جو تم نے دیکھ ۔۔۔ بینا گوئندی
جو تم نے دیکھا
بینا گوئندی
رات کا آخری پہر
رات کا آخری پہر بھی
رخت سفر باندھ رہا ہے
میرے کمرے کی خاموشی اور تاریکی
دو بوڑھی سہیلیوں کی طرح ایک دوسرے میں گم ہیں
میں ھاتھ میں گرم چاۓ کی پیالی لیۓ
سوچ رہی ہوں کہ مجھے کیا سوچنا چاہیۓ
کیا اسے ؟
جو میرا کچھ بھی نہیں
تو پھر اسے کیا سوچنا
چلو اپنے مستقبل کے روشن خواب
آنکھوں میں زندہ کرتے ہیں
مگر ——خواب ؟
کیا ان کی تعبیر واقعی روشن ہو گی
کسے خبر ہے——
اچانک کسی مرغے کی آواز آئ
اور مجھے یوں لگا جیسے
اس نے دور سے کسی کو پکارا ہو
پکار ؟
میں نے ایسا کیوں سوچا
کیا میرے سینے میں بھی کوئ پکار دفن ہے؟
نہیں چھوڑو——
اور پھر بہت سے مرغے چلانے لگے
جیسے کسی بچھڑے ہوے کا ماتم کر رہے ہوں
آف پھر کیا خیال آیا
میں ان کی آواز کو وصل کا گیت بھی تو کہہ سکتی تھی
مجھے یہ آوازیں نوحہ کیوں لگیں
کیا میرے اندر بھی کسی سے بچھڑنے کا غم پنہاں ہے؟
نہیں تو،
مجھے کسی سے بچھڑنے کا غم کیونکر ہو؟
پھر
آواز سگ نے مجھے چونکا دیا
میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا
اندھیرا — دور تلک گھپ اندھیرا
اور اس اندھیرے کو دیکھ کر مجھے پھر کچھ یاد آگیا
اندھیرا——- اندھیرا
وہ بھی تو اپنے ماحول کو
ظلمت کہتا تھا
وہ — وہ
لیکن نہیں
مجھے اسے نہیں سوچنا
تو پھر
میں سوچ رہی ہوں مجھے کیا سوچنا چاہے؟