آخری بارش ۔۔۔ ابرار احمد
آخری بارش
ایک محبت کے باطن میں
کتنے جذبے ہمک رہے ہیں
ایک چمکتے مکھ میں
کتنے چاند ستارے دمک رہے ہیں
جاگنے کی ساعت کے اندر
کتنی صدیاں سوئ ہوئی ہیں
دلوں میں اور دروازوں میں
کہیں ابھی موجود ہیں شاید
رستہ تکتی
جھکی ہوئی بیلیں اور بارش
جہاں سے کوئی مہک پرانی
میری مٹی اڑا رہی ہے
تیرے کپڑے پکڑ رہی ہے
جتنے اشک تھے لہو کے اندر
اتنے پھول کھلا آیا ہوں
جن ہونٹوں پر چہکا ، ان پر
چپ کی مہر لگا آیا ہوں
جتنے خواب بھرے تھے میری نیندوں میں
اتنی تعبیروں کے پیچھے بھاگ چکا
ایک نوع کے آنسو ، آنکھ سے گر جاتے ہیں
اور طرح کے بھر جاتے ہیں
رستوں کے اندر رستے ہیں
سفر کے اندر سفر چھپے ہیں
بادلوں کے اندر بادل ہیں
چھینٹوں کے اندر چھینٹے ہیں
بارش تو گرتی ہی رہے گی
دنیا تو بستی ہی رہے گی
جو بھی چلتا ہے بارش میں
جو بھی گھومتا ہے بستی میں
کھو جاتا ہے
کھو جاۓ گا
عمر کی بھی سرحد ہوتی ہے
رقص کی بھی اک حد ہوتی ہے
چلیے… اب میں بھی تیار ہوں
تھم جانے کو
کسی مہکتی مٹی میں
گھل مل جانے کو ….!
Abrar Ahmad started his poetic journey in 1980. His poetry frequently revolves around themes of existentialism, often reminiscing about meaning of life, disillusionment and displacement.
To date, Abrar Ahmad has two published poetry collections. One book is a collection of poems, Akhri Din Sey Pehlay (1997), and the other is a collection of ghazals, Ghaflat Kay Brabar (2007).
Read more from Abrar Ahmad.
Read more Urdu Poetry