سفاک لڑکی سے آخری مکالمہ ۔۔ احمد سہیل
سفاک لڑکی سے آخری مکالمہ
احمد سہیل
جب لڑ کی خاموش ہو جاتی ھے
تو خواب تعبیر سے جدا ہو جاتے ہیں
جب لڑکی مسکراتی ہے تو آزادی ہم سے چھین لی جاتی ہے
ہم دنیا میں عدت کے دن گزار رہے ہیں
مجھے موت دے دو، میں اپنی زندگی میں واپس جانا چاہتاہوں
موت ایک معمہ ہے
سایوں کے پیچھے وہ اپنی تعریف سن کر رودیتی ہے
الجھے ہوئے اندھیروں میں زندگی مجرم بنے کھڑی ھے
تم خزاں سے پہلے آجانا
زندگی بیچنے والا پانی ، موت اپنے سینے پر سجا تا ہے
موسموں کے بدل جانے سے، پیڑوں سے پتے جدا ہو جاتے ہیں
مگر جدائی کا کوئی موسم نہیں ہوتا
جتنی دیر میں نظم پوری ہو ۔۔۔ تم لوٹ کے آ جانا
اور جاڑوں سے پہلے مجھے آ از دکردینا
یہ اس دن کی کہانی ہے
جب شہر سرشام سو گیا تھا
Facebook Comments Box