دو نظمیں ۔۔۔اختر حسین جعفری
دو نظمیں
( اختر حسین جعفری )
بہتے دِن کا گَدلا پانی
کچھ آنکھوں میں
کچھ کانوں میں ــــــــــ اور شِکم میں ناآسُودہ دَرد کی کائی
اِس دریا میں لمحہ لمحہ ڈوُبنے والے!
تیرا جینا مرنا کیسا؟
تیرا پار اُترنا کیسا؟
کون سفینہ سوچتی عُمروں کے ساحل سے
تودہ تودہ گِرتی شاموں کے پایاب سے تیری جانب آئے گا
ڈوُبنے والے!
تیرا پار اُترنا کیسا؟
——————————————–
“سُورج، مِنبر اور زینے”
کہاں ہے سُورج؟
یہی ہے سُورج
یہی ہے سُورج کہ جس کے نیچے سیاہ چھت پر کمر خمِیدہ نمازیوں نے
دُعائے ابرِ مطیر مانگی، ہَرے درختوں کا خواب دیکھا
کہاں ہے زینہ؟
یہی ہے زینہ
یہی ہے زینہ کہ جس کے مِنبر پہ صُبحِ کاذب میں نجمِ تازہ نے جُھوٹ بولا
یہی ہے زینہ کہ جس کا رَستہ سیاہ چھت سے مِلا ہُوا ہے
یہی ہے زینہ کہ جس کے نیچے زمین کی سمت اب کوئی راستہ نہیں ہے
Read more from Akhtar Hussain Jaffery
Read more Urdu Poetry