نظم ۔۔۔ احیا زہرا
نظم
احیا زہرا
میں بے سر کا ایک جسم
چہروں سے بھری اس دنیا میں
اپنی شناخت ڈھونڈتا ہوں
میرے چاروں طرف
چندھیا دینے والی
روشنیوں کا طوفان ہے
جس میں
میں اپنی آنکھیں گم کر بیٹھا ہوں
زندگی کو ٹٹولنے کی کوشش میں
میں اکثر بھٹک جاتا ہوں
اور غلط فیصلوں کی پاداش میں
میرا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے
مگر میں مرتا نہیں ہوں
میرے قدم
کسی نامعلوم منزل کی جانب
میکانکی انداز میں بڑھتے جاتے ہیں
اور صبح کو کھینچ کر
شام تک لے جانے کی تگ و دو میں
میرا وجود پتھر کا ہو جاتا ہے
لیکن پھر بھی
میرے پاؤں رکتے نہیں ہیں
کہ شاید
میں بھی دنیا کی اس فیکٹری سے نکلا ہوا
ایک روبوٹ ہوں
جس کے دل و دماغ کی جگہ
پیتل کے پرزے فٹ ہیں
جو صرف
پروگرامنگ پہ چلتا ہے
بے سر کا ایک جسم ۰۰۰
Facebook Comments Box