زمیں بوس عمارت ۔۔۔ راشد جاوید احمد
زمیں بوس عمارت
( راشد جاوید احمد )
عقیدہ دراصل اس ماحول کا نام ہے جس میں ہم نے جنم لیا۔
پہلی آواز جو ہماری سماعتوں میں گھلائی گئی، پہلا لفظ جو ہمیں سکھایا گیا، پہلا قدم جو ہم سے اٹھواگیا، پہلا منظر جو ہمیں دکھایا گیا، پہلا احساس جو ہمیں دلایا گیا، پہلا سچ جو ہم پر ظاہر کیا گیا، پہلا جھوٹ جوہمیں پڑھایا گیا، پہلی محبت جو ہم پر ظاہر کی گئی، پہلی نفرت جو ہم سے کروایئی گئی، یہ سب مل ملا کرجو ایک جہان فکر تعمیر ہوتا ہے اسے ہم عقیدے سے تعبیر کرتے ہیں۔
عقیدہ ایک وراثتی جبر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
عقیدہ ہماری فکری ارتقا اور ذہنی نشونما کے لیے ایک کلیدی رکاوٹ ہے۔ جو ہمیں اپنے والدین اور اساتذہ سے ملا، اس کا نام عقیدے کے سوا اگر کچھ ہو، تو آپ سوال کے اٹھنے سے خوفزدہ ہوں گے اور نہ سوال اٹھانے سے۔
جو کچھ ورثے میں ملا، اگر اس کا نام عقیدہ ہے، تو نئی بات سے آپ کی طبعیت ہراساں ہوجاے گی۔ کیونکہ عقیدے کے نام پر جو باتیں ہمیں تعلیم کی گئی ہیں ان میں جو بات اصول کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ عقیدہ دلیل سے بالاتر ہوتا ہے۔ عقیدہ شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے کہ بات کو عقل کی میزان پر نہیں تولا جاے گا۔ عقل کی میزان اور دلیل کی حجت نہ رہے تو کہاں کا علم اور کاہے کی فکر؟
پھر المیہ یہ نہیں ہوتا کہ جو ہمیں ہمارے ماحول نے دیا، اس کا نام عقیدہ ہے۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ جو ہمارے ماحول نے دیا وہ حتمی اور قطعی ہے۔ جہاں بات حتمی اور قطعی ہوجاے وہاں علم پر اجارے کے دعوے سامنے آنے لگتے ہیں۔ اس مارا ماری میں فکر کا بہاو رک جاتا ہے۔ علم کا پانی ایک جگہ رک کر جوہڑ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہاں سے تعفن جنم لیتا ہے اور معاشرے کے وجود میں نت نئی فکری امراض جنم لیتے ہیں۔ ہم دوا نہیں کرتے تو رفتہ رفتہ یہ بیماریاں ہماری ہستی کا سامان ہوجاتی ہیں۔ زیاں کا احساس مر جاتا ہے۔ پھر تشدد سر عام کرتے ہیں اور محبت کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈتے ہیں۔ خود کش حملوں سے زیادہ خود کشی پر فکرمند ہوتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں ایک نئے رنگ و ڈھنگ کا خدا تخلیق کرتے ہیں اور پھر اپنے تمام جرائم کو اسی خدا کا حکم قرار دیتے ہیں۔ انسانیت کو بنام خدا تقسیم کردیتے ہیں۔ برتن الگ کر لیتے ہیں۔ تعلق کے بیچ جائز ناجائز کی دیواریں اٹھا دیتے ہیں۔
ہم اس ساری صورت حال سے پریشان بھی ہوتے ہیں۔ کیوں۔؟ کیونکہ ہم بھیانک نتایج بچشم سر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم اس صورت حال سے نکلنا بھی نہیں چاہتے۔ کیوں۔؟ کیونکہ اس سے ان تصورات پر زد پڑتی ہے جن تصورات پر ہم نے دودھ کے دانت توڑے ہوتے ہیں۔ اورعقائد کے پنے میں لپٹے ہوے یہ تصورات ہمارے لیے انسان کی حرمت سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں۔
ایک حادثہ۔ حادثے کے بعد پھر حادثہ۔ نوحہ وماتم، آہ وفغاں، مذمت وملامت۔ اب کیا کریں؟
بس ہمت کریں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کی ہمت کہ پرانی عمارت زمین بوس چکی ہے۔ یہ جاننے کی ہمت کہ یہ عمارت کیوں گری ہے۔ اگر یہ مان گئے، اگر یہ جان گئے تو نئی عمارت کی تعمیر پلک جھپکتے کا کام ہے۔
اگر نہیں مان رہے، اگر نہیں جان رہے، تو پھر حادثوں کا غم بھلانے کے لیے یہی آپشن مناسب ہے کہ ملبوں تلے سے اٹھنے والی چیخ و پکار کو کرکٹ اسٹیڈیم سے اٹھنے والے شور شرابے میں تحلیل کردیا جاے۔