تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی ۔۔۔ راشد جاوید احمد
تاریخ اپنے آپ کو کبھی نہیں دہراتی
(راشد جاوید احمد)
” تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے” یہ بات ہم اکثر و بیشتر سنتے رہتے ہیں، بہت پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد، اساتذہ، ٹیلیویژن کے اینکرز اور عام لوگ، سب کہیں نہ کہیں شعوری غیر شعوری طور پر یا مذاقا اس فقرے کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو کبھی نہیں دہراتی، اسکا پہیہ ہمیشہ آگے کی طرف ہی حرکت کرتا ہے، ہاں چند ایک ملتے جلتے واقعات ضرور رونما ہوتے ہیں لیکن ان کے اسباب واقعات اور نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بات کالج کے زمانے میں ہمارے فلسفے کے استاد سید علی عباس جلالپوری نے ہمیں اچھی طرح سے باور کروا دی تھے۔ استاد محترم کا احسان۔
یہ ایک فکری مغالظہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ قدیم یونانی، زمان کو غیرحقیقی سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ زمان کا نہ کوئی آغاز ہے نہ انجام۔ کائنات قدیم سے اسی صورت میں موجود ہے اور ابد آلاباد تک اسی طرح موجود رہے گی۔ اکثر آریائی اقوام بشمول ہندووں کا بھی یہی ماننا تھا، البتہ ایرانیوں کی نظر میں زردشت کے مطابق زمان حقیقی ہے، اسکی حرکت مستقیم ہے یعنی اسکا آغاز بھی ہے اور انجام بھی ہوگا اور یہ فکر انہوں نے اشوریوں اور بابلیوں سے مستعار لی تھی۔
تاریخ ِ تمدن کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کس طرح شعور کی بیداری کے ساتھ حیوانات کی صف سے جدا ہوئے اور عقل و فکر کی نشو و نما کے ساتھ وحشت و بربریت کے ادوار سے نکل کر زرعی دور میں داخل ہوئے۔ کس طرح زرعی انقلاب نے شکار کے عہد کا خاتمہ کیا۔ زراعت نے انسان کو بستیاں بسانے پر مجبور کیا۔ شہر بسے، مملکت کی بنیاد پڑی، املاک کے تصور نے جہاں تمدن کی تاسیس کی وہاں قلب انسان میں استبداد اور غلبے کے تخریبی جذبات کی پرورش کی۔ رفتہ رفتہ کمزوروں کو لونڈی غلام بنا کر ذاتی املاک میں شامل کر لیا گیا ۔ اس طور زرعی انقلاب سے عورت اپنے رفیع مقام سے گر گئی۔ سلاطین کے وجود میں شاہیت اور مذہب کا اتحاد عمل میں آیا اور بادشاہ اپنے زمانے کا بڑا مذہبی پیشوا سمجھا جانے لگا۔ وہ اپنے آپ کو آسمان یا آفتاب کا بیٹا ظاہر کرتا جس کی اطاعت ہر شخص پر مذہبا فرض کر دی گئی۔ اس طرح معبد اور تخت صدیوں تک ایک دوسرے کو سہارا دیتے رہے۔
پھر یونان قدیم کی ریاست ایتھنز سے جمہوریت کا آغاز ہوا جب وہاں کے شہریوں نے اپنے بادشاہ کو ملک بدر کر کے خود حکومت پر قبضہ کر لیا۔ یوں صدیوں کی غلامی کے بعد بادشاہوں کے تسلط سے نجات پانے کے عمل کا آغاز ہوا۔ جدید جمہوریت میں جاگیرداروں نے شاہ جان شاہِ انگلستان کو مجبور کر کے اس سے ” قرطاس اعظم” پر دستخط کروائے اور بادشاہ کے اختیارات محدود ہو گئے۔ کوپر نیکس، گیلیلیو، نیوٹن اور مارکس و اینگلز کے علمی انکشافات نے لوگوں کے سوچنے کے انداز بدل کر رکھ دئے۔ تاریخ کا پہیہ آگے کی طرف ہی رواں رہا
صنعتی انقلاب کو بپا ہوئےلگ بھگ دو سو برس گزرے ہیں ۔ اسکے اثرات زرعی معاشرے میں ہر جگہ نفوذ کر چکے ہیں۔ اور اس نظام کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر رہے ہیں۔ مشینوں کی ایجاد نے صنعت و حرفت میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ مصنوعات کی فروخت کے لئے منڈیوں کی دوڑ لگی ہے۔ ملوکیت نے تجارت کو فروغ دیا تھا۔ تجارت کی توسیع نے ایک نئی قسم کی ملوکیت کو جنم دیا۔ اور افریقہ اور بیشتر ایشیا تجارتی اور اقتصادی طور پر مفتوح ہو گیا۔ کچھ ممالک میں سوشلسٹ انقلاب بھی آیا جسکی کہانی کافی لمبی ہے۔
ان ادوار کی تاریخ بہت طویل ہے، اور یہ تاریخی عمل کہیں بھی دہرایا نہیں گیا بلکہ ہر دور کے بعد ایک نیا دور، نئی تاریخ رقم ہوتی رہی۔ گویا تاریخی عمل ایک دائرے میں چکر نہیں لگا رہا بلکہ خط مستقیم پر ارتقا پذیر ہے۔ انسان کا دور وحشت اس زمانے سے یقیننا بہتر تھا جب اسکے آباء درختوں پر بسیرا کرتے تھے۔ بربریت کا دور، دور وحشت سے بہتر ثابت ہوا کہ اسمیں آگ دریافت کر لی گئی اور دھاتوں کا استعمال رواج پایا۔ زرعی انقلاب کے بعد جو معاشرہ صورت پذیر ہوا وہ ہر لحاظ سے دور بربریت سے افضل و بر تر تھا۔ اسی طرح صنعتی انقلاب کے بعد انسان پورے اعتماد سے ترقی کی راہ پر چل نکلا۔ ترقی کے اس مشکل سفر میں بے شک انسان کو خطرات اور ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن انسان ہر صورت اپنی اگلی منزل کی طرف برابر قدم بڑھا رہا ہے۔ زرعی نظام معاشرہ کے بعد صنعتی معاشرے کا قیام اتنا ہی لازمی ہے جتنا کہ دور وحشت کے بعد دور بربریت اور دور بربریت کے بعد زرعی معاشرے کا قیام لازم تھا۔ تہذیبیں مٹتی رہتی ہیں، تمدن دم توڑتے رہتے ہیں لیکن انکی ترقی پرور اور حیار افروز روایات ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ عمل ارتقا کی مزاحمت کی جا سکتی ہے، اسکی رفتار کو سست کیا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی خاص مرحلے پر روک دینا تو کسی کے بس کی بات نہیں۔