خوف ِ مرگ ۔۔۔ راشد جاوید احمد
خوف مرگ
(راشد جاوید احمد)
ہم زندہ ہیں اور زندہ رہنا چاہتے ہیں، اگر انسان میں زندہ رہنے کی خواہش نہ ہو تو دنیا میں ہر چیز بے کار ہے، کسی کام کسی کار کا کوئی مقصد نہیں ہے، جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ دراصل انسان کی زندہ رہنے کی خواہش کے باعث ہے، دنیا میں انسانوں سے منسلک کچھ بھی دیکھ لیں وہ دراصل انسان کی خواہشِ بقاء کی بلکہ ایک اچھی زندگی گزارنے سے منسلک ہے، چاہے امن ہو چاہے جنگ و جدل سبھی انسانوں کی زندگی میں بہتری کے وعدے لے کر آتے ہیں۔
مگر ساتھ ہی موت بھی ایک اٹل حقیقت ہے، اور زندہ رہنے کی خواہش ہی انسان کو موت کے خوف میں مبتلا کرتی ہے، اگر زندہ رہنے کی خواہش نہ ہوتی تو انسان موت سے بھی نہ ڈرتا اور اگر انسان موت سے نہ ڈرتا تو زمین پر انسان بھی نہ ہوتے، دنیا میں رہنے والا ہر جاندار موت سے ڈرتا ہے اور زندہ رہنے کی خواہش رکھتا ہے، ان دونوں چیزوں کے بغیر زندگی ممکن نہیں، بلکہ ارتقائی طور پر ہی حیاتیات میں زندگی کی خواہش اور موت کا ڈر کندہ ہے۔
خرد کی منزلیں چڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان ان دونوں جذبات یعنی موت کا خوف اور زندگی کی خواہش کو بخوبی سمجھ گیا ہے، مگر عقلمند ہونے کے باعث انسان تصورات اور امکانات سے بھی واقف ہے، انسان حال کے مستقبل پر اثرات کو بھی اچھی طرح سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ جو وہ آج کرے گا اسکا اثر کل پر ہوگا، مگر جانور اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، کچھ جاندار دوراندیشی رکھتے ہیں مگر انکی دوراندیشی ایک فطرت ہے، مگر انسان کی دوراندیشی حقیقی طور پر سوچ سے منسلک ہے۔ اسی لئیے اسنے زندگی میں موت کے خوف کو شکست دینا فائدہ مند سمجھا ہے۔ اسی موت کے خوف کو زیر کرنے کا ٹوٹکا بعد از موت زندگی ہے۔
اب تین چیزیں زندگی کی خواہش، موت کا خوف اور دوراندیشی کسی بھی انسان کے لئیے انتہائی ضروری ہیں انکے بغیر وہ کامیاب زندگی نہیں گزار سکتا۔ موت ہمیشہ سے انسان کا دشمن اول رہی ہے، اور موت کا خوف انسان پر اتنا حاوی ہے کہ یہ انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تک کو صلب کر سکتا ہے، مگر دوسری طرف اس سے بڑے بڑے کام بھی کروا سکتا ہے۔ جبکہ زندگی کی خواہش دراصل انسان کے موت کے خوف کو بھی فتح کر لیتی ہے، جیسا کہ میں نے ذکر کیا انسان سوچ اور تصورات رکھنے کے قابل مخلوق ہے، انسان حقیقی طور پر تو موت کو شکست کبھی بھی نہیں دے سکتا اسی لئیے وہ اپنی سوچ اور اپنے تصورات میں موت کو شکست دیتا ہے یعنی بعد از زندگی کے تصور کو ایجاد کرتا، یہ تصور انسان سے بہت سے ایسے کام کرواتا ہے جو وہ شائد عام حالت میں نہ کرنا چاہے، بہت سے لوگ سوچیں گے کہ بعد از زندگی کا تصور فائدہ مند ہے، انسان جنت کے لالچ اور جہنم کے خوف میں بہت سے نیک کام کر جاتا ہے، مگر یاد رکھیں بقاء کی خواہش ہی نے تو اسکو بعد از زندگی عذاب و ثواب کا قائل کیا ہے، اس لئیے انسان موجودہ زندگی میں بعد از زندگی فائدے کو موجودہ فائدے کے مقابلے میں زیادہ تر نظر انداز کر دیتا ہے۔
انسانوں ہی میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنکی موجودہ زندگی آسودہ اور خوشحال نہیں ہوتی، ایسے میں بعد از موت زندگی انکے لئیے امید کی ایک کرن کی طرح ہوتی ہے، اور وہ اپنی تمام تر امید اس پر لگا دیتے ہیں، درحقیقت ایسے ہی لوگوں کا جنت و جہنم کے چکر میں استحصال ہوتا ہے، یہی غربت کے باوجود مذھبی رہمناؤں، پیروں فقیروں کے ہاتھوں لٹتے ہیں، اپنی کسمپرسی کی زندگی سے مایوس ہو کر جنت کے چکر میں خودکش حملے کرتے ہیں۔
جہاں بقاء کی خواہش موت کے بعد زندگی کا تصور پیدا کرتی ہے وہیں یہ انسان کو حقیقت سے بیگانہ کر کے اسکی زندگی بھی چھین لیتی ہے، بعد از موت زندگی کا تصور بالکل ایک نشے آور مادے کی طرح ہے، تھوڑا لیں تو سرور زیادتی ہو جائے تو موت۔ اس کی مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ زندگی کی قیمت کو کم کرتا ہے اور موت کو سہانا بنا کر دکھاتا ہے، سہانے سپنے دکھانے پر کسی کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا، اس لئے مذھبی رہنماء نوجوان اور عام فہم لوگوں کو جنت کا لالچ دے کر استعمال کرتے ہیں، کبھی اپنی جیبیں بھرنے کے لئیے تو کبھی جنگ و جدل میں کام آنے کے لئیے۔
جنت کے لالچ میں جذبہِ شہادت دراصل بقاء کی خواہش سے نکلے ہوئے بعد از زندگی تصور کو اسقدر سہانا اور پرکشش بنا کر پیش کرنے کا نام ہے کہ انسان خود ہی اپنی بقاء کی خواہش کا انکار کر دے۔ اس زندگی کو عارضی کہہ کر اگلی زندگی کو مستقل کہہ دینا انسان کی بقاء کی خواہش کو شکست دینے کا موزوں ترین آلہ ہے، مذھبی رہنماء اسکا استعمال خوب جانتے ہیں۔ درحقیقت جب انسان کا نصب العین زندگی کے بجائے بعد از موت زندگی کا تصور بن جائے تو حقیقت سے مایوسی اور تصور میں امید انسانوں کو زندہ لاشوں میں تبدیل کر دیتے ہیں، ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ان جھوٹے تصورات کے باعث، اپنی خوشی، محبت، آسودگی اور آزادی کی تعاریف ہی بدل چکے ہیں، ان کے نزدیک اپنے عقیدے کے لئیے دکھ اٹھانا خوشی ہے، نفرت کا مرکز بننا محبت، بھوکے پیٹ رہنا آسودگی اور غلامی ہی آزادی ہے۔ یہ لوگ اتنے بدل گئے ہیں کہ اپنی بقاء کی خواہش کا انکار انکی فطرت بن گیا ہے، سچ کہتے ہیں عقیدے غلام بناتے ہیں، کیونکہ حقیقی غلامی اپنی بقاء کی خواہش کا انکار ہے، اور دنیا میں پائے جانے والے بہت سے عقیدے اسی بقاء کی خواہش سے اخذ ہو کر اسی کو اسکے سر پر الٹا دیتے ہیں، یہی سب سے بڑی برائی ہے۔
موت کا خوف انسان کو اتنا کیوں ڈراتا ہے، اور زندگی کی خواہش اتنی شدید کیوں ہے مگر اس موقع پر پھر ہماری خرد ہی ہمارے کام آتی ہے، ہماری دوراندیشی اکیلی مشعل راہ نہیں بن سکتی، ہمیں ماضی کو بھی یاد رکھنا ہو گا، کیونکہ ماضی میں ہمارے استحکام کا راز پنہاں ہے، صرف مستقبل کے خواب دیکھ کر کوئی بقاء کی جنگ نہیں جیت سکتا۔ اور ماضی کہتا ہے کہ ہم پیدا ہونے سے پہلے بھی موجود نہیں تھے تو پھر موت کا خوف کیسا، عدم وجود ہی انسان کی حقیقی حالت ہے اس لئیے زندگی کے چار دن خوشی اور آسودگی کی تلاش میں صرف کرنا ایک بہتر حالت ہے، صرف اپنے لئیے ہی نہیں بلکہ کل انسانیت کے لئیے، استحصال سے پاک معاشرے میں ، جیو اور جینے دو، انسان کا اولین نصب العین ہونا چاہیے۔