نطم ۔۔۔ ابرار احمد
نظم
( ابرار احمد )
آنکھیں بند ہوئی جاتی ہیں …
تم جانتے ہو
میں تمھاری زمین پر ، سر جھکا کے چلتا ہوں
اور آہستہ رو ہوا کی طرح
تمھارے دل سے لپٹتا ہوں
تم جانتے ہو
میں کتنی راتوں کا جاگا ہوا
گرتا پڑتا بلآخر
تمھارے خواب کی چوکھٹ سے لگ کر
دو گھڑی کو اونگھ گیا تھا
لیکن کتنی جلدی دن نکل آیا ہے
ایک ہاتھ کی دستک پر
تم نے دروازہ کھول دیا ہے
تمھارے آسمان پر جھکے بادل
تمھارے گھر تک جھک آے ہیں
اور مجھے
رات کی رهداریاں پھر سے بلاتی ہیں
ایک ادھورے گیت کی باز گشت
نا رسائی کی دیواروں سے سر ٹکرا رہی ہے
تم جانتے ہو
ہمارے لیے دن اور رات
نیند اور بیداری
ایک سی سرشاری
اور اذیت کے پرتو ہیں
میں نہیں جانتا
مگر اس لمحہ بھر نیند کی مہک نے
مجھے بے آرام کر دیا ہے
مجھے اس باغ تک جانا ہے
جہاں چاندنی کے بستر پر
گزشتہ ساعت میں ٹھہری ہوئی
ستاروں بھری دو خوش نما آنکھیں
میری راہ دیکھتی ہوں گی
میری آنکھیں
ابھی سے بند ہوئی جاتی ہیں