ماں پڑھتی ہے ۔۔۔ ایس آر ہرنوٹ
ایس آر ہرنوٹ 22 جنوری 1955 کو ہماچل پردیس میں پیدا ہوٸے۔وہ بیک وقت ایک کہانی کار،ناول نگار اور شاعر ہیں۔ان کے پانچ کہانی مجموعے اور دو ناول ہیں۔۔یہ کہانی ان کے کہانیوں کے مجموعے” ندی غاٸب ہے” میں شامل ہے۔
وقار احمد کا تعلق اڑتالی کلاں، ضلع گوجرانوالہ سے ہے۔ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور پنجابی زبانوں میں اچھی دسترس رکھتے ہیں۔
ماں پڑھتی ہے
ہندی کہانی کار:”ایس آر ہرنوٹ “
اردو ترجمہ ”وقاراحمد“
کئی مہنوں بعد گاؤں آیا ہوں۔ماں یہاں اکیلی رہتی ہے۔آج گھر کا دروازہ کھلا ہے۔ورنہ تو ماں صبح سویرے دروازہ بند کر کے باہر کا کام نمٹانے چلی جاتی ہیں۔صبح کا سارا وقت حویلی میں گزرتا ہے۔جانوروں کو چارا ڈالتے، گائے کا دودھ دھوہتے،گوبر پھینکتے۔
اِس سمے بھی ماں اِدھر نہیں ہے۔میں ان کے کمرے میں چلا آیا ہوں۔سورج نکلتے ہی پہلی کرن اُن کے کمرے میں پڑتی ہے۔آج کرنوں کے ساتھ میں ہوں۔ان کا کمرہ جتنا اپنا لگتا ہے اُتنا ہی اکیلا ہے،پر طرح طرح کی چیزوں سے بھرا ہوا ہے۔اُسی طرح جیسے روشنی آسمان کو بھرتی ہے۔اوپر لکڑی کی چھت میں جگہ جگہ مکڑی کے جالے ہیں۔اُن میں کئی مکھیاں مری پھنسی ہیں۔یہی حال دیواروں کا بھی ہےکئی جگہ جالوں پر کیڑا جما ہوا ہے۔
جگہ جگہ سامان بکھرا پڑا ہے۔کوئی چیز ترتیب سے نہیں ہے۔ دروازے کے اندر آتے بائیں جانب دودھ گرم کرنے والا گھڑا رکھا ہے۔اُس پر میلا سا کپڑا ہے۔ماں جب چولہے کے پاس سے دودھ ابال کر فارغ ہوتی ہو گی تو اُسے یہاں لے آتی ہے۔بائیں طرف ایک ٹوکرا ہے،اس میں بھیڑوں کی اُون بھری ہے،جس کو ابھی بُننا ہے۔اُون کی تہوں کے اوپر کچھ دھاگے ہیں۔ایک کنارے تختی رکھی ہے۔ایک کونے میں کھجور کے پتے بکھرے پڑے ہیں،ان کے درمیان کئی کجھوروں کی خالی پیٹیاں ہیں۔دوسرے کونے میں ایک پرانا سا ٹیبل ہے جس پر ٹیلی ویژن رکھا ہے۔سرہانے کے با لکل ساتھ ٹین کے چوکور نما ڈبے پر میلا سا کپڑا ہےاس پر ٹیلی فون ہے۔ بجلی کے بلب پر دُھول نے پوری طرح بسیرا کر لیا ہے۔اس کا رنگ بے رنگ ہو گیا ہے۔
ماں کے سرہانے پلنگ کے اوپر دیوار پرکیل کے ساتھ لکڑی کا ایک چَکَوٹا ٹنگا ہوا ہے۔اس میں ایک دیوا رکھا ہے۔چھت تک دھوئیں نے ایک لمبی لکیر بنا دی ہے۔بجلی چلی جانے پر ماں اس کو جلا لیا کرتی ہے۔کمرے میں بیڑی کی خشبو پھیلی ہوئی ہے۔چارپائی کے نیچے دیکھتا ہوں تو وہاں بھی بہت سی چیزیں بکھری پڑی ہیں۔آدھی بجھی ہوئی بیڑی کے ٹکڑے، جلی ہوئی ماچس کی تیلیاں۔ایک کھجور کے پتے پر سوکھا ہوا انار دانہ،کچھ امرود، آٹھ دس اخروٹ،پانچ پکے ہوئے مکئی کے بھٹے،ان کے سرے ایک دوسرے کے ساتھ ڈوری سے بندھے ہوئے ہیں۔نئی فصل کی مکئی کے بھٹے دیوتا کے لیے رکھے ہوں گئے۔دو چار گھٹڑیاں جس میں محلتف قسم کی دالیں ہیں۔اتنی۔۔۔چیزیں ماں کے ساتھ رہتی ہیں اور ان کی سنگی ساتھی ہیں۔لیکن میں ان سب کے درمیان اس کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوں۔ وہ جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ سب میرا مذاق اڑا رہی ہوں۔
ماں۔۔۔گھر۔۔۔آنگن۔۔۔دروازہ۔۔۔کھیت۔۔۔کھلیان۔۔۔زمین۔۔۔جائیداد۔۔۔سب میری ہیں،لیکن میں آج ان سے کتنا دور چلا گیا ہوں؟
سورج گھر کی چھت کے کونے سے کچھ آگے سَرَک گیا ہے۔کرنیں سمٹتی ہوئی آنگن میں چلی گئی ہیں۔صبح کے وقت ہی اندھیرے کا احساس ہونے لگا ہے۔یہ اندھیرا باہر سے کہیں زیادہ میرے اندر بساہوا ہے۔حالانکہ میں ماں کے کمرے میں ہوں۔ان کے بستر پر بیٹھ کر محبت کی خشبو سے بھر گیا ہوں،لیکن برسوں گھر سے دور رہنے کا احساس اس محبت کو دماغ تک پہنچنے نہیں دیتا۔
یادہی نہیں رہا کہ میرے ہاتھوں میں کتابوں کا ایک پیکٹ بھی ہے۔ان نئی کتابوں کو میں ماں کو تحفہ دینےکے لیے لایا ہوں۔آج تک ایک بھی کتاب چھپنے کے بعد انھیں نہیں دے پایا،نہ ہی ان کو کتاب کی تقریب رونمائی میں بلا پایا۔جب بھی کوئی کتاب آئی میں نے اس کو گورنر یا وزیر اعلیٰ سے ہی ریلیز کروایا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان لوگوں کا ادب سے کوئی تعلق نہیں۔اُسی طرح جیسے مجموں میں غربت کو مٹانے کے نعرے بلند کرنے والوں کا غریبوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔یوں لگتا ہے کہ جیسے گاؤں اور اس کے گرد و نواح میں مہکتی خوشبو کو کاغذ پر پھیلانے والے ہم ادیبوں کا وہاں کی گوبر اور مٹی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔یعنی یہ ایک لمحے کے لیے روایتی دھوکہ ہے،جھوٹی شان ہے،صرف دکھاواہے ،اس کے سوا کچھ نہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ میں ماں کو بھلا دینا چاہتا تھا،یا ان کی یادیں اُس سمے میرے ساتھ نہ تھیں۔لیکن ذہن بہت خوف زدہ رہتا تھا۔سوچتا تھا کہ آج کا ماحول بلکل الگ طرح کا ہے۔ماں کیسے ان بڑے لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر پائیں گی۔
سب سے پہلے تو ان کا بس میں بیٹھنا ہی کسی مصیبت سے کم نہیں۔بیٹھتے ہی ان کی طبعیت خراب ہو جائے گی،الٹیاں کرنے لگے گی۔تھوڑا آرام ملے گا تو وہ اپنی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھیں گی اور فوراً جیب سے بیڑی اور ماچس نکال کر اس کو سلگا کے پینے لگ جائے گی۔ایک دو کش لیتے ہی کھانسی ایسے شروع ہو گی کے جیسے ابھی جان نکلنے والی ہے۔
جیسے ہی وہ تقریب میں پہنچیں گی تو لوگوں کی نظریں ان پر ہوں گی۔بغیر استری کٸے کپڑے،پلاسٹک کے جوتے تضحیک کا سبب بنیں گے۔پھر ان کے منہ سے بیڑی کی باس آتی رہے گی۔ان کے بال بھی ٹھیک طرح سے نہیں ہوں گے حالانکہ شال سر پر اوڑھی ہوگی،پر کالے اور سفید بالوں کی آپس میں الجھی ہوئی لڑیاں نیچے تک لٹکی دکھائی دیتی رہیں گٸی۔ان میں گھاس کے تنکے اورسوکھےہوئے پتے پھنسے نظر آئےگئے۔جیسے ہی لوگوں کو پتہ چلے گا کے میری ماں آئی ہے تو وہ بار بار ان کے پاس مبارکباد دینے جائیں گے۔ان سے باتیں کرنا چاہیں گے۔،بہت کچھ پوچھنے لگیں گے،لکھاری اور صحافی بھائی تو اپنی متجسس باتوں سے ماں کو کُریدیں گے بھی۔پھر پتہ نہیں ماں ان سے کس طرح بات کرے گی،کیا کچھ الٹا سدھا بول دے گی اور اگر ان کو بیڑی کی طلب ہوئی تو جھٹ سے سلگا کر اُدھر ہی پینا شروع کر دیں گٸی۔ناشتہ شروع ہو گا تو ماں چھری اور کانٹے سے تو کچھ کھا نہیں سکے گی،کھائے گی بھی تو سب کا دھیان ان کے ہاتھوں کی طرف ہی ہو گا۔گاؤں میں گھاس کاٹٹے،گوبر پھینکتے،دودھ دھوتے،لکڑیاں کاٹٹے،چولہے میں روٹی سیکتے،ہاتھوں پر واضح نشانات نظر آئیں گے۔پھران سے گوبر اور مٹی کی بو آئے گی۔بھلا یہ لوگ منہ پر کچھ نہ بولیں پر بعد میں باتیں تو ضرور کریں گئے،کہ اتنے بڑے ادیب کی ماں ایسی ہے ان پڑھ اور گوار۔
ان یادوں میں کھوئے ماں کے بستر پر لیٹ جاتا ہوں۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے میرا بچپن لوٹ آیا ہے۔چارپائی پر بیٹھے یوں لگنے لگا ہے جیسے ماں کی گودی میں سویا ہوں،ماں مجھے جھولے دے رہی ہو،یہ خوشی اور پیار برسوں بعد ملا ہے۔من کر رہا ہے کہ یہیں سویا رہوں۔۔۔کبھی اٹھوں ہی نہیں۔
اپنے اوپر حیران ہوں کے میری تخلیقات میں گاؤں ہے،وہاں کا پورا کلچر ہے،غریب لوگ ہیں،کھیت کھلیان ہیں،ماں ہے، ان کا پیار ہے،لیکن میں ان حقیقتوں سے کتنا دور چلا گیا ہوں۔ماں کے بستر پر لیٹ کر میں اپنے اندر کے لکھاری کو دھونڈنے لگتا ہوں۔۔۔پر وہ کہیں نہیں ہے۔اس کے کئی چہرے ہیں، یا ان چہروں پر کئی طرح کے تصوراتی چہروں کی پرتیں چپکی ہوئی ہیں،اپنے آپ کو اس شہری ماحول اور اشرافیہ میں اونچا دیکھنے کے لٸے،نام اور عزت کمانے کے لٸے،لوگوں کی واہ واہ لوٹنے کے لٸے،پرحقیقی معنوں میں اس کامیابی کا میرے اندر کے آدمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔پھر بے ساختہ ایک طرف رکھی اپنی کتابوں پر ہاتھ جاتا ہے۔اس کا لمس مجھے پھر سے انہی بلندیوں پر لے جاتا ہے۔کیا ہوا ماں کو نہیں بلایا تو؟ چلتا ہے،سب کچھ چلتا ہے۔ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں،پھر کیوں ان روڑیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائیں چلیں۔دیہات، پہاڑ، گوبر، مٹی، کھیت اور کھلیان کاغذوں کی پشت پر اُگتے ہوئے اچھے لگتے ہیں،یہ حقیقی زندگی میں تو جہنم ہیں۔
پھر میں تو صرف ماں کی ہی عزت کرنے آیا ہوں.ادھر تو ایسے بھی ادیب ہیں جو یا تو ماں سے الگ ہوگٸے ہیں یا انھوں نے ماں کو کسی اولڈ ایج ہوم کے حوالے کر دیا ہے۔میں ماں کے قدموں میں اپنی کتابوں کو رکھ کر ان سے آشیرواد لوں گا۔وہ خوش ہوں گی کے ان کا بیٹا کتنا عظیم انسان بن گیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کتابیں میری انا کو اور بھی عظیم تر بنا رہی ہوں۔
یہی سب سوچتے سوچتے اچانک ماں کے سرہانے ہاتھ لگتا ہے۔کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔میں لیٹے لیٹے دائیں ہاتھ کو پیچھے کر کے سرہانے کے نیچے ہاتھ ڈالتا ہوں اور چونک جاتا ہوں۔جلدی سے اٹھتا ہوں اور سرہانے کو ایک طرف کر دیتا ہوں۔کوئی کتاب ہے باہر نکالتا ہوں تو دنگ رہ جاتا ہوں۔آنکھیں اس کے احاطے میں دھنستی چلی جاتی ہیں۔میری سانس رکنے لگی ہے،جسم کا سارا خون جیسے رگوں میں جم گیا ہے۔یہ میری نٸی کتاب ہے،پاگلوں کی طرح سرہانے کی طرف پلنگ کے بستر کو اوپر کرتا ہوں، تو نیچےکچھ کتابیں پڑی ہیں،یہ سب میری ہیں۔ایسے لگتا ہے جیسے ماضی میں ادھر کبھی آتے ہوئے میں نے اپنی کتابیں ادھر رکھ دی تھی اور مجھے یاد نہیں۔جو کتابیں کا پیکٹ میں لایا ہوں وہ میرے سامنے پڑا ہے۔ماں کے سرہانے پلنگ پر بستر کے نیچے تو اس کی دوسری کاپیاں ہیں۔
پہلی کتاب ہاتھ میں لیتا ہوں۔اسے کھولتا ہوں۔صفحات کے اندر مختلف جگہوں پر گھاس کے تنکے پھسے ہوئے ہیں۔ پت جھڑ کا موسم کمرے میں سمانے لگتا ہے۔سوچتا ہوں کے ماں جب گھاس کٹانے کھیتوں میں جاتی ہوں گی تو وہاں جا کے اس کے صفحات کو پلٹتی ہو گی۔
دوسری کتاب اٹھاتا ہوں۔اسے دیکھنے لگتا ہوں۔اس کے صفحوں سے سرسوں کے پھولوں کی مدھم خوشبو آنے لگتی ہے۔صفحات کو الٹا پلٹتا ہوں۔۔۔کئی جگہوں پر چھوٹے پیلے پھولوں کی پنکھڑیاں اٹکی ہوئی ہیں۔۔گندم کی ایک دو بالیاں بھی ۔
ماں جب کھیتوں میں ساگ توڑنے جاتی ہو گی،تو پہلے وہاں بیٹھ کر بیڑی جلا کر اپنی تھکاوٹ دور کرتی ہوگی،اور پھر کتاب کے صفحوں پر ہوئے کام کو دیکھتی رہتی ہوں گی۔
اب میں تیسری کتاب ہاتھ میں لیتا ہوں۔یہ میرا ناول ہے۔اس کے اندر سے رات کی رانی کی خشبو آرہی ہے اور کمرے میں پھلینے لگتی ہے۔نظریں صحن کی دوسری طرف چلی جاتی ہیں۔وہاں رات کی رانی کا پودا ہے اور کتنا بڑا ہو گیا ہے۔ذہن بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔گرمیوں کی راتیں جب چاندنی میں نہاتی تو ماں اکثر مجھے گودی میں لٸے یہاں بیٹھا کرتی،کئی کہانیاں سناتی۔کتاب کے صفحات کے درمیان رات کی رانی کے پھول پڑے ہیں۔
ماں اس کتاب کو چاندنی راتوں میں وہاں بیٹھ کر دیکھا کرتی ہوں گی۔
چوتھی کتاب میں آٹے اور لسی کی خشبو رسی بسی ہے۔صفحات پر ہر جگہ آٹے کے داغ دار ہاتھوں کے انگلیوں کے نشانات ہیں۔ کچھ جگہوں پر مکھن کے داغ نے حروف کو مٹا دیا ہے۔ماں۔۔۔روٹیاں پکاتے یا دودھ ابالتے ہوئے اس کو دیکھتی رہتی ہوں گی۔
پانچویں کتاب اب میرے ہاتھ میں ہے۔اس کے صفحات سے گھنے اندھیرے کی مہک آنے لگتی ہے۔اس میں بیڑی کی خشبو مل گی ہے۔میں کتاب کے اوراق دیکھتا ہوں۔ کئی جگہ الفاظ دھل گئے ہیں۔درمیان میں جلی ہوئی بیڑی کی راکھ بھی لگی ہے۔ایک جگہ مرا ہوا جگنو چپکا ہوا ہے۔
شاید۔۔۔ماں اسے آدھی رات کو بستر پر ہاتھ میں پکڑے پڑھ رہی ہو گٸی۔میری یاد آنے پر رو لیتی ہوں گی۔اور پھر دیر رات تک یونہی بیٹھی بیڑی پیتی رہتی ہوں گی۔
اب بستر کے نیچے سے چھٹی کتاب نکالتا ہوں۔ دماغ غیر مستحکم ہونے لگا ہے۔ اندر گھبراہٹ ہے۔ پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا ہے۔ اس کتاب کے اندر پتا جی کی کئی پرانی تصویریں ہیں۔ان میں کہی ماں ہیں تو کہی میں ہوں۔
ماں۔۔۔اپنے اس مصنف بیٹے کی عظمت اور کامیابی کی یادوں کو پتا جی کے ساتھ بانٹ لیا کرتی ہوں گی۔
اسے ایک طرف رکھ کے سرہانے کے پاس سے پھر کچھ تلاش کرنے لگتا ہوں۔
بستر کی تہوں میں ایک اور کتاب ملتی ہے۔اسے نکالتا ہوں۔یہ ساتویں کتاب ہے۔دیکھتا ہوں تو حیرت کی کوئی حد نہیں رہتی۔یہ ایک نئی کتاب ہے جو ابھی ایک ہفتہ قبل شائع ہوئی تھی۔
اس کے ورقوں سے گائے کے گوبر کی بو آ رہی ہے۔اندر اور باہر کئی جگہوں پر گوبر سے لت پت ہاتھوں کہ نشان پڑے ہیں۔ ایک یا دو جگہوں پرسفید بھیڑ کی اون کے ریشے بھی چپکے ہیں۔
ماں۔۔۔اسے حویلی کے آنگن میں جانوروں کے درمیان بیٹھ کر دیکھ لیا کرتی ہوں گی۔
آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی بہنے لگی ہے۔یاد ہی نہیں رہا کہ اپنی زندگی میں پہلے کبھی اتنا رویا ہوں۔میری تمام باطنی شان و شوکت، عظیم ہونے کا غرور، ماں کے بستر پر قطرہ قطرہ ہو کر گرنے لگا ہے۔میں جیسے اس بستر کی تہوں میں کھٹمل کی طرح گھستا اور دھنستا چلا جا رہا ہوں۔میرا رونا حیرت اور شرمندگی سے بھر گیا ہے۔سر ٹانگوں کے درمیان دھنستا جا رہا ہے۔اس عاجزی اور کمتری کی کیفیت کے باوجود رونے کی خوشی مجھے مزید دکھ نہیں دے رہی۔ایسا لگنے لگا ہے کہ ماں کے کمرے کی وہ سب چیزیں میرے اندر بے پناہ پیار اور محبت کا سمندر بہاتی چلی جا رہی ہیں۔جو مجھے نارمل اور آرام دہ ہونے میں بھرپور مدد کر رہی ہوں۔میں اپنے آپ کو سنبھالتا ہوں۔حیرت ہوتی ہے کہ ذہن اب ہلکا ہو گیا ہے۔بلکل اسی طرح جیسے بچپن میں کسی ضد میں روتے روتے ماں کی گود میں سو جایا کرتااور جب اٹھتا تو بالکل سکون محسوس کرتا۔
تَبھی کسی کی آواز اندر کے سناٹے کو توڑ دیتی ہے۔
”دادری ! دادی!۔۔۔اخبار۔۔۔“
ماں اس وقت گوبر پھینک رہی ہے۔ آواز سنتے ہی فوراً گوبر کا ٹپ نیچے رکھ دیتی ہیں اور ڈاکیے کے ہاتھ سے اخبار پکڑ لیتی ہیں۔
میں بستر سے اٹھ کر دروازے کے پیچھے سے سب کچھ دیکھنے لگتا ہوں۔وہ امر سنگھ ڈاکیا ہے۔اس کا گھر ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر ہے۔ وہ باقاعدگی سے ماں کے پاس آتا جاتا رہتا ہے۔
مجھے ساری باتیں سمجھ آنے لگی ہیں۔ماں اخبار دیکھ رہی ہیں اور ڈاکیا اخبار کے صفحات کے درمیان میں کچھ ماں کو دکھا رہا ہے۔ماں اس اخبار کو حویلی میں جا کر رکھ دیتی ہے اور پھر پہلے کی طرح گوبر پھینکنے لگتی ہیں۔
میں ماں کے بستر پر بکھری کتابوں کو سمیٹنے لگتا ہوں۔اور اُسی طرح ان کے سرہانے کی طرف بستر کے نیچے رکھ دیتا ہوں اور اپنی کتابوں کا پیکٹ اٹھا کر باہر نکل جاتا ہوں۔ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے کئی من بوجھ کسی نے میرے سر پر لاد دیا ہو۔ ماں باہر کا کام نمٹا کر اندر آرہی ہے اور میں بلی کے پاؤں وہاں سے کھسک جاتا ہوں۔