فرمانبردار بیوی ۔۔۔ بینا شاہ
فرماں برداربیوی
( :بینا شاہ )
اُس دن شریف دین نے اپنے گھٹنے میں عجیب سا درد محسوس کیا تو سوچنے لگا کہ اب اُس پر بھی بڑھاپا آ گیا ہے۔ اس نے پاس ہی کھانا پکانے میں مصروف اپنی بیوی سےمخاطب ہو کر کہا :
“لگتاہے اب میں پہلے جتنا جوان نہیں رہا۔”
اس کی یہ بات سُن کر بھی اس کی بیوی حسبِ سابق خاموش ہی رہی اور چولہے پر جھک کر پرانی جلی ہوئی ڈوئی کوپوری توجہ سے ابلتے ہوئے سالن میں چلانے لگی۔
اپنی بیوی کی مستقل خاموشی سے گھبرا کر شریف دین نے اپنے دل میں سوچا کہ گزشتہ چالیس برس کی ازدواجی زندگی میں اس اس عورت نے کوئی مکمل جملہ کم ہی بولا ہو گا۔ اتنے سالوں میں اس کے اندر تو الفاظ کا بڑا ذخیرہ محفوظ ہو چکا ہو گا، جیسے کسی بند کے پیچھے پانی محفوظ کرتے ہیں،جب پانی کی مقدار بڑھتی جاتی ہے تو ایک دن اچانک بند ٹوٹ جاتا ہے اور سیلاب سے سب کچھ برباد ہو جاتا ہے،ایسے ہی اچانک کسی دن اس کی بیوی کےالفاظ اور ان میں گھٹے ہوئے جذبات اور چھپے ہوئے خیالات بھی اپنا بند توڑ ڈالیں گےاور اس کے تیز بہاؤ میں وہ ڈوب کر مر جائے گا۔ اس خیال سے وہ جھرجھری سی لے کر رہ گیا۔
شریف دین ایک دیہاتی کسان تھااور اس کی بھی ساری زندگی کھیتوں میں کام کرتے ہوئے گزرگئی تھی۔ اب جب کہ وہ ساٹھ برس کا ہو چکا تھاتو اس کے سامنے چار چار جوان اور ہٹے کٹے بیٹے موجود تھے جو اس کے بعد زمینوں کا سارا کام سنبھالتے۔ یوں بھی اب اس کے آرام کے دن تھے وہ بیٹھ کر کھا سکتا تھا اور کام کاج کی ذمہ داری بیٹے اٹھا سکتے تھے۔ شریف دین کے خاندان کا شمار خوش حال خاندانوں میں ہوتاتھا۔ وہ خود کو اس لحاظ سے بھی خوش قسمت سمجھتا تھا کہ دوسرے لوگوں کی طرح اس کو کسی بیٹی کو بیاہنے کی مصیبت نہیں سہنی پڑی ۔ بیٹیوں کی شادی کرنا کسی اور سے ہار ماننے کے ہی مترادف تھا اور پھر کوئی زمین سے حصہ مانگ لے تو گویا قیامت ہے۔
شریف دین نے فرصت سے لطف لیتے ہوئے پان کا ایک بیڑہ کلّے میں دبا لیا اور اس کو چبانے میں مصروف ہو گیا،ساتھ ساتھ اپنی بیوی کو بھی دیکھ رہا تھاجو کھانا پکانے میں مگن تھی۔اب اس کی سوچ کے دھارے نے اپنا رُخ موڑا اور اس کو خیال آیا کہ اس کی بیوی کو کھانا پکانے کا ہُنر خوب آتا ہے، وہ عام سی چیزوں سے خوب مزے مزے کے کھانے پکا لیتی تھی۔ جہاں گاؤں کے عام لوگ دال روٹی پر گزارا کرتے تھےوہاں شریف دین کے گھرمیں دن میں دو دو بار کھانا پکتا تھا اور سبزی کے علاوہ گوشت کے بھی کئی کھانے پکائے جاتے تھے، گرمی کے موسم میں کھانے کے ساتھ سلاد کی جگہ آم ہوتے اور لسّی تو ضرور ہُوا کرتی۔ شریف دین کے دوست اکثراِس بات پر اُس کی قسمت پر رشک کرتے تھے اور اُس سے اصرار کر کرکے اس کے گھرمیں دعوت کا اہتمام کرواتے تھے ، ان کی یہ فرمائش شریف دین کسی مغل بادشاہ کی سی سخاوت سے قبول کر لیا کرتا جو اپنے درباریوں کو کبھی کبھی شاہی دسترخوان میں شریک کر لیتا ہو۔
شریف دین جانتا تھا کہ اس کی بیوی بہت زیادہ حسین عورت نہیں ہے اور اس بات سے اس کو کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا کیوں کہ اس کو معلوم تھا کہ ہمارے یہاں خوب صورت عورت کے ساتھ کیا کیا ہو سکتا ہے۔ اس کو اپنے کزن امان دین کا واقعہ یاد آ گیاجس کی بو ی خدیجہ انتہائی خوب صورت عورت تھی ، پورے محلّے کی نگاہیں اس کو تاڑتی تھیں خاص طور پر اللہ بخش جو ہر وقت اس تاک میں رہتا تھا کہ کب امان دین کھیتوں میں جائے اور کب اس کو خدیجہ سے ملنے کا موقع ملے۔ ایک دن امان دین کام سےواپس آ رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ خدیجہ دریا کے کنارے بیٹھی کپڑے دھو رہی ہے ا وراس دوران ہنس ہنس کر اللہ بخش سے باتیں بھی کر رہی ہے۔غصّہ تو اس کو اللہ بخش پر آیا جو خدیجہ کے لال لال ہونٹوں کے درمیان چمکتے ہوئے سفید دانتوں کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کراس کی غیرت جاگ اٹھی اورخون کھولنے لگا۔اس نے ہاتھ میں پکڑی کلہاڑی سے وار کیا تو خدیجہ ایک ہی وار میں اپنی جان سے گئی البتہ اللہ بخش نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچالی۔ امان دین کو تیرنا تو آتا نہ تھا کہ وہ اس کا پیچھا کرتا ۔ پھر اس نے خدیجہ کوایک بے نام و نشان قبر میں دفن کر دیا۔اُس دن جو امان دین نےاس قبر سے پیٹھ پھیری پھر عمر بھر وہاں کا رُخ نہ کیااور جاتے ہوئےوہ اس تازہ ابھری ہوئی زمین پر تھوکنا نہیں بھولا تھا۔یہی ہے ایک اصل مرد کا کردار۔
لیکن شریف دین کی بیوی نے کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سےاس کو شرمندگی اٹھانا پڑی ہو۔ وہ اس کا اور اس کے چار بیٹوں کا خیال رکھتی تھی، ان کےکپڑے دھوتی تھی، ان کے بڑے سے گھر کی صفائی کرتی تھی اوران کے لیےمحنت سے کھانے پکاتی تھی۔ وہ کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتی تھی۔ اس نے ایک بار بس ریڈیو منگوایا تھا اس کے علاوہ اس نے کبھی کوئی فرمائش تک نہ کی تھی۔ گاؤں کی دوسری لڑکیاں تو بہت ضدی تھیں، اب انھوں نے اسکول جانے کی بھی ضدشروع کر دی تھی، کیا ہی احمقانہ حرکت ہے،اس نے اپنے دل میں سوچا۔ اس کو یہ بات بہت انوکھی لگتی تھی کہ لڑکیاں غیروں کے سامنے باہر نکلیں،اس طرح تو ان کے ساتھ کوئی بھی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ یوں بھی جب عورتیں اپنے مردوں سے دُور جائیں گی تو خطرہ تو ہو گا ناں۔پڑھ لکھ کے آخر وہ کیا کریں گی ،اس کے بعد ان کے قدم اور آگے بڑھیں گے کیا اب وہ گاڑی بھی چلائیں گی ؟ اس خیال نے اس کو حیران کردیا، اس نے خود کلامی کرتے ہوئے اپنے منہ ہی منہ میں بُڑبُڑا کے کہا:”آدمی کو اچھی طرح اپنی عورت کو قابو میں رکھنے کا گُر آنا چاہیے، یہاں تو بھئی زندگی گزارنے کا یہی اصول ہے۔”
شریف دین کی بیوی نے چولہے کے پاس اکڑوں بیٹھے بیٹھے ایک نظر اپنے شوہر پر ڈالی جو اب اپنی چارپائی پر سیدھا ہو کر لیٹ گیا تھا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر اپنے سر کو ٹیک دے کر دُور دُور تک پھیلے ہوئے نیلے آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ شریف دین اچھا آدمی تھا،کبھی کبھارکی مار پیٹ کے علاوہ اپنی بیوی کا خیال رکھا کرتا تھا۔
کھیتوں میں کام کرنے کی مشکلات اٹھاتے ہوئے، بچوں کی پیدائش کی تکلیفیں سہتے ہوئے، چار شریر لڑکوں کو پالتے ہوئے وہ بھی اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ ان مَردوں کے ساتھ سکون سے جینے کا کیا طریقہ ہے ۔ جی ہاں! خاموش رہنا، نظریں جھکائے رکھنا ، اپنی آواز کو یوں دبا لینا کہ کسی کے کانوں تک پہنچ ہی نہ پائے ،جب وقت بے وقت کوئی فرمائش کرے تو اس سے بھی انکار نہ کرنا، چاہے کوئی کچھ بھی کہہ دے اس کو کوئی جواب نہ دینا ،کسی بھی کام سے کسی بھی وقت “نہ” نہ کرنا ۔۔۔ بس یہی راز ہے۔
ایک اور راز بھی ہے جو اُس نےآج تک کبھی کسی پر ظاہر نہیں کیا وہ یہ کہ اس نے خود ایک قسم کا عطر اور عرق ِگلاب تیار کیا تھا جووہ کھانا پکاتے ہوئے ہر کھانے میں روزانہ ڈالا کرتی تھی ۔اس کا اعتقاد تھا کہ اس سے میاں بیوی میں محبت بڑھتی ہے، محبت نہ سہی کم از کم ان میں ایسا لگاؤ ضرور پیدا ہو جاتا ہے جو جوانی اور حسن کا محتاج نہیں۔
باورچی خانے میں جہاں وہ کھانا پکاتی اورسارے مصالحےا سنبھالتی تھی،یہاں وہ کبھی کبھی کچھ ریز گاری بھی رکھتی تھی اوروہیں اس کی آٹھ سال کی عمر میں فوت ہو جانے والی بیٹی کی ننھی سی تصویر بھی ٹکی ہوئی تھی ،یہیں کہیں اس نے چھوٹی سی گٹھڑی کی صورت میں زہریلا “تاج الملوک” بھی چھپا رکھا تھا۔ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ جس دن شریف دین برداشت سے باہرہو جائے گا اس نے کیا کرنا ہے ،کام آسان سا ہے وہ ہانڈی پکاتے ہوئےعرق ِگلاب کی جگہ زہریلے تاج الملوک کی تھوڑی سی مقدار ڈال دے گی۔ پھر جب اس کے بیٹے اور گاؤں والے شریف دین کی لاش پائیں گے تو وہ اپنے کندھے اچکائے گی اور کہے گی کہ “اب وہ پہلے جتنا جوان بھی تونہیں رہا تھا۔” پھر سب لوگ اُس کی اِس بات سے اتفاق کرتے ہوئے سر ہلائیں گے کہ ہاں واقعی زندگی تو بڑی ہی سفاک چیز ہے۔