سحرِ سخن ۔۔۔ عطا شاد
سحر ِ سخن
عطا شاد
ابھی تو سحر سخن ہوا ہے
جو پھیلتے فاصلوں کیخوشبوسمیٹتا ہے
جو دل میں انجانی چاہتوں کی پھوار اتارے
خمار جاں بن کے میری سوچوں میں سرسرائے
ابھی تو سحرِ سخن ہوا ہے
اگر کبھی اس کے قرب کی شبنمی شفق کے گلاب پھوٹیں
اگر کبھی اس کے نرم ہونٹوں کے گرم بوسوں کی پھول بارش میں
میری ہستی پگھل رہی ہو
اگر کبھی اس کا لمس لذت طرار
وصل ِ طویل
قطرہ قطرہ
مرے رگ و پے میں نشہ بن کر نُچڑ رہا ہو
تو اس سمے آتشیں طلب کا طلسم کیا ہو
تو اس حلاوت کا اسم کیا ہو
ابھی تو سحر ِ سکن ہوا ہے
Facebook Comments Box