھیوں کی جانب دیکھا۔ ٹام نے ہتھیلیوں میں چہرہ چھپا لیا تھا۔چھوٹے سے زوان کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔نتھنے کانپ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے قریب جاکر تسلی کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا لیکن زوان کی آنکھیں جذبات سے عاری تھیں۔ دوغلا! ڈاکٹرکے بارے میں میں نے غصے سے سوچا اگر یہ میرے پاس نبض دیکھنے آیا تو اس کا حلیہ بگاڑدوں گا۔ وہ میرے پاس نہیں آیا لیکن وہ مجھے گھور رہا تھا۔ میں نے سر اٹھا کراسی کی طرف دیکھا۔ ’’تمہیں یہاں سردی نہیں لگتی؟‘‘ اس نے اپنائیت سے پوچھا وہ خود بھی سردی کا مارا لگ رہا تھا۔
’’مجھے نہیں لگتی۔‘‘ میں نے کہا۔
اس نے پھر بھی اپنی نظریں میرے چہرے سے نہیں ہٹائیں۔ میرے ہاتھ خود بہ خود اپنے چہرے پر چلے گئے۔ میں پسینے میں شرابور تھا۔ میں نے رومال سے اپنی گردن کو پوچھنا شروع کیا۔ رومال بھیگ گیا لیکن پسینہ نکلتا ہی جارہا تھا۔ میری پینٹ بینچ سے چپک گئی تھی۔
اسی وقت زوان بولا،’’تم ڈاکٹر ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’کیا ۔۔۔تکلیف ہوتی ہے؟۔۔۔کافی دیر تک۔۔۔؟‘‘
’’ہوں! کب ۔۔۔ ۔ ارے نہیں، قطعی نہیں۔ سب کچھ بہت جلد ختم ہوجاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اس طرح کہا جیسے نقد سودا لینے والے کسی گاہک کو پھسلا رہا ہو۔
’’لیکن وہ کہہ رہے تھے۔۔۔کبھی کبھی انہیں دوبارہ گولی چلانا پڑتی ہے؟‘‘
’’کبھی کبھی۔‘‘ ڈاکٹر نے اس بات کی حمایت میں سر ہلایا، ’’اس حالت میں جب گولی نازک حصے تک نہیں پہنچتی۔‘‘
’’تب انہیں پھر سے بندوق لوڈ کرنا پڑتی ہوگی۔ دوبارہ نشانہ لگانا پڑتا ہوگا؟‘‘ ایک لمحہ سوچنے کے بعد پھر گویا ہوا، اس میں وقت لگتا ہوگا!‘‘
اسے تکلیف سے ڈر لگتا تھا۔ اپنی کم عمری کی وجہ سے وہ صرف اسی کے
بارے میں سوچ سکتا تھا۔ میں نے تکلیف کے بارے میں نہیں سوچا۔ پسینہ آنے کا یہ سبب
نہیں تھا کہ میں ڈرا ہوا تھا۔ میں اٹھا اورٹہلتا ہوا کوئلے کے ڈھیر تک جا پہنچا۔
ٹام اچک کر کھڑا ہوگیا اور مجھے نفرت سے دیکھنے لگا۔ میرے جوتوں کی آواز نے اسے
ناراض کردیا تھا۔ وہ دھیمی آواز میں بڑبڑانے لگا۔ بنا بولے اُسے آرام نہیں آتا
تھا۔
’’تم کچھ سمجھ رہے ہو؟ میری
سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔‘‘ اس نے کہا۔
میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’میرے ساتھ کچھ ہونے والا ہے؟ جسے میں بالکل سمجھ نہیں پاتا۔‘‘ ٹام نے کہا۔ اس کے بدن سے عجیب طرح کی بو کا بھبکا اٹھ رہا تھا۔
’’کچھ دیر بعد تمہاری سمجھ میں سب کچھ آجائے گا۔‘‘ میں نے دانت بھینچتے ہوئے کہا۔
مجھے محسوس ہوا کہ عام دنوں کی بہ نسبت میں اس وقت بو کو بہت زیادہ محسوس کررہا تھا۔ ’’بات واضح نہیں ہوئی۔‘‘ اس نے ضد سے کہا۔ ’’میں نڈر ہونا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے ہر بات سمجھ لینا چاہتا ہوں۔ سنو پہلے وہ ہمیں احاطے میں لے جائیں گے۔ ٹھیک! ہمارے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ ان کی تعداد کتنی ہوگی؟‘‘
’’پتہ نہیں۔ پانچ یا آٹھ، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ وہ آٹھ ہوں گے۔ کوئی چلا کر کہے گا۔ نشانہ لگاؤاور میں اور بندقوں کو اپنی طرف تنا ہوا دیکھوں گا۔ تب شاید میں دیوار میں سماجانا چاہوں گا، میں اپنی پیٹھ سے دیوار کو دھکا دوں گا۔ اپنی طاقت کی آخری بو ند سے لیکن دیوار اپنی جگہ رہے گی۔ کسی بھیانک خواب کی طرح۔میں اس حالت کا تصور کرسکتا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں بھی تصور کرسکتا ہوں لیکن میں اس بات کو اہمیت نہیں دینا چاہتا۔‘‘
مجھ سے مایوس ہوکر ٹام اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔ لگتا تھا ڈاکٹر کچھ نہیں سن رہا۔ اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ہم کیا سوچتے ہیں۔ وہ ہمارے جسموں کی نگرانی کرنے کے لیے آیا تھا۔ اجسام جو دھیرے دھیرے مردہ ہوتے جارہے تھے۔
’’ایک بھیانک خواب کی طرح لگتا ہے۔‘‘ ٹام کہہ رہا تھا، ’’میں پاگل نہیں ہورہا ہوں لیکن کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ مجھے اپنی لاش دکھائی دیتی ہے۔‘‘ وہ لفظوں کو چبا چبا کربول رہا تھا۔ یقینی طور پر وہ کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اپنے آپ سے باتیں کررہاتھا۔ اس سے پڑے ہوئے مریض جیسی بدبو اٹھ رہی تھی۔
’’سور، تو پینٹ میں پیشاب کررہا ہے۔‘‘ میں نے کڑھ کر کہا۔
’’نہیں،نہیں!‘‘ اس نے بے چین ہوکر کہا۔ ’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹرنے قریب آکر مصنوعی انداز میں اس سے پوچھا، ’’کیا آپ بے چینی محسوس کررہے ہیں؟‘‘
’’لیکن میں خوف زدہ نہیں ہوں۔ میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ قطعی خوف زدہ نہیں ہوں میں۔‘‘ ٹام نے کہا ڈاکٹر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ٹام کونے میں پیشاب کرنے چلاگیا۔ وہاں سے لوٹا اور خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔ ہم تینوں بغور ڈاکٹر کو دیکھنے لگے کیوں کہ وہ زندہ آدمی کی طرح فکرمند لگ رہاتھا۔ تہہ خانے کی سردی میں وہ اس طرح کانپ رہا تھا جیسے ایک زندہ آدمی کو کانپنا چاہیے۔ آخر میں وہ زوان کے پاس آیا۔ وہ اس کی گردن کی جانچ کرنا چاہتاتھا۔ زوان نے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا لیکن اس کی آنکھیں ڈاکٹر پر مرکوز تھیں۔ اس نے ہاتھ کو منہ سے کاٹنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر فوراً پیچھے ہٹ گیا اور لڑکھڑاکر دیوار سے جاٹکرایا۔ پل بھر وہ ہماری طرف گھبرائے ہوئے انداز میں دیکھنے لگا۔ پھر اس کی سمجھ میں آگیا۔ ہم اس کی طرح انسان نہیں رہ گئے تھے۔ میں ہنسنے لگا۔ میں نے اپنے اندر ایک ساتھ راحت اور بے چینی محسوس کی۔ میں صبح یا موت کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتا تھا۔ جیسے ہی میں کسی چیز کے بارے میں سوچنا شروع کرتا، مجھے اپنی طرف تنی ہوئی بندوق کی نالیاں دکھائی دینے لگتی تھیں۔میں اپنی زندگی کی ڈور کے آخری سرے پرتھا۔ میں اپنی زندگی کے کچھ گھنٹے بے کار گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ صبح مجھے جگانے آئیں گے۔ میں نیند کی کیفیت میں ا ن کے پیچھے اور بنا اُف کیے ختم ہوجاؤں گا۔ میں نے سوچا۔
میں ٹہلتا ہوا بیتی زندگی کے بارے میں سوچنے لگا۔ یادوں کی بے ترتیب بھیڑ ذہن میں داخل ہوگئی۔ اچھی اور بری دونوں قسم کی یادیں۔ میں نے ایک ناٹے قد والے آدمی کا چہرہ دیکھا، جسے مار ڈالا گیاتھا۔ اپنے چاچا اور رامن گریس کا چہرہ دیکھا۔ اپنی پوری زندگی دیکھی۔ کس طرح میں تین مہینے بے روزگار رہا اور بھوک سے مرتے مرتے بچا۔ مجھے گرینڈا میں ایک بینچ پر گزاری ہوئی رات کا خیال آیا۔ تب میں تین دن کا بھوکا تھا۔ میں غصے میں تھا اورمرنے سے نفرت کرتا تھا۔ اس رات کے خیال سے مجھے ہنسی آگئی۔ کس پاگل پن کے ساتھ خوشی، عورتوں اور آزادی کے پیچھے دوڑتا رہا۔ کس لیے؟ میں اسپین کوآزاد کرانا چاہتا تھا۔ میں مارگل کا معتقد تھا۔ میں بغاوت میں شامل ہوا۔ میں نے جلسوں میں تقاریر کیں۔ میں نے ہر بات کوا یسی سنجیدگی سے لیا جیسے مجھے کبھی مرنا ہی نہ ہو۔
مجھے لگ رہا تھا جیسے میری پوری زندگی میرے سامنے کھڑی ہواور محسوس کیا کہ یہ ایک شرم ناک جھوٹ ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں کیوں کہ اب یہ ختم ہونے والی ہے۔ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ میں کیسے لڑکیوں کے ساتھ ہنس بول لیتا تھا۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ مجھے اس طرح ختم ہونا ہے تو میں چھوٹی انگلی کے برابر بھی حرکت نہ کرپاتا۔ میری زندگی ایک بند بورے کی طرح میرے روبرو تھی۔ ایک لمحہ پہلے میں نے اُسے پرکھنے کی کوشش کی تھی۔ خود سے کہنا چاہتا تھا یہ ایک خوبصورت زندگی ہے؟ لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہ دے سکا۔یہ صرف ایک نقشہ تھا۔ میں نے حیاتِ جاوداں کا سوانگ بھرتے ہوئے اپنا وقت خرچ کیا اور کچھ بھی حاصل نہ کرسکا۔ میں بہت سی چیزوں کی قربانی دے سکتا تھا۔ جسے مین گنل کا ذائقہ، شدید گرمی میں کیڈل کے پاس چھوٹے سے مجسمے میں غسل۔۔۔لیکن موت نے سب بدذائقہ کردیا تھا۔
اچانک ڈاکٹر کے دماغ میں ایک نایاب خیال آیا۔ اس نے کہا، ’’دوستو،اگر فوجی حکومت نے اجازت دی تو میں آپ کے عزیز و اقارب کے پاس آپ کی خبر یا نشانی بھیجنے کا انتظام کرسکتا ہوں۔‘‘
’’میرا تو کوئی نہیں!‘‘ ٹام غرایا۔
میں چپ رہا۔ پل بھر انتظار کرنے کے بعد ٹام نے میری طرف حیرت سے دیکھا۔ ’’تمہیں کونچا کے پاس کوئی پیغام نہیں بھیجنا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
مجھے اس طرح کی جذباتی ہمدردیوں سے قربت تھی۔ اس میں میری غلطی تھی۔پچھلی بار میں نے اس سے کونچا کا ذکر کیا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے تھا۔ میں کونچا کے ساتھ ایک سال رہا لیکن اب اسے دیکھنے یا اس سے بات کرنے کی مجھے حسرت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ اسے اپنی بانہوں میں بھرنے کی آرزو بھی نہیں تھی۔ میں جانتا تھا، میرے مرنے کی خبر سن کر وہ چلاچلا کر روئے گی۔ مہینوں تک اسے اپنی زندگی بے کار لگے گی لیکن اس کے باوجود مجھے مرنا تو تھا ہی۔
ٹام بھی بالکل تنہا تھا لیکن دوسری طرح سے۔ وہ حیرت سے مسکراتا ہوا بینچ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے احتیاط سے مکڑی کو چھوا اور فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔جیسے صرف چھونے سے ہی وہ ٹوٹ جائے گی۔ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو بینچ چھونے کی حرکت نہ کرتا۔ میں نے محسوس کیا کہ میری پینٹ گیلی ہورہی ہے میں سمجھ نہیں پایا کہ یہ پیشاب ہے یا پسینہ۔ پھر بھی احتیاط کے طور پر میں پیشاب کرنے کے لیے کوئلے کے ڈھیر کے پاس چلاگیا۔
تبھی بیلجین ڈاکٹر نے جیب گھڑی نکال کر دیکھی، بولا، ’’ساڑھے تین بج گئے۔‘‘
’’دوغلا۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں کہا۔ اس نے یہ بات ضرور کسی مقصد سے کہی تھی، ٹام اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ ہم بھول چکے تھے کہ وقت گزر رہا ہے۔ معصوم زوان چیخنے لگا۔ ’’میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ پھر پورے تہہ خانے میں ہوا میں ہاتھ گھماتا ہوا دوڑنے لگا۔ پھر روتا ہواچٹائی پر ڈھیر ہوگیا۔
ٹام اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے زوان کو حوصلہ دینے کی اس کے دل میں تمنا نہیں رہی۔ شاید ایسی حالت میں ہمدردی بھی فضول ہوچکی تھی۔ زوان رو رہا تھا اوراپنے اوپر ترس کھا رہا تھا۔ ایک سیکنڈ، صرف ایک سیکنڈ کے لیے میرا بھی دل چاہا کہ رولوں۔ دل نے چاہا کہ میں بھی اپنی حالت پر چیخوں چلاؤں لیکن ہوا الٹا۔ جیسے ہی اس کے کانپتے ہوئے کمزورکندھوں پر میری نظر گئی میں نہ خود پر ترس کھاسکتا تھا نہ دوسروں پر۔ میں نے اپنے آپ دہرایا۔ ’’میں ایک صاف ستھری موت مرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ٹام اٹھ بیٹھا اور چھت کے روشن دان کے نیچے کھڑا دن کی روشنی کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے صاف ستھری موت کا عہد کرلیا تھا اوراسی کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن اس پل سے جب ڈاکٹر نے گھڑی دیکھ کر وقت بتایا مجھے لگ رہا تھا جیسے وقت اڑا جارہا ہے۔ بوند بوند کرکے تیزی کے ساتھ رس رہا ہو۔ اس وقت اندھیرا ہی تھا جب میں نے ٹام کی آواز سنی۔
’’تم نے وہ آہٹیں سنیں؟‘‘ ٹام نے پوچھا۔
’’باہریارڈ میں کچھ لوگ مارچ کر رہے تھے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ کیاکررہے ہوں گے۔ وہ اندھیرے میں تو گولی چلا نہیں سکتے۔‘‘
تبھی وہ آہٹیں بند ہوگئیں۔
’’وہ پچھواڑے والے یارڈ میں ہوں گے۔‘‘میں نے کہا۔
ٹام نے ڈاکٹر سے ایک سگریٹ مانگی۔ پھر مجھ سے پوچھا، ’’تم کچھ اندازہ لگا سکتے ہو کہ باہر کیا ہورہا ہے؟‘‘ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا کہ دروازے پر آہٹ ہوئی۔ اگلے ہی پل تہہ خانے کا دروازہ کھلا۔ ایک لیفٹیننٹ دو سپاہیوں کے ساتھ اندر آیا۔ ٹام کے ہاتھ سے سگریٹ چھوٹ گئی۔
’’اسٹین واک۔‘‘
ٹام نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن پیڈرو نے اس کی جانب اشارہ کردیا۔
’’زوان ہربل۔‘‘
’’وہاں،چٹائی پر۔‘‘
زوان اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ دونوں سپاہیوں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ جیسے ہی انہوں نے اسے چھوڑا وہ پھر گرپڑا۔ سپاہی جھجکے۔ ’’یہ بیمار نہیں ہے اسے اٹھا کر لے چلو۔ وہیں دیکھیں گے۔‘‘ کہتا ہوا لیفٹیننٹ ٹام کی جانب مڑا، ’’اسے لے چلو۔‘‘
ٹام سپاہیوں کے درمیان چل پڑا۔ دونوں کندھوں پر زوان کو ٹانگے سپاہی چل پڑے۔ زوان کے ہوش و حواس گم نہیں ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔رخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے۔ میں ان کے ساتھ چلنے کو ہوا تو لیفٹیننٹ نے روک دیا۔ ’’تم ابیتیا ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’یہیں ٹھہرو۔ تمہارے لیے بعد میں آئیں گے۔‘‘
وہ چلے گئے، ڈاکٹر بھی۔ میں تنہا رہ گیا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ پھر بھی چاہ رہا تھا کہ جو بھی ہونا ہو، صحیح ڈھنگ سے ہوجائے۔ قریب قریب مجھے بندوقوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہر آواز پر میں کانپ جاتا۔ میں چیخ کر اپنے بال نوچنا چاہتا تھا۔ میں نے دانت بھینچے اور دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ٹھونس لیے۔ میں ایک اچھی موت مرنا چاہتا تھا۔
ایک گھنٹے کے بعد وہ پھر آئے۔ وہ مجھے پہلی منزل پر بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے۔ جو بے حد گرم اور سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔ دو افسر سگریٹ پیتے ہوئے آرام کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
’’تم ابیتیا ہو؟‘‘ایک نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’رامن گریس کہاں ہے؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم؟‘‘
سوال کرنے والا افسر چھوٹے قد کا اور موٹاتھا۔ چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی اس کی آنکھیں بے حد ظالم لگ رہی تھیں۔ اس نے حکم دیا، ’’یہاں آؤ۔‘‘
میں اس کے پاس پہنچا۔ اس نے میرے کندھے پکڑ لیے اور ایسے دیکھنے لگا جیسے میں زمین میں دھنس جاؤں گا۔ اس کے علاوہ میرے بازوؤں کو پوری قوت کے ساتھ بھینچنے لگا۔ یہ کام مجھے تکلیف دینے کے لیے نہیں تھا ایک کھیل جیسا تھا۔ وہ مجھے اپنی طاقت سے توڑنا چاہتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے لیے میرے چہرے پراپنی بدبودار سانسیں بھی چھوڑنی چاہیے۔ ایک پل ہم دونوں اسی حالت میں کھڑے رہے۔ میرا دل چاہا کہ میں ہنس دوں۔ مرتے ہوئے آدمی کوڈرانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کا طریقہ کامیاب نہیں ہوا۔ مجھے زور کا دھکا دینے کے بعد وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’تمہاری یا اس کی زندگی میں سے کسی ایک کا سوال ہے۔ تم ہمیں بتا دوکہ وہ کہاں ہے؟ تو تمہاری زندگی بچ سکتی ہے۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور سوچنے لگا اپنی وردی میں چست درست یہ لوگ بھی کبھی نہ کبھی مریں گے۔ چاہے کچھ وقت کے بعد۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’یہ لوگ مڑے ہوئے کاغذات میں ناموں کو تلاش کرتے ہیں۔ لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں اور ظلم کرنے کے لیے بھاگتے ہیں۔ اسپین کے مستقبل کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ یہ بھی کبھی نہ کبھی تومریں گے ہی۔‘‘
اب مجھے ان کی معمولی سے معمولی حرکتیں بھی ڈرامائی نظر آنے لگیں۔ مجھے اس پر کچھ افسوس ہوا۔ مجھے لگا کہ یہ لوگ خطرناک ہوچکے ہیں۔ چھوٹے قدوالا افسر ہاتھ کی چھڑی سے جوتوں کو ٹھونکتا ہوا اب مجھے گھور رہا تھا۔ اس کا گھورنا کسی خونخوار جنگلی جانور جیسا اثر ڈالنے کے مترادف تھا۔
’’تو تمہاری سمجھ میں کچھ آیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ گریس کہاں ہے۔ میرے خیال میں اسے میڈرڈ میں ہی کہیں ہونا چاہیے۔‘‘میں نے کہا۔
’’تمہیں غوروفکر کے لیے پندرہ منٹ دیے جاتے ہیں۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’اسے لانڈری میں لے جاؤ۔ پندرہ منٹ بعد واپس لے آنا۔ اس کے بعد بھی اگر یہ انکار کرے تو اسے یہیں گولی سے اڑا دیا جائے گا۔‘‘
انہیں پتہ تھا۔ وہ کیا کر رہے ہیں۔ میں نے ساری رات انتظار میں گزاری تھی۔ آدھے گھنٹے سے کیا فرق پڑنے والا تھا۔
انہوں نے مجھے ایک گھنٹہ تہہ خانے میں رکھا تھا۔ اس دوران ٹام اور زوان کو گولیوں سے اڑا دیا گیا تھا اوراب وہ مجھے لانڈری میں لے جارہے تھے۔ میں نے سوچا انہوں نے پچھلی رات ہی سب طے کرلیا ہوگا۔ شاید انہیں اعتماد تھا کہ اس طرح آدمی ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طریقے سے وہ مجھے بھی توڑنے کی کوشش میں تھے لیکن وہ غلط تھے۔ لانڈری میں پہنچ کر میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔ میں کافی کمزوری محسوس کررہا تھا۔ مجھے پتہ تھا، گریس شہر سے چارکلومیٹر کے فاصلے پر اپنے چچا زاد بھائیوں کے پاس روپوش ہے۔ میں جانتا تھا کہ ایذا پہنچائے جانے کے بعد میں اس کا پتہ بتا دوں گا مگر لگتا تھا وہ مجھے ایذا دینا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے سارے کام منصوبہ بند طریقے سے انجام پاتے تھے۔ جس میں میری کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اچانک میرے دل میں ایک خیال ابھرا۔ کیا میں گریس کا پتہ بتانے کی بجائے مرنا پسند کروں؟ لیکن کس لیے؟طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی میرے دل میں سے اس کے لیے دوستی ختم ہوچکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی کونچا کے لیے پیار بھی۔ صرف اتنا ہی نہیں۔ خود کو زندہ رکھنے کی چاہت بھی ختم ہوگئی تھی۔ ویسے تو گریس کے لیے میرے دل میں احترام کا جذبہ تھا۔ وہ ایک مضبوط ارادے والا شخص تھا لیکن اب اس کی زندگی میرے لیے اپنی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں تھی۔ ان لوگوں کو کسی ایک آدمی کی ضرورت تھی جسے وہ دیوار سے لگا کرا س کی آخری سانس تک گولیاں چلاتے رہیں یا تووہ گریس ہوسکتا ہے یا پھر میں! اس سے ان کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مجھے احساس تھا کہ اسپین کو میرے مقابلے گریس کی زیادہ ضرورت ہے مگر میں اپنے خیالوں میں اسپین کی بغاوت کو بھی بھاڑ میں جھونکنے کو تیارتھا۔ اس وقت میرے لیے دنیا کی ہر چیز واہیات ہوگئی تھی۔ پھر بھی یہ بات عجیب تھی کہ میں گریس کا پتہ نہ دے کر اپنی جان گنوانے جارہا تھا۔ یہ بات مجھے دلچسپ لگی۔ میں نے سوچا اس وقت مجھے سخت ہونے کی ضرورت ہے۔
پندرہ منٹ بیت جانے کے بعد وہ پھر آئے اور مجھے دونوں افسروں کے سامنے لے گئے۔ میرے پاؤں کے قریب سے ایک چوہا بھاگ نکلا۔ یہ دیکھ کر مجھے اچھا لگا۔ میں نے مذاق سے ایک سپاہی سے پوچھا، ’’کیا تم نے اس چوہے کو دیکھا۔‘‘ اس نے جواب نہیں دیا۔ اسی طرح سنجیدہ چہرہ بنائے رہا۔ میں نے زور سے ہنسنا چاہا مگر اپنے آپ کو روک لیا۔ میں جانتا تھا کہ ایک بار ہنسنا شروع کردوں گا تو روکنا مشکل ہوجائے گا۔ میں نے سپاہی کی مونچھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’تمہیں اپنی مونچھیں منڈوا لینی چاہیے۔‘‘ مجھے یہ سوچ کر مزہ آرہا تھا کہ بنا مونچھ کے اس کا چہرہ کتنا عجیب لگے گا۔
’’اچھا، تم نے اچھی طرح سوچ لیا؟‘‘ موٹے افسر نے پوچھا۔
’’وہ قبرستان میں چھپا ہے۔ کسی قبر میں یا قبر کھودنے والے کی جھونپڑی میں۔‘‘ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جیسے وہ کیڑے مکوڑے ہوں۔
لیکن یہ میرا وہم تھا۔ میں انہیں فوراً کھڑا ہوتے، بیلٹ کستے اور حکم دیتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا، یہی ہوا۔ وہ اچھل کر کھڑے ہوگئے۔ ’’ہمیں چلنا چاہیے۔ مولس تم پندرہ سپاہی لے کر جاؤ۔‘‘ یہ کہنے کے بعد افسر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’اگر تمہاری بات سچ ہے تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا لیکن اگر تم ہمیں بے وقوف بنا رہے ہو تو اس کی بھرپور قیمت تمہیں چکانی پڑے گی۔‘‘ وہ بڑبڑاتا ہوا نکل گیا۔ میں سپاہیوں کی نگرانی میں اطمینان سے انتظار کرنے لگا۔ ان کی حالت کا تصور کرکے مجھے ہنسی آ رہی تھی۔
تصور میں میں نے انہیں قبروں کے پتھر اٹھاتے اور ایک جھونپڑی کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھا پھر میں نے دیکھا کہ بڑی مونچھوں اور وردی والے سپاہی مجھے پکڑنے کے لیے میرے پیچھے حکم دینے کے لیے آیا ہے۔ آدھے گھنٹے بعد موٹا افسر واپس آیا۔ مجھے لگا مجھے گولی مارنے کا حکم دینے آیا ہے۔ وہ بے حد چست دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے میری طرف دھیان سے دیکھا اور بولا، ’’اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ یارڈ میں لے جاؤ۔ فوجی کارروائی کے بعد عدالت فیصلہ کرے گی کہ اس کا کیا کیا جائے؟‘‘
’’تو مجھے گولی سے نہیں اڑایا جائے گا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
افسر نے کندھے اچکائے، سپاہی مجھے باہر لے آئے۔ یارڈ میں تقریباً چار سو قیدی تھے۔ ان میں عورتیں بچے، بوڑھے سبھی تھے۔
دوپہر کو انہوں نے ہمیں میس کے ہال میں کھانا کھلایا۔ دو تین لوگوں نے مجھ سے کچھ سوالات کیے۔ جن کا میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ شام کے دھندلکے میں وہ مزید دس قیدیوں کو اندر دھکیل گئے۔ میں نے بسکٹ فروخت کرنے والی گارسیا کو پہچان لیا۔ ’’تمہاری قسمت اچھی ہے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ تمہیں زندہ دیکھوں گی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’مجھے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد میں انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیوں؟‘‘
’’انہوں نے مجھے دو بجے گرفتار کیا؟‘‘ گارسیا نے کہا۔
’’کس جرم میں؟‘‘
’’پتہ نہیں، وہ ہر اس آدمی کو گرفتار کرلیتے ہیں جو ان کی طرح نہیں سوچتا۔ انہوں نے رامن گریس کو بھی گرفتار کرلیا۔‘‘
’’کب؟‘‘ میں کانپنے لگا۔
’’آج صبح لیکن ساری غلطی گریس کی تھی۔ منگل کو اس نے چچا زاد بھائیوں کا گھرچھوڑ دیا۔ ان سے کسی بات پر بحث ہوگئی تھی۔ بہت سے لوگ ا س کی مدد کو تیار تھے لیکن اس نے کسی کا احسان لینا قبول نہیں کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں ابیتیا کے گھر چھپ سکتا تھا لیکن اسے پکڑ لیا گیا۔ اس لیے اب میں قبرستان میں جاکر چھپ جاؤں گا۔‘‘
’’قبرستان میں؟‘‘
’’انہوں نے اسے قبرکھودنے والے کی جھونپڑی سے گرفتار کرلیا۔ گریس نے ان پر گولیاں چلائیں مگر وہ پکڑلیا گیا۔‘‘
مجھے اپنے آس پاس کی ہر چیز گھومتی ہوئی لگ رہی تھی۔ میں زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر خود بہ خود قہقہہ لگانے لگا۔