ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے ۔۔۔ فیض احمد فیض
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
(فیض احمد فیض)
ہم بیگناہ ہیں
امریکا کا کمیونسٹ جوڑا، جولیس روزنبرگ اور ایتھل روزنبرگ، کو جب سزائے موت دی جانے لگی تو ان دنوں میاں بیوی کے آخری بیانات ان کی موت کی طرح تاریخی تھے: ایتھل روزنبرگ نے کہا ”ہم امریکی فسطائیت کا پہلا شکار ہیں۔“ جولیس روزنبرگ نے کہا ہم بے گناہ ہیں اور یہ پورا سچ ہے زندگی کے انمول تحفے کی قیمت اس سچ سے پھر جانا ہے اس طرح ہم زندگی تو خرید لیں گے لیکن اسے با عزت انداز سے گزار نہیں پائیں گے۔
جولیس اور ایتھل روزنبرگ کی عمر تب بالترتیب 35 اور 37 برس تھیں انہیں انکی شادی کی چودھویں سالگرہ کے موقع پر بجلی کے جھٹکے دے کر سزاۓ موت دی گئی۔ امریکہ کا ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے امریکی ایٹمی راز چوری کرکے سویت یونین کو دیئے، وہ ایٹمی راز جو خود امریکہ نے جرمن نازی سائندانوں سے حاصل کیے تھے۔ یہ امریکی تاریخ میں کسی سویلین کو جاسوسی کے الزام میں دی جانیوالی پہلی سزائے موت تھی۔ جولیس اور ایتھل روزنبرگ کا مقدمہ اتنا جھوٹا اور سزا اتنی ظالمانہ تھی کہ تمام دنیا چیخ اٹھی تھی۔
اس وقت کا پاپاۓ روم جو کٹر کمیونسٹ مخالف تھا، آئنسٹائن اور دنیا بھر سے ہزاروں ، لاکھوں افراد نے اس سزا کی سخت مخالفت کی۔
لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ کو “سرخ بھوت” کا اتنا خوف تھا کہ اسنے کسی کی نا سنی حتی کہ انکے دو چھوٹے بچوں تک کی رحم کی اپیل مسترد کردی گئی جنکی عمر ماں باپ سے بچھڑنے کی نہیں تھی۔
جولیس اور ایتھل روزنبرگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
Bottom of Form
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خُشک ٹہنی پے وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سُولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھُلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے لائے جہان تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپنا غم تھا گواہی تیرے حُسن کی
دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہِجر کی قتل گاہوں سے سب جا مِلے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عُشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جِن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے