خوش بخت نوحہ ۔۔۔ آدم شیر
خوش بخت نوحہ
آدم شیر
وہ میرے سامنے صوفے پر بیٹھا ہے۔ رنگ گندمی، قد بوٹا ، بال خضاب سے سیاہ اور چمکدار، دو رنگی مونچھیں ، استرا رگڑ رگڑ کی ہوئی شیو، نیلاہٹ میں ڈوبی کالی شلوار قمیص اور اسی رنگ کی ویسٹ کوٹ پہن رکھی ہے۔ نئے ڈیزائن کا نفیس چشمہ ناک پر ٹِکاہے۔ پتلی پتلی انگلیوں والے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں سے بائیں میں چند کاغذ ہیں، دائیں میں سگریٹ سُلگ رہا ہے اور زبان نوحہ کُناں ہے۔
’’ ہم اپنے لاشریک کی ناقابلِ برداشت بوجھ والی فقہ تلے سانس کے معنوں میں تو زندہ رہتے ہیں لیکن اعتبارِ زندگی کے حساب سے زندہ نہیں رہتے۔ ہمارے لیے متبادلات اور مترادفات لایعنی ہو جاتے ہیں۔ لاشریک کے خوشامدی مشیر گُداز صوفوں میں دھنس کر اپنی فقہی اِصطلاحات اور اِصلاحات پر خوشگوار تبصرے کرتے ہیں اور اپنے لاشریک کی توصیف کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ موسیقار پرندے ہمارے شہر سے ہجرت کر چکے ہیں اور ہمارے باغوں کے رقاص مور کہیں اور جا بسے ہیں اور ہمارے خواب اور ہمارے آدرش معنوں سے خالی ہو چکے ہیں اور ہمارے ہونے کے تمام مفہوم یوں نچوڑ لیے گئے ہیں جیسے سخت انگلیاں لیموں نچوڑ لیتی ہیں۔‘‘ (ذ ر )
نوحہ گر وَلی کا جوش سے اُوپر اُٹھتا اور نیچے جھکتا دایاں ہاتھ جس میں سگریٹ سُلگ سُلگ کر انگلیاں جلانے کو ہے، ایش ٹرے کی طرف بڑھتا ہے اور وہ واہ واہ کی صدائیں دینے والے چہروں کی طرف دیکھتا ہے ۔ ایک کونے میں صوفے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا اداس بوڑھا شاعر اپنے پاؤں کی اُنگلیوں میں خلال کرتے ہوئے درد کی موٹی تہہ نکالنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اُس کی بائیں طرف صوفے پر ایک داڑھی مُنڈا نوجوان شاعر ہے جس کی بغل میں اُس کا ایک اَن پڑھ دوست ہے جو جیل کو دوسرا گھر قرار دیتا ہے اور کُھلے پنجرے سے تنگ آ کر بصد شوق قید خانے میں گہری سانس لینے اکثر جاتا ہے۔ اُداس بوڑھے شاعر کی دائیں طرف صوفے پر گھنی داڑھی والا شاعر چھت سے لٹک رہے فانوس کی لڑیاں گن رہا ہے ،اس کے ساتھ بیٹھا کہانی کار ٹوپی سے ماتھا چِھپائے آنکھیں بند کیے کچھ سوچ رہا ہے لیکن مَیں طلسماتی حقیقت نگار کے دوبارہ سحر پھونکنے کا منتظر ہوں۔
’’اے مہربان اور محنت کرنے والی ماں! اپنے بیٹوں جیسے ایک مسافر کی طرف سے یہ چھوٹا سا تحفہ قبول کر کہ تیرے بیٹوں جیسے اس مسافر کا پیشہ خوبصورت اور مقدس ناموں کو خوبصورت اور مقدس طریقے سے لِکھنا ہے اور اس نے تیرے لیے اس تختی پر ایک بہت ہی خوبصورت اور پاک نام کا نقش کوئلے سے بنایا ہے۔ ۔۔ تُو نے اگر اپنے بیٹوں جیسے اِس مسافر کو اپنی بے زبان دعاؤں میں یاد رکھا اور خدا نے تیرے بیٹوں جیسے اس مسافر کے دِن طویل کر دیے اور رنگوں اور کُوچیوں اور برَشوں کے استعمال میں طاقت عطا کر دی تو مَیں اس خوبصورت اور پاک نام میں رنگ بھرنے ضرور لوٹ کر آؤں گا۔۔۔ ضرور لوٹ کر آؤں گا۔‘‘ (ذ ر )
وہ تؤقف کرتا ہے کہ ایک خاتون پلاسٹک کی ٹرے میں مشروب سے بھرا جگ اور گلاس رکھے کمرے میں داخل ہوتی ہے اور لمبے بالوں والے بوڑھے شاعر، داڑھی والے شاعر، داڑھی کے بغیر شاعر اور کہانی کار اور مجھ محنت کار کو ایک ایک گلاس دیتی ہے۔ ہم شربت پینے لگتے ہیں ،وہ سگریٹ سُلگا کر کبھی پچھلا ورق اُلٹاتا ہے ،کبھی اَگلا سامنے لاتا ہے اور جب مطلوبہ صفحہ پالیتا ہے تو ہماری موجودگی کو نگاہوں میں تولتے ہوئے توجہ طلب کرتا ہے اور ایک لمبا کش لے کر دھوئیں میں لپیٹ کر لفظ اُگلتا ہے۔
’’میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا ، شاہراہ پر آ جاتا ہوں اور اپنے زخموں کے ساتھ محوِ سفر ہو جاتا ہوں، محوِ ہجرت ہو جاتا ہوں۔ لیکن اب یہ شاہراہ مجھے خوفزدہ نہیں کرے گی اور غمگین نہیں کرے گی اور اُداس نہیں کرے گی۔ میری جینز پر چِپکے ہوئے اَوہام کے اور تہی خوابی کے اور بے خبری کے تِنکے جھڑ چکے ہیں۔ اب میرے پاس خواب بھی ہے اور خبر بھی ہے۔ میں تیس نوٹوں کو چلانے کی توانائی لینے جا رہا ہوں۔اچھا ہوا تھا کہ سیاہ مرسیڈیز میں بیٹھی ہوئی فرعون ممی نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا تھا ورنہ اس وقت مَیں اپنے زخموں کو اپنے بدن پر اٹھائے اس شاہراہ پر اپنے خواب اور اپنی خبر کے ساتھ نہ چل رہا ہوتا۔‘‘(ذ ر )
وہ سانس لیتا ہے اور بات برقرار رکھتا ہے۔
’’حَرف کہ رنگ اور نسل کا ہر امتیاز مٹا دیا گیا، حَرف کہ محنت کے بغیر سرمائے میں اضافہ کرنے کا حق ختم کر دیا گیا، حَرف کہ فضیلت کے جھوٹے معیار پاؤں تلے روند دیئے گئے۔۔۔‘‘ (ذ ر)
اور میں اسے ٹوکتا ہوں کہ کہہ سکوں ۔ ۔۔کہہ سکوں کہ ہاں یہی وہ بات ہے جو میں سننا چاہتا ہوں۔ یہی وہ بات ہے جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ مَیں محنت کار بھی بطور انسان اُتنا ہی واجب الاحترام ہوں جتنا کہ کوئی عالی شان ہوتا ہے کیونکہ میں انسان ہوں۔ اور جب میں انسان کی جون میں جنمایا گیا ہوں تو میں وہ احترام پیدائش کے ساتھ لایا ہوں جو کوئی نہیں چھین سکتا ۔ یہ مجھے اُس نے دیا ہے جس نے تمہیں عقل دی تاکہ تم اسے استعمال کر سکو۔ جس نے تمہیں اِتنی بڑی دنیا دی کہ تم اس سے استفادہ کر سکو۔ ٹھہرو۔ مجھے پوچھنے دو ، کیا اُس نے تمہیں اِسے پامال کرنے کا حق بھی دیا ہے ؟ جیسے وہ ،جو خود ساختہ عالی شان ہیں، سمجھتے ہیں کہ اُنہیں مجھے پامال کرنے کا حق دیا گیا ہے ، فرض بھی کیا گیا ہے کہ مجھے ٹاٹ پر بٹھائیں اور خود تپتی دوپہروں میں ٹھنڈے کمروں میں پڑے گُداز صوفوں میں دھنسے میرے متعلق فیصلے سنائیں کہ وہ محنت کار جو ہم میں سے نہیں، ان پر واجب ہے کہ وہ محنت کار ہی رہیں تاکہ ہم پھل کھاتے رہیں۔
حاضرین میری طرف عجب نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن مجھے کسی کی پروا نہیں کیونکہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور مجھے حق ہے کہ میں کچھ کہوں کیوں کہ اس نے مجھے زبان دی ہے جس نے مجھے احترام دیا ہے تو میں بولوں گا کیونکہ اس نے مجھے زبان چلانے والی مشینری سے بھی نوازا ہے جو میری کھوپڑی کے اندر فٹ کی گئی ہے اور وہ مجھے حکم دے رہی ہے۔
اے نوحہ گر وَلی ! تم نے ابھی اُس کے بول بولے ہیں کہ تم سب برابر ہو کیونکہ تم سب انسان ہو۔ لیکن ایک بات بتاؤ کہ مجھے سب برابر کیوں نظر نہیں آتے؟ وہ کہتا ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ برابر نہیں لیکن میری آنکھیں تو کچھ اور ہی دیکھتی ہیں۔ جاہل اِتنے بڑھ چکے ہیں، اِتنے بڑھ چکے ہیں کہ تم جو خود کو ریاضی دان بھی سمجھتے ہو، جاہلوں کی گنتی نہیں کر سکتے اور مزے کی بات بتاؤ ں؟ اب جاہل واقعی برابر نہیں ، وہ افضل ہو چکے ہیں اور تم جو خود کو عالم سمجھتے ہو، منہ چھپاتے پھرتے ہو۔ گوشہ نشیں لفظ ساز بن چکے ہو مگر تمہارے لف٭۔۔۔ آہ لفظ کی حرمت پامال ہو رہی ہے ۔ ہر سچے لفظ کی حرمت پامال ہو رہی ہے ۔
میری آہوں کا طوفان ذرا ٹھہر جاتا ہے تو سب سکون کا سانس لیتے ہیں سوائے نوحہ گر وَلی کے اور اس کی مجوّف عدسوں کے پیچھے دانش سے چمکتی آنکھیں مجھے یوں گھور رہی ہیں جیسے کہہ رہی ہوں۔۔۔ چُپ کیوں ہو گئے۔۔۔ بہہ جانے دو۔۔۔ اور میں اِردگِرد نظر دوڑاتا ہوں اور یوں گویا ہوتا ہوں جیسے خطبہ دے رہا ہوں اور میرے الفاظ یوں برس رہے ہیں جیسے دسمبر میں بادل گرجتے ہیں۔
تُم اُس جاہل کو دیکھو جو ہمارے سروں پر اپنی جہالت اور ہماری خجالت کے سبب سوار ہے اور اُسے بھی دیکھو جس نے بھاری قدموں کے ساتھ ہمارے کندھے جُھکا دیے ہیں ۔ان سب کو دیکھو جو ہماری کھوپڑیوں میں اپنی سیاہ سوچیں بھرتے ہیں اور ہماری سچی سوچیں ہماری کھوپڑیوں کے کونوں میں پناہ لیتی ہیں اور وہاں سے کبھی کبھی ہاتھ نکال کر ہمیں خارش کرتی ہیں تاکہ ہم خارجی اور قابض سوچوں کو پرے دھکیل کر اپنوں کے لیے جگہ خالی کریں ۔ لیکن ہم کس کس کو بھگائیں؟ مغرب سے حملہ آور یا مشرق سے ورثے میں ملیں، شمال سے آئیں یا جنوب کی گھس بیٹھ کرنے والی، اُوپر سے اُتری یا نیچے سے آہنی کیلوں سے لیس ڈنڈوں کے ساتھ دھکیلی گئیں؟
کیا تمہیں یاد ہے وہ زمانہ جب لوگ اس لیے مشقت نہیں کرتے تھے کہ نوٹ اکٹھے کر سکیں۔ وہ اس لیے پسینہ بہاتے تھے کہ اپنی اور دوسروں کی ضرورت پوری کر سکیں۔ وہ کسی کے خون سے اپنے لیے برانڈی کشید نہیں کرتے تھے اور وہ کسی کے کھیت سے آلو چرا کر واڈکا بھی نہیں بناتے تھے۔ وہ گندم اُگاتے تھے تاکہ آپ کھا سکیں اور پڑوسی کو دے کر چاول لے سکیں یعنی کہ ہر دو کو نعمتیں میسر ہو جائیں۔ اے میرے نوحہ گر ! تُو ایک نوحہ یہ بھی کر کہ ہر نعمت پامال ہو رہی ہے جیسے مجھ محنت کار کی عزت اور محنت ہڑپ ہو رہی ہے۔
وہ ترنگ میں آتا ہے اور کہتا ہے سنو۔۔۔اور مَیں سنتا ہوں۔ تُم بھی سنو۔
’’یہ گاؤں جو تُم دیکھ رہے ہو، ان میں زندگی کی ویرانی اور تنہائی نہیں ہے۔ بے انقلابیت کی ویرانی اور تنہائی ہے۔ یہ موت کے نگر ہیں اور ان کے کھیتوں میں اِلوہی جوہر سے اُبھرنے والے وجود کی عِصمت داغدار ہوتی ہے۔ موت سے اور عِصمت کی داغ داری سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ جُگنی گاؤ۔۔۔ زبان سے نہ گا سکو تو انگلیوں سے گاؤ۔۔۔!
جُگنی میری بھنگڑا پاوے، نال نبیؐ دا حکم سناوے، جیڑا وائے اُوہی کھاوے، مالک نہ کوئی ہور سَداوے۔۔۔‘‘ (ذ ر )
وہ خاموش ہوتا ہے تو میں بے ساختہ کہتا ہوں کہ تمہارے بول سچے ہیں ۔ اب میری ایک سچی بات بھی سن لو۔ کیا تُم کالے اور گورے، بھورے اور پیلے، لال اور گلابی حیلہ گروں کی حیلہ جوئی سے واقف ہو جو دِکھاتے سجی اور مارتے کھبی ہیں۔ وہ تمہاری کُل کمائی لوٹ لیتے ہیں اور بدلے میں تمہیں فلاح کی نوید سناتے ہیں مگر وہ فلاح کہ جس کے انتظار میں میری جوان آنکھیں بوڑھی ہوگئی ہیں اور میرے مضبوط بازو کمزور پڑ گئے ہیں، میری جان دار ٹانگیں بے جان ہیں اور میری رگوں میں دوڑتا گرم خون جمنے لگا ہے، آہ ۔۔۔وہ فلاح پامال ہو رہی ہے۔
وہ بوڑھا مجھے نوحہ گر قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہاری نوحہ گری میں یوں شامل ہوتا ہوں۔۔۔
’’مَیں بھی اِسی شہر کا رہنے والا ہوں اور شِرک کرتا ہوں، خود ساختہ لاشریکوں کے سامنے شرک کرتا ہوں۔۔۔ یاہُو میں مشرک ہوں اور میرا مکہ سُرخ گلاب ہے اور میری جائے نماز بہتی ندی ہے اور میرا سنگِ اسود روشنی ہے اور میری دعا نوخیز کلی کی چٹک ہے اور میری عبادت مٹی کی زرخیزی ہے اور میری جنت گندم کی جھومتی پکی فصل ہے۔۔۔ میں صبح کی بارش سے وضو کر کے مناجات کرتا ہوں تو میرے باطن میں چاند خِرام کرتا ہے۔ نشیلی ہوا درختوں کے مناروں پر سرخوشی کی اذان دیتی ہے تو مَیں پھولوں کے مصلوں پر نماز پڑھتا ہوں۔ میرا کعبہ آزادی ہے اور میری آزادی کوچہ کوچہ گلی گلی خوشبو سفر کرتی ہے اور دلوں اور ذہنوں میں اور باغوں میں دیوانہ وار پھیلتی ہے۔‘‘ (ذ ر)
اے مُنے سے وجود میں دھڑکتے بڑے سے دل کے مالک! تیرے شاعرانہ اعتراف میں اور تیرے مفکرانہ انکشاف میں عجب جذب و مستی ہے کہ مَیں خودی اور بے خودی کی سبز پٹیوں کے ٹھیک درمیان بہتے دریا میں مسرّت، حیرت اور بصیرت کی کشتی پر سوار ہو جاتا ہوں مگر تیرا بلند آہنگ نغمہ مجھے لفظ کی حرمت پامال ہونے کی یاد دلاتا ہے ۔ آہ۔۔۔ لفظ کی حرمت پامال ہو رہی ہے اور لفظ صرف لفظ نہیں ہوتا، ایک جہان ہوتا ہے ۔ آہ۔۔۔ میرا جہان پامال ہو رہا ہے۔ تیرا جہان پامال ہو رہا ہے۔ ہر جہان پامال ہو رہا ہے۔ اے جہاندیدہ بزرگ! جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ ہر لالچ سے پاک جہاندیدگی چھین لی گئی ہے اور اس کی جگہ مکاری نے لے لی ہے جو بے حد بُری بلا ہے جو سارے کا سارا لپیٹ لیتی ہے اور سوچوں کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں اڑا دیتی ہے ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ذرے کہیں دُور ایک جگہ اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ بخارات بھی ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں اور زمین پر برستے ہیں۔
وہ صوفے سے اُٹھتا ہے، میری طرف بڑھتا ہے، میں بھی کھڑا ہوتا ہوں اور وہ مجھ سے بغل گیر ہو جاتا ہے ۔ وہ میرے کندھے پر تھپکیاں دے کر واپس اپنی جگہ جا بیٹھتا ہے اور دائیں ہاتھ میں پکڑا سگریٹ جو ابھی آدھا ہوا ہے، ایش ٹرے میں بُجھا دیتا ہے۔ وہ حاضرین کی طرف دیکھ رہا ہے اور حاضرین میری جانب ۔۔۔ اور میں ان سب کو ۔۔۔ چُپ چاپ۔۔۔ کوئی آواز کانوں کو سنائی نہیں دے رہی گو صدائیں ہیں اور برابر اٹھ رہی ہیں مگر سنائی نہیں دے رہیں۔
چند منٹ یونہی گزر جاتے ہیں۔کمرہ خاموشی کے لیے چھوٹا پڑ جاتا ہے اور نوحہ گر وَلی اس سناٹے کا حصار توڑنے کے لیے پہل کرتا ہے۔
’’اب صرف ایک ہی چارۂ کار باقی رہ گیا ہے کہ اِس بے ستارہ اور بے چاند رات میں منظر منظر اور چہرہ چہرہ تقسیم شدہ خود کو جمع کروں اور اِس جمع کمائی سے فلوریسنٹ لائٹس کے انگاروں پر لیٹی ہوئی اس رات کو آزاد کراؤں تاکہ اِس کے حلق سے سچائی کے اعلان کا مترنم چاند طلوع ہو اور اس کے کالے بالوں میں ستارے اتر آئیں۔‘‘ (ذ ر )
وہ خاموش ہوتا ہے تو لمبے کالے بالوں والا بوڑھا شاعر یوں داد دیتا ہے ۔۔۔ میاں تُم تو تاریخ کا حصہ ہو گئے ۔۔۔ اس جملے کے جادو سے نوحہ گر کا جوش اور بڑھ جاتا ہے۔
’’ایسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی جس کا نام قید ہو، جس کا نام جبر ہو، جس کا نام اقتدار ہو، جس کا نام قتل ہو، جس کا نام موت ہو اور ایسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی جس کا نام تخلیق ہو اور جس کا نام زندگی ہو۔ اصطلاحیں ہمیشہ ویسی ہوتی ہیں جیسی تم انھیں بناتے ہو اور اصطلاحیں ایک خود کار عمل کے مختلف مرحلے ہیں اور اس خودکار عمل کے چند مرحلوں سے الجھنا اس عمل کے آخری نتائج کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ ‘‘ (ذ ر)
داڑھی منڈا شاعر اور داڑھی والا شاعر یک زبان ہو کر سراہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ اور بھی سنائیے ۔ تقلید میں ہم سب کہتے ہیں کہ کچھ اور بھی سنائیے ۔
’’تُم وہ ہو، جوتُم ہو۔ ایسا کوئی دیوتا موجود نہیں ہے جو تمہاری تحسین سمیٹ سکے اور تمہارا الزام اوڑھ سکے۔ اپنے اعمال کے ساتھ صرف تم کھڑے ہو سکتے ہو۔ کہہ دو کہ تُم ہی سب کچھ ہو۔ کہہ دو کہ تُم ہی ازل ہو اور تُم ہی ابد ہو۔ کہہ دو کہ تُم اپنے علاوہ سب سے انکار کرتے ہو، اس لیے کہ پُریقین انکار بے یقین اقرار سے بڑی ضمانت ہے۔ بے یقین اقرار روکتا ہے اور پُریقین انکار جاری کرتا ہے۔‘‘ (ذ ر)
پھر واہ واہ کی تکرار ہوتی ہے لیکن میرے ذہن میں گھڑی کی سوئیاں الٹی گھوم رہی ہیں اور میں سب کو ٹوکتا ہوں اور وہ سب مجھ بدتمیز کو ناگواری سے دیکھتے ہیں ۔ میں آدابِ محفل کی دھجیاں یوں اڑاتا ہوں کہ جلتا قمقمہ بجھ جاتا ہے اور گھومتا پنکھا بھی رک جاتا ہے۔ اِس تاریکی میں نوحہ گر کی آواز ابھرتی ہے جو مجھے کہتی ہے کہ بولو۔ کیا کہنا چاہتے ہو؟ اور میں بولتا ہوں۔
اے گوشہ نشیں لفظ ساز! میں نے تمہاری لکھتیں پڑھی ہیں اور تم سے سنی بھی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ تم کہانی کہتے ہو نہ افسانہ لکھتے ہو، تم تو باتیں کرتے ہو۔ میری باتیں، اپنی باتیں، سب کی باتیں گو تمہاری باتیں آسانی سے سمجھ نہیں آتیں لیکن جب میرے دماغ میں ہِل جُل تھم جاتی ہے تو تمہاری باتوں کی گِرہیں کُھلنا شروع ہوتی ہیں اور مجھے جاپتا ہے کہ تمہاری باتیں اِلہامی کتابوں سے مستعار ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم دیتا ہے کہ تم نے سیاہ اور سفید حروف پڑھے ہیں۔ تم بستی بستی پھرے ہو۔ تم ریل کی پٹڑیوں اور ان سے وابستہ رومانوں کے جانکار ہو۔ تُم فضا میں اڑتے جہازوں سے واقف ہو۔ ریگ زاروں کی ریت کے کئی ذرے ،جو تمہارے بالوں میں کبھی گُھسے تھے، وہ اب تک اٹکے ہوئے ہیں ۔ تم نے دریاؤں کا پانی چکھا ہے ، ٹوبوں کا پانی پیا ہے اور سمندروں کے پانی کے نمکیات اب تک تمہارے وجود پر دھوپ پڑنے سے چمک چمک جاتے ہیں۔ تُم جاگیردار ہو لیکن میں سمجھ نہیں پاتا کہ تُم کیسے جاگیردار ہو جو کسان کو اس کی فصل سے زیادہ جانتا ہے اور تُم کیسے دولت مند ہو جو افلاس اور اس سے جنم لیتے عیبوں کے نحوسیائے محنت کاروں کو اُن کی محنت سے زیادہ مانتے ہو۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ تُم مجھے چودہ سو سال پرانی باتیں سناتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اِنہی باتوں میں وہ بات ہے جو بھلائی کی بات ہے، جو نجات کی بات ہے، جو آزادی کی بات ہے لیکن کیا تم جانتے ہو کہ آزادی کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے؟
میں سانس لینے کو رُکتا ہوں اور اندھیرے میں اِردگِرد دیکھتا ہوں۔ مجھے تاریکی کے باوجود متجسس چہرے نظر آ رہے ہیں جن کے کانوں کے پردوں میں جُنبش ہو رہی ہے اور میں انھیں زیادہ دیر ترسا نہیں سکتا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کا تجسس غارت نہ ہو جائے تو گویا ہوتا ہوں۔
اے نوحہ گر ولی ! کیوں نہ آج مَیں تمہیں ایک ایسا نوحہ پیش کروں جومیرے دل پر کسی نے نہیں لکھا اور مجھے معلوم بھی نہیں کہ یہ کہاں سے نمودار ہوا ہے۔ میرا ایک بیٹا کسان ہے۔ میرا ایک بیٹا مزدور ہے۔ میرا ایک بیٹا ہنر مند ہے اور میری ایک بیٹی دانش ہے جبکہ میں محنت کارہوں اور قلم کار بھی ہوں جو تُو بھی ہے اور تُم سب ہو جبھی تیرے سامنے اور تُم سب کے سامنے نوحہ گری کرتا ہوں کہ میں اپنے بیٹوں اور بیٹی کے ماضی سے پریشان ہوں۔ حال سے پریشان ہوں اور مستقبل کے متعلق بھی پریشان ہوں۔
تُم جاننا چاہتے ہو کہ ایسا کیوں ہے؟ میں دِکھاتا ہوں۔ تینوں آنکھیں کھولو اور دیکھو ۔ کیا تمہیں نظر آیا میرا وہ کسان بیٹا جس کے کھیت میں ہوا کے زور پر پڑوس سے کچھ بیج آ گرے تھے ۔ اس کی زمین بڑی زرخیز تھی اور نم بھی تھی۔ جب فصل پک کر تیار ہوئی تو وہ حیران رہ گیا کہ یہ کھیتی کیسی ہے جو اُس نے بوئی ہی نہیں لیکن اِس کے تحیر پر جلد تغیر آن پہنچا کہ پڑوسی نے اپنے کھیت جیسے روئی کے گولے دیکھ لیے اور اس کثیر الملکی کمپنی کو خبر کی جس سے وہ بیج خریدتا تھا۔ پھر جانتے ہو کیا ہوا؟ ۔۔۔ میرے اس کسان کی ساری فصل لائی لگ منصف نے کمپنی کے نام کر دی ۔
مَیں ایک آہ بھرتا ہوں اور سب آہ بھرتے ہیں مگر مَیں بات آگے بڑھاتا ہوں۔
تمہیں میرے دل پر ثبت وہ سانحہ نظر آتا ہے کہ ایک کارخانہ دار نے میرے ساٹھ ہزار مزدور ،میرے ساٹھ ہزار ہنرمند ایک دن میں نکال باہر کیے اور ان کی جگہ آہنی مشینوں کو دے دی جو چوبیس گھنٹے کام کرتی ہیں اور دولت کے ڈھیر لگاتی ہیں ۔ اگر تم میرے سینے پر مونگ دلتی ان مشینوں کو دیکھ چکے ہو تو میرے ساٹھ ہزار محنت کار بھی دیکھ لو جن کے کُھردرے ہاتھوں میں چھلنی کشکول ہیں اور وہ ننگے پیر تپتی سڑک پر لنگڑا رہے ہیں اور ان کے چہرے دیکھو جن پر کبھی چمک ہوا کرتی تھی جو ساری کی ساری ایک شخص کے تھوبڑے پر آگئی ہے۔
اور اے میرے دوست! تُو ذرا میری بیٹی دانش کی طرف دیکھ اور اس کے گرد لپٹا فریب کا لبادہ بھی دیکھ۔ مَیں اُس کا باپ ہوں اور اُسے پہچان نہیں پاتا۔ میں جان نہیں پاتا کہ اُس نے کیسا لباس زیب تن کیا ہے ؟ کیا وہ واقعی اُس کا ہے یا اغیار نے دیا ہے؟ اور اُس کا خوبصورت چہرہ مرکب سفوف کی اَن گِنت پرتوں میں چھپا ہوا ہے ۔ مَیں ایک پرت اتارتا ہوں۔ دوسری اتارتا ہوں۔ تیسری اتارتا ہوں۔ اتارتا جاتا ہوں مگر یہ ختم ہی نہیں ہوتیں۔ مَیں اس کا اصلی روپ دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں۔ تُم جانتے ہو ، اس سے بڑا دکھ کیا ہوگا کہ تمہاری اولاد تمہارے سامنے اجنبی ہو جائے۔
مَیں خاموش ہو جاتا ہوں کہ درد نے میرا گلا خشک کر دیا ہے لیکن چند لمحے ہی گزرتے ہیں کہ میرے سامعین ہمدردی اور غمگساری کے گیہوں سے میرا حلق تر کر دیتے ہیں اور الفاظ پھسل پھسل کر باہر آتے ہیں۔
اے میرے قلم کار ! تُم تاریخ کے ساتھ مباشرت کرتے ہو اور تُم تمام علوم کے ساتھ جماع کرتے ہو اور جو اولاد پیدا ہوتی ہے ،وہ سچ ہے۔ میری بات ذرا دھیان سے سنو اور آج ایک سچ مجھے بھی دو کہ میرے کان سچ سننے کو ترستے ہیں ۔
کیا تمہیں یاد ہیں میرے وہ مزدور اور ہنرمند بیٹے جن کا خون چوسا جا رہا تھا اور ایک دن ان کی برداشت کا دھاگا ٹوٹ گیا اور انھوں نے خون چوس کیڑوں کے سر اپنی ٹوٹی جوتیوں کے گھسے تلوؤں تلے مسل دیئے ۔ آہ۔۔۔ ایک وقت آیا کہ وہ خود خون چوس کیڑے بن گئے ۔ اور کیا تمہیں وہ دن یاد ہیں جب کھیت جاگے تھے ، جب شب کی کچلی حسرتوں اور صبح نو کی آرزوؤں نے زمین شق کر دی تھی ، تب خون کے چشمے پھوٹے تھے۔ آہ۔۔۔ وہاں سے لہو اب تک اُبل رہا ہے اور یہ میرے بیٹوں کا ہے جن کے کارنامے حیلہ گروں نے ہائی جیک کر لیے اور تجھ سے نوحہ گر اب تک آنسوؤں میں قلم ڈبو ڈبو کر ورقے گیلے کرتے ہیں ۔ آہ ۔۔۔ یہ ورقے جلدی جلدی سوکھ جاتے ہیں۔ اے میرے نوحہ گر! میرے اُن بیٹوں کے لیے بھی نوحہ کر جو زر داروں کے سونے اور چاندی کے زہر میں لپٹے تاروں سے بندھے ہیں ۔ اور مجھے بتا اب میرے کسان، مزدور اور ہنرمند کیا کریں؟ وہ دو تین حربے آزما چکے ہیں اور نتیجہ وہی نکلا ہے۔ کسی نے کان اِدھر سے پکڑا، کسی نے اُدھر سے۔۔۔وہ ریچھ کے پنجوں اور بیل کے سینگوں سے خوفزدہ ہیں۔ بتا ، اب وہ کیا کریں؟
خودساختہ لاشریکوں کے سامنے شِرک کرنے والا بولا۔
’’میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں۔ پھر بھی سنو۔ اپنے بیٹوں سے کہو سچ تلاش کریں۔وہی سچ جو تم جانتے ہو، جو میں مانتا ہوں۔‘‘
’’وہ کون سا سچ ہے جس کی تُم بات کر رہے ہو۔ میرے سامنے تو سچ کی لُوٹ سیل لگی ہے۔‘‘
’’میں اُس سچ کی بات کر رہا ہوں جو سینکڑوں سال پہلے آسمان سے اترا تھا ۔‘‘
’’کیا وہ سچ صدیوں بعد بھی سچ ہے، کیا اُس پر میری بیٹی کی طرح فریب کے لبادے نہیں اوڑھائے گئے؟
’’ہاں۔وہ سچ ہے اور رہے گا بھی۔ تمہاری بیٹی ہے اور رہے گی بھی۔ اور ایک دن تُم دیکھ بھی لو گے۔‘‘
’’تمہیں یقین ہے؟‘‘
’’ہاں۔ مجھے یقین ہے اور میں دوبارہ کہتا ہوں مجھے کامل یقین ہے۔ کبھی میں بے یقینی کا شکار تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب میں اسے جھوٹ ٹھہراکر ایک غبی عالم سے مناظرے جیتنے کا شوقین تھا اور وہ ہار کر بھی نہیں تھکتا تھا۔ لیکن ایک دن اُس نے مجھے ایسی بات کہی کہ میرا یقین کی بے یقینی پر بھروسا ٹوٹ گیا ۔ اس کے صرف ایک جملے نے بساط الٹا دی۔ ۔۔ ’’تم سچ کو جانتے ہو۔ مانتے نہیں کیونکہ تم پورا سچ نہیں جانتے۔ ‘‘اور جب میں نے اسے پورا جاننے کے لیے اچھی طرح پرکھا اور ٹٹولا بھی ، تو مَیں مان گیا اور وہ جو مجھ سے ہر بار مناظرہ ہار جاتا تھا، ہمیشہ کے لیے جیت گیا۔ ‘‘
مَیں سر کھجاتے ہوئے حاضرین کی جانب نگاہ دوڑا رہا ہوں جو سوچ میں ڈوبے دکھائی دے رہے ہیں یا انتظار کر رہے ہیں کہ کب مجھ احمق ،چھوٹے منہ سے بڑی باتیں اُگلنے والے ، کے بودے بول ختم ہوں لیکن مجھے تو وہ نہیں روک سکا جو کبھی چاندی اور کبھی تانبے کے دھاگوں سے آنکھیں اور ہونٹ سیتا رہا ہے لیکن اب مَیں کیا کہوں کہ میری سمجھ دانی سے ایسی آوازیں آ رہی ہیں جیسے دانے بھونے جا رہے ہیں اور یہ دانے بے حد قیمتی ہیں جو نگلنے مشکل ہیں اور اگر کسی کے حلق سے نیچے اتر گئے تو وہ ہزار بیماریوں سے نجات پائے گا۔ دماغ کی چولیں ہلانے والی بات یہ ہے کہ اِن میں سے کون سا دانہ اِس وقت چُگنا موزوں ہے اور شاید یہ بات اُس دانا نے بھی محسوس کرلی ہے جبھی کہہ رہا ہے۔
’’تمہاری الجھن کی سلجھن مَیں اُس بات میں لپیٹ کر دیتا ہوں جو مَیں نے لوک کتھاؤں سے کشید کی تھی۔ تُم دھیان سے سنو، تُم سب دھیان سے سنو اور وہ یہ ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ ‘‘
اس کے کشف سے مجھ پر منکشف ہوتا ہے جس میں مَیں دوسروں کو اعلانیہ شریک کرتا ہوں کہ ہمارا سر مسلسل سڑ رہا ہے اور اتنا سڑ چکا ہے کہ ہم اس کی سڑانڈ سے ناامید ہیں لیکن مجھے اُمید کی دودھیا روشنی نظر آتی ہے کہ ابھی ہمارے سر میں کئی خَلیے جان دار ہیں۔ اِنہیں توانا کریں تو اِن کی توانائی سے باقی حصے بھی بحال ہو جائیں گے اور ہمارے پیر تک ٹھیک ٹھیک کام کریں گے۔
اور جب میرا اعلان اختتام ہوا تو بجھا ہوا قمقمہ جل اُٹھا اور رکا ہوا پنکھا گھومنے لگا ۔ لمبے بالوں والے شاعر، داڑھی منے شاعر اور داڑھی والے شاعر ، ٹوپی پہنے کہانی کار اور نوحہ گر ولی نے مجھے یوں دیکھا جیسے اندھیری راہ پر چلنے والا تھکا ہارا مسافر دُور سے آتی گاڑی کی روشن بتیاں دیکھتا ہے لیکن میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور مجھے آواز سنائی دیتی ہے۔
’’او قید خانے کے رسیا! بتا تُوجو ہر دوسرے تیسرے دن یہاں آتا ہے اور میری لکھت مجھ سے سنتا ہے، تُو کبھی کچھ بولتا کیوں نہیں؟ میری باتیں تجھے سمجھ بھی آتی ہیں کہ نہیں؟‘‘
اور وہ جس کا کھلے پنجرے میں دَم گھٹتا ہے ، اُس کے ہونٹ وا ہوتے ہیں۔
’’سمجھ تونہیں آتیں۔ لیکن آپ ،جو باتیں یہاں کرتے ہیں، اگر میرے قید خانے میں کریں تو تمام قیدی آپ کی خدمت کریں۔ آپ کو اچھے سے اچھا پھل، جو میسر ہو، پیش کریں۔ پسند کا کھانا سنتریوں کو کچھ دے دلا کر آپ کے لیے روز منگوائیں۔ جس نشے کی بھی طلب ہو، پورا کریں۔ آپ کی مٹھی چاپی کریں اور آپ کے حصے کی تمام مشقت اپنے ذمے لے لیں۔‘‘
اُس کے خاموش ہوتے ہی چھوٹے سے کمرے میں بڑے بڑے سروں پر چھت آ گرتی ہے اور میں آنکھیں ملتے ہوئے دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی دامن جھاڑتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے ، تب میرے حلق سے چند الفاظ بہ مشکل نکلتے ہیں۔
کون کہتا ہے ، حرف کی حرمت پامال ہو گئی؟