فیض کا ایک خط ۔۔۔ فیض احمد فیض

Faiz Ahmad Faiz, was a Pakistani leftist poet and author, and one of the most celebrated writers of the Urdu language. Among other accolades, Faiz was nominated for Nobel Prize in Literature and won the Lenin Peace Prize.

ایلس کے نام :

حیدر آباد جیل

24 جون 1951

16 تاریخ کا لکھا ہوا تمہارا پہلا خط ملا۔ بہت خوشی ہوئی۔ مجھے تعجب ہے کہ تمہیں میرا خط اب تک نہیں ملا۔ یہ خط 9 یا 10 تاریخ کو سنسر ہو جانا چاھئے تھا۔ جب کبھی یہ خط ملے مجھے تاریخ سے مطلع کر دینا تا کہ ہم یہاں کسی سے خون خرابہ کر سکیں۔ انشورنس وغیرہ کے کاغذات تمہیں رجسڑی کر دئے تھے اور اب تک پہنچ جانے چاھیئں۔

یہ سن کر اطمینان ہوا کہ تم اور بچے اچھی طرح ہو۔ اور اس مصیبت نے تم لوگوں کو دل برداشتہ نہیں کیا۔ مجھے تم لوگوں پر ناز کرنے کے لئے رہائی کے دن تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ناز تو مجھے اب بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جدائی کے دکھ کے علاوہ دل میں کسی اور پریشانی کا وجود نہیں۔ انسانی ذہن بھی عجیب چیز ہے ۔ گزشتہ تین ماہ سے خیال ہر وقت اس مقدمے میں الجھا رہتا تھا لیکن اب جو مقدمہ شروع ہوا ہے تو اس کی کاروائی میں ذرا سی بھی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔ میں بار بار دل کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ معاملہ بہت سنگین ہے اور اسکے بارے میں بہت سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے لیکن دل پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بہت ہی مُہمل اور بے حقیقت ناٹک کھیلا جا رہا ہے جو ایک دن ایسے ہی اچانک اور بے وجہ ختم ہو جائے گا جیسے کہ شروع ہوا تھا۔ میری گرفتاری اور اسیری کی طرح اس کا بھی نہ کوئی سبب ہے نہ جواز۔

ویسے میں با لکل صحت مند اور خوش ہوں البتہ پڑھنا لکھنا یا کام کرنا ذرا مشکل ہوتا جا رہا ہے اسلئے کہ ہمارے ساتھی ہر وقت ہنسی مذاق اور غل غپاڑے سے آسمان سر پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ جیسے میں نے پہلے شاید لکھا تھا یہاں بہت سے اچھے لظیفے سننے میں آئے جو کبھی ملیں گے تو سنایئں گے۔ لیکن ایک ہمارے مرکزی وزیر صاحب کا لطیفہ سن لو۔ حکایت  ہے کہ کسی تقریب میں ہمارے کچھ مذہبی قسم کے وزیر صاحب کے قریب ایک مسلمان لڑکی فراک پہنے بیٹھی تھی۔ وزیر صاحب نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے کسی صاحب سے کہا، ” دیکھو ہماری لڑکیاں ایسی بے حیا ہوتی جا رہی ہیں کہ اپنے اعضائے نہانی کا ستر ڈھاپنے کا بھی خیال نہیں کرتیں۔” ان صاحب نے کہا، ” یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، بے چاری نے گھٹنوں سے نیچے تک تو فراک پہن رکھی ہے۔” وزیر صاحب نے فرمایا، ” اس سے کیا ہوتا ہے۔ مسلمان لڑکی کے اعضائے نہانی اس کے ٹخنوں تک پہنچتے ہیں۔”

دوسرے لطیفے بد قسمتی سے ایسے خط میں نہیں لکھے جا سکتے جو بہت ہاتھوں سے گزرتا ہے۔

موسم اب گرم ہو چلا ہے لیکن ہوا چلتی رہتی ہے اس لئے کچھ ایسا نا خوشگوار بھی نہین۔ البتہ اس کا رنج ہے کہ اب کے اپنے محبوب شہر لاہور کے بادل نظر نہیں آیئں گے اور نہ بارش کے بعد مہکتا اور مسکراتا ہوا سبزہ دکھائی دے گا۔ خیر۔ کبھی نہ کبھی۔

ہمارا مقدمہ تو غالبا بہت دن چلے گا اس لئے میرا خیال ہے کہ تم لوگ جولائی کے آواخر تک آ سکو تو آ جاو۔ اس وقت تک موسم کچھ معتدل ہو جائے گا اور سفر زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوگا۔ بہر صورت اپنی سہولت اور اپنی گرہ میں مال دیکھو، بے وجہ زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے یہاں کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ انسپکٹر جنرل قید خانہ جات لاہور کو ٹیلی فون کر کے پوچھ لو کہ شاہی قیدی کی حیثیت میں اگر ہمارے الاوئنس کا کچھ پیسہ بچا ہو تو تمہیں بھجوا دیں۔

فیض

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930