برہنہ نظم ۔۔۔ عذرا عباس
برہنہ نظم
عذرا عباس
جب میں برہنہ نظم لکھنے لگتی ہوں
تو اداس ہو جاتی ہوں
برہنہ نظم لکھنے والے جانتے ہیں
برہنہ حرکتیں کرنا آسان ہے
لیکن ان کو لکھنا مشکل ہے
وہ نظم جو میں لکھنے جا رہی ہوتی ہوں
وہ منتظر ہوتی ہے کہ میں اس نظم کے پیچھے جوبرہنگی ہے
اسے کب اپنے لفظوںمیں داخل کروں گی
لیکن وہ برہنگی کھولنا مشکل ہے
وہ بہت ڈھٹائی سے میری آنکھوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہےاور کہتی ہے
لکھو تو جانے
میں اسے کوستی ہوں
میری کمزوری کا مذاق اڑا رہی ہے
وہ
اور میں اس سمےکے سامنے سے پردے ہٹا رہی ہوں
اور خود سے کہہ رہی ہوں
لکھ دو
ورنہ برہنگی میں ڈھکے چھپے لفظ بھول جائیں گے
برہنگی کسے کہتےہیں
جھوٹ کو نفرت کو یااس گھمسان کوجسے
صرف موت کہتے ہیں
Facebook Comments Box