کوچہ ء بدنام کی مسجد ۔۔۔ نجیب محفوظ
کوچۂ بدنام کی مسجد
نجیب محفوظ
عصر کے درس کا وقت قریب ہوچلا تھا، لیکن مسجد میں صرف ایک ہی سامع تھا ۔ امامِ مسجد شیخ عبد ربہ کےلیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ جب سے اس مسجد میں آئے تھے ، صرف ایک ہی سامع ان کے درس میں حاضر ہوتا تھا۔ یہ سامع چچا حسنین تھے جو گنے کا جوس بیچتے تھے۔ مسجد کے مؤذن اور خادم بھی درس میں شامل ہوجاتےتھے تاکہ درس کااحترام برقرار رہے اور امام صاحب کی دلجوئی بھی ہوجائے۔ شیخ عبد ربہ کو بجا طور پر یہ اچھا نہیں لگتا تھا ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس کے عادی ہوگئے تھے۔ وہ دن ان کی زندگی کا بد بخت ترین دن تھا جب ان کی منتقلی کوچۂ بدنام کی اس مسجد میں طے پائی تھی۔ اس دن وہ سخت غضبناک ہوئے تھے اور اس منتقلی کو رکوانے یا تبدیل کرانے کی پوری کوشش کی تھی۔ لیکن آخر کار مجبورا انہیں یہ منتقلی تسلیم کرنی پڑی۔ رقیبوں نے کھِلّی اڑائی، تو دوستوں نے مزا لیا۔ اسے اپنے درس کے لیے سامع کہاں ملیں گے؟ مسجد دو اڈوں کے سنگم پر واقع تھی۔ ایک طرف طوائفوں کا کوٹھا تھا، تو دوسری طرف دلالوں اور نشیڑیوں کا جمگٹھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پورے محلے میں سوائے چچا حسنین کے کوئی بھی نیک یا سنجیدہ آدمی نہیں تھا۔ ان کی نظر جب بھی اِس کوٹھے یا اُس اڈے پر پڑتی تو وہ سہم سے جاتے۔ گویا کہ انہیں ڈرتھا کہ کہیں شرم وحیا باختگی کے جراثیم ان کےسانس لینے کے ساتھ ہی ان کے سینے میں نہ گھس جائیں۔ اس کےباوجود ، وہ پابندی کے ساتھ درس دیتے رہے اور چچا حسنین پابندی کے ساتھ درس سننے آتے رہے ، یہاں تک کہ امام صاحب نے ایک دن چچا حسنین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا:
– اتنی محنت کررہے ہیں آپ ! اتنی محنت کے ساتھ تو آپ جلد ہی خود امام ومرجع بن جائیں گے!
بوڑھے چچا شرماکر ہنسے اور بولے!
– اللہ کے علم کی کوئی حد نہیں ہے۔۔
آج کا درس نفس کی پاکیزگی پر تھا۔ امام صاحب کہہ رہے تھے کہ نفس کی پاکیزگی پر ہی اخلاص کی بنیاد ہے، یہ لوگوں کے درمیان اچھےبرتاؤ اور تعلقات کی ضامن ہے، یہ سب سے اچھی چیز ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے دن کی شروعات کرتا ہے ، چچا حسنین نے اپنی عادت کے مطابق کمال توجہ کے ساتھ درس سنا ۔ وہ بہت کم ہی سوال کرتے تھے، صرف کبھی کبھی کسی آیت کے معنی اور کسی فریضہ کے بارے میں پوچھ لیاکرتے تھے۔
سنگینیٔ اتفاق دیکھو کہ عصر کے وقت ہی کوٹھے میں چہل پہل شروع ہوجاتی تھی۔ پورا کوٹھا مسجد کے سامنے والی کھڑکی سے دکھائی دیتا تھا، ایک تنگ پٹی کی شکل میں ، کہیں کہیں ٹیڑھا میڑھا تھا، لیکن دور تک چلا گیا تھا، اس کے دونوں کناروں پر بوسیدہ گھروں اور قہوہ خانوں کے دروازے تھے۔ ایک عجیب قسم کا شہوت انگیز منظرتھا۔
عصر کے وقت، کوٹھے میں تیاری کی لہر دوڑ جاتی ہے، ایسا لگتا کہ کوٹھا ابھی نیند سے بیدار ہوکر چلنا ہی چاہتا ہے۔ زمین پر پانی کا چھڑکاؤ ہوتاہے، دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور ان پر عجیب وغریب قسم کے دستک دئے جاتےہیں ۔ قہوہ خانوں کی کرسیاں ترتیب سے لگادی جاتی ہیں، کھڑکیوں میں عورتیں بن سنور کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور بات چیت کرتی ہیں ۔ فضا میں حیا سوز ہنسی گونج جاتی ہے، راہداری میں خوشبو جلادی جاتی ہے، اسی دوران کسی عورت کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے ، لیکن بائی فوراً ہی اسے چپ کراتی ہے مبادا مرنے والی کے ساتھ ان کی روزی بھی نہ چلی جائے۔
ایک دوسری عورت ہسٹیریائی انداز میں ہنستی ہے اپنی اس سہیلی کو یادکرکے جو اس کے بغل میں بیٹھے بیٹھے ہی مرگئی تھی۔
فحش اور سوقیانہ گانوں کی مشق کرتی ہوئی کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں ، کوٹھے کے آخری حصہ میں چہل پہل شروع ہوتی ہے، جو کرسیاں ترتیب دینے کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ کوٹھے کی مالکن نکلتی ہے اور پہلے گھر کے دروازے کے سامنے بیٹھ جاتی ہے، پہلا فانوس جلا دیاجاتا ہے اور سب جان لیتے ہیں کہ عنقریب ہی کوٹھا آباد ہوجائے گا۔
ایک دن شیخ عبدہ کو کال آیا ، انہیں مذہبی امور کے نگرانِ اعلی سے ملاقات کے لیے بلایا گیا تھا، ان سے یہ بھی کہا گیا کہ تمام اماموں کو بلایا گیا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی ، خاص طور پر موجودہ حالات کو دیکھ کر تویہ بالکل بھی کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ اس کے باوجود شیخ عبدہ فکرمند ہوگئے اور لوگوں سے اس بلاوے کے اسباب کے تعلق سے پوچھ تاچھ کی۔ نگرانِ اعلی کی با اثر شخصیت دیکھتے ہوئے ان کا پوچھ تاچھ کرنا بجا تھا۔ یہ نگرانِ اعلی ایک بہت بڑے عہدیدار کا قریبی تھا، یہ عہدیدار لوگوں کے درمیان بری شہرت کا مالک تھا، اس کی پہچان ایک ایسے عہدیدار کے طور پر تھی جو کنگ میکر کی حیثیت رکھتا تھااور تمام قومی مقدسات کے ساتھ کھلواڑ کرتاتھا۔ عنقریب ہی وہ سب ہی اس کے سامنے بربادی کے نمائندوں کے طور پر کھڑے ہوں گے اور ادنی سی لغزش سرزد ہوتے ہی غصہ کی آندھی انہیں لےاڑے گی۔
بہر حال شیخ نے بسم اللہ کیا اور بہترین انداز میں میٹنگ کے لیے تیار ہوئے۔ کالے رنگ کا جبہ زیب تن کیا، نیا سا کاخان پہنا، عمامہ سرپر رکھا اور اللہ پر بھروسہ کرکے چل نکلے۔ نگرانِ اعلی کےدفتر کے سامنے شدید ازدحام تھا، شیخ عبدہ کے مطابق بالکل حشر کے دن جیسی بھیڑ تھی۔ تمام امام میٹنگ کے تعلق سے چہ میگوئیاں کررہے تھے۔ اسی دوران بڑا دروازہ کھلا اور انہیں داخل ہونے کو کہا گیا۔ سب امام فوراً ہی کشادہ کمرہ میں داخل ہوئے یہاں تک کہ کمرہ کھچاکھچ بھر گیا۔ نگرانِ اعلی ان کی جانب پروقار اور بارعب لہجہ میں متوجہ ہوا۔ کچھ اماموں نے اس کی تعریف میں مدحیہ شاعری کہی جسے اس نے ایسے سنا جیسے کہ وہ اسے پسند نہ ہوں ، اس دوران اس کے ہونٹوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ دراز تھی۔ پھر سناٹا چھا گیا، اس نے حاضرین پر ایک نگاہ دوڑائی اور انہیں مختصر سا سلام کیا ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اسے یقین ہے کہ وہ اس کی امیدوں پر کھرا اتریں گے، پھر اس نے اپنے سرکے اوپر لٹکی ہوئی تصویر کی جانب اشارہ کرکے کہا:
-اِن کے اور اِن کے خاندان کے تئیں ہمارا فرض ہی اس میٹنگ کا سبب ہے۔
بہت سارے حاضرین کی پیشانیاں شکن آلود ہوگئیں ۔ نگرانِ اعلی کی نگاہیں بدستور ان کے چہرے پر مرکوز تھیں ، اس نے کہا:
– آپ لوگ اِن کے ساتھ جس مضبوط رشتہ سے بندھے ہوئے ہیں ، اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہے، آپسی محبت کی ایک تاریخ رہی ہے۔
دل کی سوزش کم کرنے کے لیے لوگوں نے خوش مزاجی کے ساتھ تائید کی ۔۔اس نے مزید کہا:
– یہ حالیہ بحران جس سے ملک دوچار ہے، آپ لوگوں سے پرخلوص عمل کا تقاضا کرتاہے۔
دلوں کے نہاں خانوں میں اضطراب بڑھ گیا:
لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں ! دجالوں اور شر انگیزوں کو بے نقاب کردیں تاکہ حقدار کا حق پختہ ہوجائے۔
نگرانِ اعلی اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور ٹہلتے ہوئے پوچھا کہ کوئی سوال ہے؟ موجودین پر خاموشی طاری ہوگئی یہاں تک کہ ایک بے خوف امام کھڑا ہوا اور کہا کہ جناب نگرانِ اعلی نے ہمارے دل کی بات کہہ دی ہے ، اگر ہدایات کی خلاف ورزی کا خوف نہ ہوتا تو وہ خودہی بڑھ کر یہ فرض نبھاتے۔ نگرانِ اعلی کے بات شروع کرتے ہی شیخ عبد ربہ کی پریشانی ختم ہوگئی تھی انہیں فورا ہی معلوم ہوگیا تھا کہ انہیں کسی قسم کے محاسبہ یا تفتیش کے لیے نہیں بلایا گیا ہے بلکہ اس مرتبہ حکومت ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشاں ہے ۔ کسے معلوم ہے ، ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد ان کی حالت کی بہتری کے لیے اقدامات کئےجائیں اور ان کی تنخواہوں اور بھتوں میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن جلد ہی وہ پھر پریشان ہوگئے جیسے صاف ستھرے ریتیلے ساحل پر پھیلی ہوئی موج تھوڑی دیر بعد ہی جھاگ میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ انہیں بخوبی پتہ چل گیا تھا کہ حکومت ان سے کیا چاہتی ہے؟
عنقریب ہی انہیں جمعہ کے خطبہ میں وہ سب کہنا پڑ ےگا جو ان کے ضمیر کے خلاف اور لوگوں کی شدید ناراضگی کا باعث ہوگا۔انہیں اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ انہیں جیسے بہت سے ہیں جو ان کے جذبات میں ساجھی ہیں او ر اسی بحران کے شکار ہیں۔ لیکن ایسا لگتاتھا کہ سب کے لیے بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ نئے فکر میں غلطاں وپیچاں مسجد لوٹ آئے۔
٭ ٭ ٭
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
علاقہ کا مشہور غنڈہ شلضم اپنے گینگ کے ساتھ مسجد سے کچھ ہی دوری پر واقع شراب خانہ ’’ اھلا وسھلا‘‘ میں بیٹھا ہواتھا، وہ انتہائی غضبناک تھا اور شراب کے ہر پیگ کے ساتھ اس کا غصہ مزید بھڑک جاتا ۔ وہ گرجدار آوازمیں بولا:
-یہ پاگل لڑکی ’’نبویۃ‘‘ اس حسان نامی لونڈے سے محبت کرتی ہے، مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
ایک ساتھی نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا:
– ہوسکتا ہے کہ صرف گاہک ہو ، صرف گاہک نہ کم ، نہ زیادہ !
شلضم نےاپنا فولادی ہاتھ میز پر پٹخا، میز پر رکھے ہوئے برتن اور مونگ پھلی کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھر گئے، وہ وحشتناک آواز میں چیخا:
– نہیں ۔۔ وہ لیتا ہے ، دیتا کچھ نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرا خنجر ہی اس کا کام تمام کرے گا، وہ پھوٹی کوڑی بھی نہیں دیتا لیکن مختلف شکلوں میں خوب تحفے وصول کرتاہے!
چہروں پر نفرت و حقارت چھاگئی، خمار آلودنگاہوں نے تابعداری کا اعلان کیا ، وہ بولا:
-وہ لونڈا عموما اس وقت آتا ہے جب وہ ناگن ناچتی ہے، اس کے آنے کا انتظار کرو، پھر کسی طرح بھڑجاؤ، باقی لوگ۔۔۔
انہوں نے باقی ماندہ پیگ چڑھایا، ان کی آنکھوں سے انکے برے ارادے منعکس ہورہے تھے۔
٭ ٭ ٭
نماز عشاء کے بعد ، شیخ عبد ربہ نے اپنے دو ہم جماعت اماموں سے ملاقات کی، ایک کا نام خالد اور دوسرے کا نام مبارک تھا۔ وہ دونوں اس کے پہلو میں منہ لٹکائے ہوئے بیٹھے تھے۔انہوں نے کہا کہ کچھ اماموں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اس پروپیگنڈہ کا حصہ بننے سے منع کردیا تھا۔ خالد نے شکایت بھر ے انداز میں کہا:
-عبادت گاہیں سیاسی دھینگا مشتیوں اور ڈکٹیٹروں کی تائید کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں !
شیخ عبد ربہ کو لگا کہ ان کا دوست ان کے زخم پر نمک چھڑک رہا ہے اور انہوں نے سوال کیا:
-کیا بھوکے مرنا چاہتے ہو؟
ایک بوجھل سناٹا پسر گیا شیخ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ان دونوں کے سامنے اپنی ناک بچانے کے لیے یہ ظاہر کیا کہ وہ اطمینان کے ساتھ یہ کام کریں گے، وہ گویا ہوئے:
-جسے کچھ لوگ دھینگا مشتی سمجھتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ وہی عین حق ہو۔
شیخ کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھ کر خالد دنگ رہ گیا اور بات چیت کرنے سے کترانے لگا، رہا مبارک ، تو اس نے غصہ کے ساتھ کہا:
-ہم ایک اسلامی اصول کو قتل کردیں گے ، جس کا نام امر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے۔
عبد ربہ اس پر غصہ ہوگئے، وہ اندر ہی اندر اپنے ضمیر پر بھی غصہ تھے جو انہیں اذیتیں دے رہا تھا۔ وہ بولے:
– بلکہ ہم ایک اسلامی اصول کو زندہ کریں گے جس کا نام ہے ۔ اللہ ، اس کے رسول اور أولی الأمر کی اطاعت کی دعوت دینا۔
مبارک نے اس پر سخت نفرت بھرے انداز میں سوال کیا:
-کیا تم اِنہیں أولی الأمر سمجھتے ہو؟!
عبد ربہ نے چیلنج بھر ے انداز میں اسی سے سوال کیا:
-یہ بتا خطبہ دینے سے انکار کردے گا؟
مبارک ناراض ہوکر اٹھ کھڑا ہوا، پھر وہاں سے چلا گیا، تھوڑی دیر میں خالد بھی وہاں سے چلاگیا۔ شیخ نے دونوں کو کوسا اور بغاوت پر آمادہ اپنے دل کو بھی برا بھلا کہا۔
٭ ٭ ٭
آدھی رات سے تھوڑا پہلے، داہنی طرف سے ساتویں کوٹھے کا صحن نشیڑیوں سے بھر گیا ۔ وہ ایک ریتیلی زمین کے ارد گرد دائرہ کی شکل میں لگی لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اس ریتیلی زمین پر روشنی کا فوکس تھا ۔ نبویۃ گلابی رنگ کا سلیپنگ ڈریس پہنے ناچ رہی تھی۔ تالیاں بج رہی تھیں ، خمار آلود زبانوں سے وحشیانہ چیخیں بلند ہورہی تھیں اور شلضم کی نگاہیں کوٹھے کے دروازے پر مرکوز تھیں۔ اچانک حسان ترتیب سے سنوارے ہوئے بالوں اور دمکتے چہرے کے ساتھ داخل ہوا۔ شلضم کی دہکتی نگاہوں نے اس کا تعاقب کیا ۔ حسان کھڑا نبویۃ کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ اس کو اس کی آمد کا پتہ چل گیا۔ نبویۃ نے دراز مسکراہٹ ، رقص کناں پیٹ کی الھڑ حرکت اور آنکھوں کے اشارے سے اپنے محبوب کو خوش آمدید کہا۔
حسان اکڑ کر آگے بڑھتاہے اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ شلضم کا خون کھول اٹھتا ہے اور وہ سیٹی کی ہلکی سی آواز نکالتا ہے۔ اس کے گینگ کے دولڑکے آپس ہی میں بھِڑ جاتےہیں، دوسرے لوگ بیچ بچاؤ کے لیے آتے ہیں، لڑائی مزید سخت ہوجاتی ہے یہاں تک کہ نشہ میں دھت لوگ دروازے کی طرف بھاگنے لگتےہیں ایک کرسی فانوس پر آکر لگتی ہے ، فانوس ٹوٹ جاتا ہے اور چاروں طرف سخت تاریکی پھیل جاتی ہے۔ پیروں کی دھمک کے ساتھ چیخ کی آواز خلط ملط ہوجاتی ہے ۔ آوازیں بلند ہوجاتی ہیں ، کسی عورت کی چیخ فضا میں بلند ہوتی ہے، اس کے فورا بعد کوئی آدمی بری طرح کراہتا ہے ۔ جلد ہی غبار آلود صحن لوگوں سے خالی ہوجاتاہے، وہاں باقی بچتی ہیں تو دو لاشیں جو پڑی پڑی خاموش تاریکی کو آبادکئے ہوتی ہیں۔
اگلا دن جمعہ کا تھا ۔ نماز کے وقت دیگر دنوں کے برعکس مسجد نمازیوں سے بھر گئی ، کیونکہ جمعہ کی نماز کے لیے دور دراز علاقوں جیسے خازند ار اور عتبۃ سے بھی لوگ آتے تھے ۔ قرآن کی تلاوت کی گئی ، پھر شیخ عبد ربہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ، ایسا لگا کہ سیاسی خطبہ سن کر نمازیوں کو دھچکا لگا ، انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ انہیں یہ سب سننے کو مل سکتا ہے، اطاعت اور وفاداری کے وجوب پر مقفع مسجع عبارتیں سن کر وہ شک اور شدید غضب کے شکار ہوگئے۔ جیسے ہی خطبہ میں ان لوگوں کو برا بھلا کہاگیا ’’جوقوم کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے لوگوں کو بغاوت پر ابھارتے ہیں ‘‘، مسجد میں واویلا مچ گیا ، چاروں طرف احتجاج و ناراضگی کی صدا بلند ہوئی، کچھ لوگوں نے بآواز بلند اعتراض کیا ، کچھ دوسرے لوگوں نے امام کو گالیاں دیں، اسی وقت نمازیوں کے درمیان موجود جاسوس اٹھے اور احتجاج وغصہ کے طوفانی شور وشرابہ کے درمیان بہت زیادہ مخالفت کرنے والوں کو کھینچ کر باہر لے گئے۔
بہت سے لوگ مسجد چھوڑکر چلے گئے۔ لیکن امام نے باقی لوگوں کو نماز کے لیے بلایا، بڑی غمناک اور رنجور نماز تھی۔
٭ ٭ ٭
اسی دوران ، بائیں جانب سے دوسرے کوٹھے کے ایک کمرہ میں ایک طوائف اور ایک گاہک موجود تھے، طوائف بیڈ کے کنارے نیم برہنہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا جو آدھا پانی سے بھر اہوا تھا اور اس میں کھیر ا تھا، وہ وہی کھیرا کھا رہی تھی۔ بستر کے سامنے ایک کرسی پر گاہک بیٹھا ہوا تھا، وہ اپنی جیکٹ نکال رہا تھا اور برانڈی کی چسکیاں لے رہا تھا۔ اس کی نگاہوں نے سرسری طور پر کمرے کا جائزہ لیا، پھر آکر طوائف پر ٹھہر گئیں، اس نے جام اس کے ہونٹوں سے قریب کیا، اس نے ایک گھونٹ پی، اس نے جام پھر اس کے ہونٹوں سے لگایا، مسجد سے آنے والی تلاوت کی آواز ان کے کانوں پر پڑی، اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی نادیدہ مسکراہٹ مرتسم ہوگئی ، اس نے اس کی طرف دیکھا اور غصہ سے بڑ بڑایا:
-یہ لوگ اس جگہ مسجد کیوں بناتے ہیں؟ پوری دنیا میں انہیں کوئی اور جگہ نہیں ملی ؟
طوائف نے بغیر کھیرا کھانا بند کئےہوئے کہا :
– یہ جگہ بھی دوسری جگہوں کی طرح ہی ہے۔
اس نے دوپیگ چڑھائی اور تیز نگاہوں سے اس کے چہرہ کو ٹٹولتے ہوئے کہا:
– کیا تو اللہ سے نہیں ڈرتی؟
-ہمارا رب ہمیں معاف کردے گا۔۔۔
اس کے حلق سے ایک طوفانی قہقہہ بلند ہوا، اس نے کھیرا طوائف کے ہاتھوں سےلے کر اپنے منہ میں ٹھونس لیا، اس لمحہ امام عبد ربہ اپنا خطبہ دے رہے تھے، وہ سر جھکائے ان کی باتیں سنتا رہا، پھر استہزائیہ انداز میں مسکرا کر بولا:
-منافق !۔۔ سنو تو یہ منافق کیا کہہ رہا ہے!
اس نے اپنی نگاہیں کمرہ میں دوڑائیں ۔ اس کی نظر سعد زغلول کی ایک تصویر پر آکر رک گئی جو پرانی ہونے کی وجہ سے دھند لاگئی تھی ، اس نے تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:
– انہیں پہچانتی ہو؟
-انہیں کون نہیں پہچانے گا؟
اس نے جام میں بچی کھچی شراب اپنے پیٹ میں انڈیل لی اور بوجھل زبان میں کہا :
– طوائف محب وطن اور شیخ منافق!
اس نے کراہتے ہوئے کہا:
-ہائے رے قسمت ! وہ دولفظ بول کر خزانہ لوٹ لیتا ہے اور ہمیں دو آنہ اس وقت تک نہیں ملتاجب تک کہ ہم اپنے پورے جسم کا پسینہ نہ بہادیں۔۔
اس نے مزید چٹکی لیتے ہوئے کہا:
– یہاں بہت سے عزت دار لوگ ہیں جو تمہاری اس بات سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں رکھتے، لیکن ایسا کہنے کی ہمت کون جٹائے ؟
-نبویۃ کے قاتل کے بارے میں سب کو معلوم ہے ، لیکن اس کے خلاف گواہی دینے کی ہمت کون جٹائے ؟
اس نے اپنا سر افسوس کے ساتھ ہلایا اور بولا:
– نبویۃ!۔۔۔۔ بیچاری ! ۔۔۔۔ اس کا قاتل کون ہے؟
-شلضم ، اللہ اسے واصل جہنم کرے۔۔۔
-اے ساتر، اے رب، رب اس کا گواہ ہے، اچھا ہے کہ اس ملک میں صرف ہم ہی گناہ گار نہیں ہیں۔۔۔
اس نے اسے ڈانٹ کر کہا:
-لیکن تم بات کرنے میں وقت برباد کردیتے ہو۔۔!
٭ ٭ ٭
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
شیخ عبد ربہ نے مسجد میں وقوع پذیر ہونے والے حادثہ کا استعمال اپنے مفاد کے لیے کرنے کا عزم کیا ، انہوں نےوزارت کو ایک شکایت نامہ بھیجا جس میں انہوں نے لکھا کہ انہیں اپنے قوم پرست خطبہ کی وجہ سے پریشانیوں اور دست درازیوں کا سامنا ہے۔ انہوں نےاس واقعہ کوبطور خاص ان کی دفاع کے لیے پولیس والوں کی دخل اندازی اور حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے معاملہ کو بعض اخباروں میں مبالغہ آمیز شکل میں شائع کروانے کی کوشش کی ، انہیں قوی امید تھی کہ وزارت ان کی حالت بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے گی۔ لیکن عصر کے وقت انہیں ایک نئی صورتحال کا سامنا تھا ۔ عصر کے درس کے وقت آج کوئی سامع نہیں تھا، انہوں نے دروازہ سے جوس کی دکان کی طرف نظر دوڑائی ، جوس والا اپنے کام میں منہمک تھا ، انہیں لگا کہ وہ درس بھول گیا ہے، وہ دروازے کے قریب آئے اور اس کا نام لےکر پکارا:
– چچا حسنین ، درس۔
چچا حسنین نےآواز پر بلا ارادہ اپنا سر گھمایا ، لیکن جلد ہی سختی کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے رخ پھیر لیا۔شیخ عبد ربہ خجل ہوگئے ، اسے پکارنے پر پچھتائے اور اسے کوستے ہوئے لوٹ گئے۔
فجر کی اذان کا وقت تھا ، رات کا سناٹا پسرا ہواتھا، ہوا میں ٹھنڈک تھی اور چاند آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ مؤذن اذان گاہ پر چڑھا اور فضا میں ’’اللہ اکبر ‘‘ کی آواز بلند ہوگئی ۔ ابھی وہ اذان کے کلمات دہرانا چاہتا ہی تھا کہ فضا میں بمباری شروع ہونے کا خوفناک الارم بلند ہوا، اس کا دل بڑے زور سے دھڑکا اس نے اللہ کی پناہ مانگی ، اپنے اعصاب پر قابو پایا اور دوبارہ اذان کےکلمات جاری رکھنے کوتیار ہوا۔ الارم بند ہوگیا تھا۔ بمباری کا الارم تقریباً ہر رات کا معمول بن گیا تھاجو صحیح سلامت گزر جاتاتھا۔ یہ اس وقت سے جاری تھا جب سے اٹلی نے اتحادیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیاتھا۔ وہ پوری قوت کے ساتھ بولا : لا إلہ الااللہ اور اس میں غنائیت لانے کی کوشش کی۔ اچانک ایک خوفناک دھماکہ ہوا جس سے زمین دہل گئی۔ اس کی آواز اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ وہ جہاں تھا وہیں ساکت و جامد کھڑا رہ گیا۔ اس کے پہلولرز رہے تھے اور اس کی آنکھیں دور افق پر ٹھہری ہوئی تھیں جہاں سرخ شعلہ دکھائی دے رہاتھا۔ وہ دروازے کی جانب بھاگا اور لرزتے قدموں سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ وہ مسجد کے فرش پر پہونچتے ہی امام اور خادم کی جانب بھاگا اور لرزاں آواز میں کہا:
-پھر سے حملہ ہوا ہے۔۔کیا کریں؟
امام نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا:
-پناہ گاہ دور ہے۔ اب تک لوگوں سے بھر چکی ہوگی۔ مسجد کی عمارت بہت مضبوط ہے ، فی الحال یہی سب سے بہتر پناہ گاہ ہے۔
وہ سب ایک کونے میں بیٹھ گئے اور تلاوت کرنے لگے۔ باہر کی طرف سے مختلف آوازیں آنے لگیں ۔۔۔ تیز قدموں کی چاپ ، چیخ وپکار، فکرمند تبصرے، دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں۔ ایک بار پھر زمین یکے بعد دیگرے بمباری سے دہل اٹھی، اعصاب پر خوف سوار ہوگیا اور دلوں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ مسجد کا خادم چلایا:
-بال بچے گھر میں ہیں ، گھر پراناہے، امام صاحب!
امام نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا:
– اللہ موجود ہے ۔۔۔اپنی جگہ سے ہلنا مت۔۔
لوگوں کی ایک بھیڑ مسجد میں آئی ، کچھ لوگوں نے کہا:
– یہ محفوظ جگہ ہے۔۔
ایک کھردری آواز آئی:
– یہ حقیقی حملہ لگتاہے ، بیتی راتوں سے الگ۔۔
امام آواز سن کردل گرفتہ ہوگیا۔ یہ جانور نما آدمی ، اس کا یہاں پایا جانا کسی بری خبر کا پیش خیمہ لگتا ہے ۔ کچھ اور لوگ آئے ، اب کی بار پہلے سے زیادہ تھے۔ کچھ زنانہ آوازیں آئیں جن سے امام کے کان نا مانوس نہیں تھے۔ ایک آواز آئی:
-میرا سارا نشہ ہرن ہوگیا ہے۔۔
امام ہتھے سے اکھڑ گیا اور پوری قوت کے ساتھ چلایا :
– پناہ گاہ جاؤ ، اللہ کے گھروں کا احترام کرو، سب نکلو یہاں سے۔
ایک آدمی چیخا :
-چپ رہئے جناب ۔
ایک تمسخر آمیز ہنسی کی آواز آئی پھر شدید دھماکہ کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی ۔ مسجد چیخ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ امام پر رعب طاری ہوگیا اور وہ گویا بموں کو مخاطب کرتے ہوئے جنونی انداز میں چیخا:
-نکل جاؤ یہاں سے ۔اللہ کے گھروں کو گندا مت کرو۔
ایک عورت بولی:
– شرم کرو۔
امام پھر چیخا :
– نکل جاؤ، تم پر اللہ کی لعنت ہو۔
عورت نے ترکی بہ ترکی جواب دیا:
– یہ اللہ کا گھر ہے ، تیرے باپ کا نہیں !
ایک کھر دری آواز آئی :
-چپ ہوجائیں ، جناب! ورنہ میں آپ کی سانس کی ڈور کاٹ دوں گا۔
سخت تبصرے ہونے لگے ، تمسخر آمیز الفاظ کا تبادلہ ہونے لگا۔ مؤذن نے امام کے کان میں کہا:
– خدا کے لیے چپ ہوجائیں۔
عبد ربہ نے رک رک کر کہا گویا انہیں بولنے میں پریشانی ہورہی تھی۔
-تم چاہتے ہو کہ مسجد میں یہ لوگ رکیں؟
مؤذن نے گڑ بڑاتے ہوئے کہا:
-ان کے پاس اس کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ بھول گئے آپ کہ محلہ پرانا ہے، گھروں پر مکےبھی برسادیں تو گر جائیں گے، بم کی بات ہی چھوڑ دیں ۔
امام نے اپنے ایک ہاتھ سے دوسری ہتھیلی پر مکا مارا اور کہا:
– میرا دل ان بدمعاشوں کے ساتھ ایک ہی جگہ اکٹھا ہونے پر مطمئن نہیں ہے۔ان کے ایک ہی جگہ پر اکٹھا ہونے میں ضرور اللہ کا کوئی حکم پوشیدہ ہے۔
ایک بم اورپھٹا ، ان سب کو لگا کہ بم میدانِ خازندار میں پھٹا ہے۔ مسجد کے صحن میں ایک بجلی چمکی جس کی روشنی میں لرزتے سائے دکھائی دئے، پھر تاریکی چھاگئی۔ حلق سے پریشان آوازیں نکلیں ۔ عورتوں نے ہاہا کار کی اور شیخ عبد ربہ کی بھی چیخ نکل گئی ۔ شیخ عبد ربہ سر اسیمہ ہوکر مسجد کے دروازہ کی جانب سرپٹ بھاگے۔ مسجد کا خادم ان کے پیچھے انہیں روکنے کے لیے دوڑا ، لیکن انہوں نے اسے پوری قوت کے ساتھ دھکیل دیا اور کہا:
– مرنے سے پہلے تم دونوں بھی میرے پیچھے ہو لو۔۔۔
وہ دروازے سے لرزتی ہوئی آواز میں یہ کہتے ہوئے نکل گئے:
-ان سب کے ایک ہی جگہ پر اکٹھا ہونے میں ضرو ر اللہ کا کوئی حکم پوشیدہ ہے۔
اور دوڑتے ہوئے سخت تاریکی کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد بمباری دس منٹ تک جاری رہی اور اس دوران چار بم گرے ۔ شہر پر مزید پندرہ منٹ تک سکوت طاری رہا پھر بمباری بند ہونے کا الارم بجا۔
دھیرے دھیرے رات کی تاریکی چھٹتی گئی ۔۔۔ پھر صبح نجات کے آثار نمودار ہوئے۔
لیکن شیخ عبد ربہ کی لاش سورج نکلنے پر ہی مل پائی۔