نظم ۔۔۔ شکیلہ عزیز زادہ
نظم
( شکیلہ عزیز زادہ)
(کابل۔ افغانستان )
اچھا شگن نہیں ہیں،
یہ الفاظ،
مت کہنا مجھے کہ بہشت
میرے لبوں کے بیچ کھلتی ہے
میری چھاتیوں کی وادی میں
خود خدا بھی بہک گیا
میں آؤں گی
اور ایک بار پھر
تمہاری سانس، سانس بھرے گی
میرے اندر
تمہارا سینہ معمور ہو گا
میری مہک سے
تمہاری زبان برسائے گی
بارش ، بارش
میری جلد پر ایک بار پھر بارش
میں پگھل جاؤں گی
اور اس بار
جب تم آؤ گے، وہ چمک لے کر
اپنی آنکھ میں
اور جھکو گے مجھے چاک کرنے
تو نہ رہے گا تمہارے اندر
شک کا کوئی سایہ بھی
اس کالے بِلے کی طرح جو جھپٹا
اپنی گھات سے
جس نے ابھی ابھی میرا رستہ کاٹا
اور شکار بنایا
تمہارے دروازے بیٹھی چڑیا کو
حتیٰ کہ وہ نڈھال ہو پڑی
گنگ اور اسیر
They don’t bode well
These chirps
The door to paradise, don’t tell
Opens between my lips
In the cleft, between my breasts
God himself tripped in jests
I’ll come
And again
Your breath will breathe
Inside me
Your lungs will fill
With my fancy
Your tongue will
Rain, rain
Rain on my skin again
I’ll give in
And by this tie
When you come with that glint
In your eye
‘ll bend on tearing me splint
You’ll be without a shadow of doubt
Like the black cat that leapt
From hiding; outflown
Just now; across my path crept
Has hunted down
The sparrow at your door
Till she fell
Captive and forlore
This metaphorical poem has been composed by Shakila Azziz Zada (1964 Kabul, Afghansitan) in Dari.