ٹھہرے ہوئے موسم کی ایک نظم ۔۔۔ اصغر ندیم سید

ٹھہرے ہوئے موسم کی ایک نظم

اصغر ندیم سید

کبھی منہ سے آواز ہاتھوں سے قسمت اور آنکھوں سے پہلی مسرت کا پانی گرے

تو اسے مت اٹھانا

کبھی رات کی شال سے چاند سالوں کی مٹھی سے خوشبو زمینوں کی جھولی سے خوراک

اور دل سے قربت کی خواہش گرے

تو اسے اٹھانا

کبھی شام کے گھونسلے سے پرندہ فجر سے عبادت کا چوغا پہاڑوں سے

سرما کا پہلا مینہ گرے

تو اسے مت اٹھانا

کبھی آسمانوں سے حرف مناجات شاہین کی آنکھوں سے آنسو ہواؤں

سے لمبے سفر کی حکایت

غلاموں کے دامن سے آزاد صبحوں کی ساعت گرے

تو اسے مت اٹھانا

کبھی پاؤں سے حوصلہ آم کے پیڑ سے بور بچوں کی مٹھی سے لوری اور فصلوں پہ

پھیلی ہوئی دھوپ کٹ کر گرے

تو اسے مت اٹھانا

نگاہ اپنے دشمن پہ رکھنا

سفر کو امانت سمجھنا

اور اعصاب جھکنے نہ دینا

کہ سب چیزیں اپنے سے بہتر کو اپنی جگہ دے گئی ہیں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930