دیمک ۔۔۔ فرحین چودھری
دیمک
فرحین چودھری
”آں۔۔اوں۔۔آں“ اس نے منہ پھاڑ کر جما ہی لیتے ہوئے حلق سے عجیب سی غیر انسانی آواز برآمد کی، جسے سن کر چند قدم دُور لیٹے ہوئے ڈبو نے تھوتھنی اُٹھا کر ناگواری سے ہلکا سا ”بھوؤں“ کیا اور پھر پنجوں پر سر رکھ کر اونگھنے لگا۔ زینو نے جھلنگا چارپائی کی ادوائن میں پھنسی اپنی ٹانگوں کو جھنجھلا کو کھینچ کر باہر نکالتے ہوئے کتے کی اس حرکت پر اس کا ناجائز رشتہ اس کی ماں بہن سے جوڑ کر(جو کہ کتوں میں جائز ہی ہوتا ہے)زمین پر تھوک دیا۔
گندے بڑھے ہوئے ناخنوں والے سانولے گدرائے پیروں میں ٹوٹی چپل گھسیٹتے ہوئے اس نے زمین و آسمان کے درمیان موجود تمام مخلوقات کو مغلظات کی ایک لمبی فہرست سے نوازا۔ جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی رضائی کو ڈھیر بنا کر چارپائی پر رکھا اور ٹیڑھا ٹیڑھا چلتی ہوئی ڈبو کے پاس آئی کہ اس کا ایک پاؤں پچھلے کئی مہینوں سے رِستے زخم کے باعث درد کر رہا تھا۔ جانے کوئی کانٹا تھا یا کانچ، نہ زینو نے پروا کی نہ اوپر والے نے، کبھی دوا ملی تو لگا لی، ورنہ نہ پانی بہا کر زخم کا منہ صاف کر دیا سو وہ زخم بھی کئی دوسرے زخموں سمیت اب اس کے وجود کا حصہ بن چکا تھا اب۔۔
ڈبو نے زینو کے خطرناک تیور دیکھ کر سر اُٹھائے بغیر ہی اُسے سونگھنے کی کوشش کی مگر زینو کی ایک زور دار لات نے اسے وہاں سے ”چیاؤں چیاؤں“ کرتے ہوئے اُٹھنے پر مجبور کر دیا۔ زیادہ دُور جانا ڈبو کے اُصول کے خلاف تھا سو وہ تھوڑی دُور جا کر پھر تھوتھنی پنجوں پر جما کر بیٹھ گیا۔ ہلکی سی ناراض سی ”بھوؤں بھوؤں“ کے بعد اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
زینو بکتی جھکتی اپنا لحاف اُٹھائے جھونپڑی میں گھس گئی۔ جھونپڑی کیا تھی۔ ٹین کی دو زنگ خوردہ مٹیالی سی چادریں، جن کے وجود پر سینکڑوں آنکھیں اُگ آئی تھیں۔ اینٹوں کی اک ملبہ نما دیوار کا سہارا لیے تھکی ہاری جھکی کھڑی تھیں کہ ان پر پھٹی پرانی کئی ترپالوں، بوریوں ااور گھاس پھونس کا ناکارہ سا بوجھ لدا ہوا تھا۔
شہر سے چند کلو میٹر باہر ٹرک ہوٹلوں، پنکچر کی دکانوں اور ورکشاپوں کے قریب بنی یہ جھونپڑی زینو کو اس لئے پسند آ گئی کہ یہاں اس کے ماضی سے کوئی واقف نہ تھا ویسے تو جھونپڑی کب کیوں کس نے بنائی تھی۔ مکان و مکیں دونوں بے نام و نشان تھے سو زینو اور جھونپڑی کی نبھنے لگی۔
زینو کے آنے سے قبل سڑک بنانے والے مزدور، چائے اور کھانے کے کھوکھوں اور ورکشاپوں پر کام کرنے لڑکے وقتاً فوقتاً جھونپڑی کو استعمال کرتے بوڑھے کے کُب میں اضافہ یا کمی کرتے اور چلے جاتے۔
اب تک شاید دنیا کی یہ واحد نو مین لینڈ تھی جو فی الحال شراکت اور ملکیت کے جھگڑے سے پاک تھی لیکن جب سے زینو نے اس پر قبضہ کیا تھا قرب و جوار کے مزدوروں کو یقین ہو چلا تھا کہ اب یہ جھونپڑی ان کے ہاتھ سے گئی۔
پہلے پہل تو کچھ جی داروں نے اس غاصبانہ عمل کی مذمت زبانی اور عملی طور پر کرنا چاہی کہ یہ ان کے ازلی حقِ ملکیت برائے زن و زمین پر براہِ راست حملہ تھا لیکن زینو اور ڈبُّو کے سامنے زیادہ دیر ٹِکنا کچھ اتنا آسان بھی نہ تھا۔ کیوں کہ دونوں کے بھونکنے کا عمل خاصا متواتر اور مہلک تھا۔ سو جیالوں کی بھیڑ چھٹتی گئی اور زینو کو بے دخل کرنے کا جوش و خروش، ندامت اور پھر کھسیانی ہنسی مذاق میں بدلنے لگے۔
اب زینو اور ڈبُّو اس علاقے کا حصہ بن چکے تھے۔ ویسا ہی بد رنگ، بدہیئت اور اُجڑا پجڑا۔
زینو سویرے سویرے اُٹھ کر کھوکھے والے فیقے کے پاس آ کر زمین پر ڈبُّو سمیت بیٹھ جاتی۔ چائے کا ایک مگ اور دو کلچے اس کی حاجت ہوتے۔ ایک کلچہ وہ ڈبو کو کھلا دیتی اور دوسرا خود چائے میں ڈبو ڈبو کر کھاتی۔ فیقا رات کی بچی کھچی ہڈیاں بھی از راہِ کرم ڈبُّو کر ڈال دیتا۔
زینو سے فیقے نے کھانے پینے کی قیمت کبھی نہ مانگی تھی۔ ایک تو گالیوں کا ڈر، دوسرے ویسے بھی فیقے کے اپنے حساب سے قیمت وصول ہو ہی جاتی تھی۔
شہر سے دور خالصتاًمردانہ ماحول میں میلی کچیلی زینو کا وجود غنیمت تھا۔ نیم برہنہ لباس سے جھانکتے گول شانے، سڈول سانولی پنڈلیاں لمبے اُلجھے بال اور اتھل پتھل ہوتا بدن۔ فیقے کے جسم کے کسی گوشے میں لذّت آمیز سنسناہٹ اور پھر ذاتی تفریح کا باعث بن جاتا۔ ویسے بھی زینو کی موجودگی میں مزدوروں کی آمد اور فیقے کی بِکری میں اچانک ہی اضافہ ہو جاتا سو فیقے کے لئے یہ سودا منافع بخش ہی تھا۔ یوں بھی زینو اپنی دوا سے بچی کھچی رقم بغیر گنے ہی چائے کی پیالی میں اُلٹ آتی تھی۔ فیقے کا حساب کتاب سدا نفع کے کھاتے میں رہتا۔
مگر زینو کی عمر اور جوانی نقصان کے کھاتے میں لکھی گئی تھی چونکہ نقصان صرف زینو کا ہوا تھا اس لیے کیوں ہوا تھا؟ کیسے ہوا تھا؟ یہ جاننے کی کسی کو ضرورت نہ تھی۔
زینو جھونپڑی کے اندر لیٹی رات گئے تک اکثر اپنی زندگی کا رجسٹر کھولے جمع نفی کا حساب کرتی رہتی۔ تیرہ سال کی عمر میں چالیس سالہ رنڈوے سے شادی۔ پہلی نفی تین بچوں کی یکے بعد دیگرے پیدائش و اموات۔۔۔دوسری نفی اندھی بیوہ ماں کا گاڑی تلے آ کر کچلے جاتا۔ تیسری نفی اور پھر جانے کتنی ہی خوشیوں اور مسکراہٹوں کی نفی۔ دکھوں اور آہوں کی جمع کے بعد طلاق والی نفی۔
اس کے بعد تو زینو کی زندگی کے کھاتے میں جمع نفی کی عجیب سی گڑ بڑ رہنے لگی۔ مختلف گھروں میں کام کاج کرتے کرتے اچھی اُترن پہننے کو ملنے لگی۔ ڈھنگ کا کھانا پیٹ میں آنے لگا تو جسم کا گداز بڑھ سا گیا۔ پرکشش نقوش اور کمر تک لمبے بالوں کی چٹیا کے باعث مالکنوں کے بابوں، بیٹوں اور خاوندوں کی عنایات کو وہ جمع کرتی یا نفی، ہمیشہ اسی اُلجھن میں پڑی رہی۔ جسمانی آسودگی کے ساتھ ساتھ مالی آسودگی۔ زینو کو یہ سب اچھا لگنے لگا۔ یوں جمع کا پلہ بھاری رہنے لگا۔ مگر جب عقابی نگاہوں والی عورتوں نے اُچھلتے بل کھاتے بدن کا جادو سر چڑھ کر بولتے دیکھا تو اپنے ڈھیلے ڈھالے جسموں کو سمیٹ کو گھروں کے دروازے زینو پر بند کر دیئے۔ زینو کے کھاتے میں پھر نفی کا تناسب بڑھنے لگا اور زینو نفی سے ڈرتی تھی۔ سو اس نے براہ راست دکانداری شروع کر دی۔ نئے سرے سے صدیوں پرانا کھاتا کھول دیا۔ یہ کھاتہ خالصتاً اس کا اپنا تھا۔ اپنا مال اپنی اجارہ داری، ملکیت اور حساب کتاب کے جھگڑے سے پاک۔ مرضی سے اپنا گاہک چنتی کہ اس کی آنکھوں میں اب بھی مستی بھری دعوت مچلتی تھی اور سانولا بدن زندہ مچھلی کی طرح بھلواں اور حرارت سے بھر پور تھا۔
آسانیاں، آسودگیاں، زندگی سے ماضی اور محرومیوں کی پھر نفی کرنے لگیں، مگر یہ پرانے کھاتے۔ کسی نہ کسی حساب میں پھر کھلنے لگتے۔
شاید کوئی پرانا گاہک، لذت کے ساتھ ساتھ کسی لمحے بیماری بھی جمع کر گیا تھا اس کے بدن میں، جو کہیں کسی گوشہ میں پھلتی پھولتی رہی اور زینو کی توانائیوں کی نفی کرتی رہی اندر ہی اندر۔۔۔
وہ تڑپ اُٹھی۔ ایسا زیاں ایسا نقصان اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اب تو۔ ابھی تو آسودگیوں کے نئے در کھلنے تھے۔ انتیس، تیس سال کی زینو کو یقین ہی نہ آ رہا تھا کہ اسے گھن لگ چکا ہے، دیمک اسے چاٹ رہی ہے لمحہ بہ لمحہ۔
کئی دن وہ منہ لپیٹے پڑی رہی، مگر دکانداری میں تو اپنا فائدہ ہی دیکھا جاتا ہے۔ سو وہ پھر نئی جگہ پر نئے بورڈ کے ساتھ دکان کھول کے بیٹھ گئی اور بے خبر گاہکوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگی۔ شاید ہر کھوٹے مال والا زندگی کے بازار میں ہی( ) کرتا ہے اور زینو جیسی عورت کے لیے تو بہت سے جواز بھی تھے۔ اپنے کھوٹے مال کو چمکا لشکا کر پیش کرنے کے۔۔۔مگر کب تک؟
کچھ باخبر گاہک آ بھی گئے۔ بے خبروں کو محتاط کرنے کے لیے زینو کو دکان پھر بڑھانا پڑی۔ اب وہ جلدی جلدی ٹھکانے بدلنے لگی۔ فٹ پاتھ، بس سٹاپ، ریلوے سٹیشن کوئی نہ کوئی تنہا شکار ہتھے چڑھ ہی جاتا۔ زینو کو جلدی تھی۔ وقت کی آندھی بہت تیزی سے اس کا سب کچھ اُڑانے پر تل چکی تھی۔
کچھ عرصہ بوڑھے مزدوروں، سال خوردہ تانگے بانوں اور گھن لگے ریڑھی والوں نے اس کا بھر پور ساتھ دیا۔۔۔مگر کھوکھلے بدن کے ساتھ زندگی میں کہیں کہیں جمع کا نشان لگانے کی کوشش بھی کی مگر حاصل نفی ہی رہا۔
زینو وقت سے پہلے ہی عمر اور بیماری کا کھاتہ اپنے وجود پر لادے کچھ عرصہ گلیوں میں بھیک بھی مانگتی رہی۔ وحشت سے جلتی آنکھیں اور ناآسودگی کی لُو میں پھنکتا بدن کچھ منچلوں کو اپنی جانب بلاتا بھی تھا، لیکن زینو کا ماضی کہیں نہ کہیں سے سانپ کی طرح سر اُٹھا کر پھنکارتا اور انھیں ڈرا دیتا۔
زینو کی وحشت سو ہو جاتی۔ کوئی مشین سالہا سال کھٹ کھٹا چلتے چلتے اچانک بند ہو جائے تو پرزوں کو بھی شاید یک لخت رُک جانے سے شاک لگتا ہے۔ تبھی تو ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ زنگ لگ جاتا ہے اور زینو تو جیسی جیتی جاگتی مشین تھی۔ محرومی کی دھوپ میں چٹختے بدن کو چاٹتا گھن، اسے ہر لمحہ زنگ آلود کر رہا تھا۔ جذبوں کی حرارت کبھی کبھی آگ برساتی۔ اس کا جی چاہتا وہ ساری دنیا کو اس آگ میں اپنے ساتھ جلا دے مگر شاید اب اس آگ کی کسی کو ضرورت نہ تھی۔ زینو کے منہ سے نکلتی چنگاریاں ہر آنے جانے والے کا دامن جلانے لگیں۔ لوگ پاگل سمجھ کر فاصلہ بڑھا دیتے اور زینو واقعی پاگل ہونے لگتی۔
دو چار بار پولیس اور چند اوباشوں کے ہاتھوں ٹھکائی کے بعد زینو نے شہر سے دُور ٹھکانے کا سوچا۔ اسے انسانوں کے جنگل میں پھرتے آدم کے بیٹوں سے نفرت ہونے لگی تھی جنھوں نے اس کے بدن سے زندگی کی تمام خوشیاں کشید کر کے اس کی نفی کرنے کے بعد ایک چھیچھڑے کی مانند پھینک دیا تھا۔ تنہائی اور اکلاپے کے جہنم میں جلتے جلتے اب راتوں کو اکثر تین ننھے منے وجود سسکتے ہمکتے اس کا گھیراؤ کر لیتے۔ وہ جو اس کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد شاید اس لیے دنیا سے رُوٹھ گئے کہ یہ دنیا، ان کی ماں کی کوکھ کو گھن لگا کر جلد ہی اسے ٹھکرانے والی تھی۔
ایسی کالی راتوں میں زینو کو کوکھ کے بین سنائی دینے لگتے۔ شاید بچھڑے بچوں کی یاد میں؟ کبھی کبھی کوئی ٹیس اٹھتی تو لگتا کوکھ بددعائیں دے رہی ہے۔ انھیں جو اسے روگی بنا گئے،۔۔مگر کون۔۔؟ کتنے؟ کوئی ایک؟ چند؟ یا سارے ہی؟؟
زینو کو نہ نام یاد آتے نہ چہرے کہ اس کے کاروبار میں نام اور چہروں کی اہمیت نہ تھی۔ صبح تڑکے اٹھ کر جھونپڑی کے باہر ڈبو کو ٹھڈے مار کر، گالیاں دے کر اپنی بھڑاس نکالتی۔ ڈبو بھی کچھ ایسا ڈھیٹ تھا کہ اتنی ذلت کے باوجود محض چیاؤں کر کے چند قدم دُور جا بیٹھتا اور تھوتنی اگلے پنجوں پر ٹکا کر زینو کو تکنے لگتا۔ جب زینو بک جھک کر نڈھال سی اپنی جھلنگا چارپائی پر بیٹھ جاتی تو ڈبو مرے مرے قدموں سے اس کے پاس آ جاتا اور دُم ہلانے لگتا۔ زینو خالی خالی نظروں سے کئی لمحے اسے گھورتے رہنے کے بعد زیرِ لب کہتی ”مرن جوگیا“ اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگتی۔ اس کی آنکھوں میں اب آنسو بہت کم آتے تھے۔ شاید سبھی سوتے خشک ہونے لگے تھے۔
اس دن بھی زینو فیقے کے کھوکھے کے پاس جا کر حسبِ معمول بیٹھی تو سہی، چائے بھی پی، کلچے بھی لیے۔ ایک خود کھایا ایک ڈبو کو کھلایا مگر خلافِ معمول وہاں سے اُٹھی نہیں۔ جانے کس سوچ میں گم بیٹھی زمین کریدتی رہی۔ ڈبو بھی تھوتھنی اگلے پنجون پر رکھے اپنی مالکن کے قریب بیٹھا رہا۔ البتہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اور آنے جانے والوں پر ہلکی سے بھوؤں ضرور کرتا۔ فیقا خوش تھا کہ آج کھوکھے پر رونق بہت تھی۔ ننگی دزدیدہ چھچھلتی اچھلتی نظریں زینو کے وجود سے لپٹتیں۔ معنی خیز سرگوشیاں، فحش فقرے اُبھرتے۔ دوسروں کی زبانی اپنے دل کی بات سن کر رفیق ڈرتے ڈرتے زینو کا ردِ عمل دیکھتا۔ رش ذرا ختم ہوا تو وہ ادھر ادھر جھانکتا زینو کے پاس آن کھڑا ہوا۔
”خیر تو ہے نا آج!“ میرا مطلب ہے، بات بُدبُدا کر اس کے منہ سے نکلی۔ زینو نے وحشت بھری آنکھوں سے اسے دیکھا اور لب بھینچ کر سختی سے بولی؛
”تجھے تکلیف ہے کوئی“
فیقا گڑبڑا کر اچانک ہی پلٹتے ہوئے بولا ”نہیں! یونہی پوچھ رہا تھا“ غنیمت تھا کہ زینو کا جملہ گو کڑوا مگر اکیلا تھا،کوئی غلیظ گالی ساتھ نہ تھی۔
تبھی ایک ٹرک آن رُکا۔ سامان سے لدا پھدا دو تین آدمی کود کر نیچے اُترے۔ فیقا یوں تپاک سے ملا جیسے برسوں سے جانتا ہو۔ اونچے اونچے قہقہے تھوڑی دیر بعد معنی خیز مسکراہٹوں کا روپ دھار گئے۔ جانے زینو کو کیوں شک ہونے لگا کہ وہ اسی کا ذکر کر رہے ہیں۔ فیقا چور نظروں سے زینو کو دیکھ کر کچھ کہہ رہا تھا۔ دو آدمی واپس ٹرک کی جانب بڑھے انھوں نے ایک بوری نیچے لڑھکائی۔ کھوکھے کے باہر بچھی چارپائیوں میں سے ایک پر اسے رکھ کر کھولا۔ فیقے نے اس سامان میں سے کچھ کپڑے ایک چادر اور ایک کمبل نووارد لڑکے کو پکڑایا اور زینو کی جانب بڑھا۔ زینو ابھی تک اس سارے منظر کو بس یونہی دیکھ رہی تھی مگر منظر کا حصہ بنتے ہی اس نے سنا۔ فیقا کہہ رہا تھا؛
”زینو یہ امدادی سامان اوپر پہاڑی علاقوں کی طرف جا رہا ہے تُو بھی ضرورت مند ہے رکھ لے“
زینو تڑ سے شاید اسے پھر کوئی جواب دینے ہی لگی تھی کہ فیقے کی آنکھوں میں پھیلا شرمندگی کا خوف اور نووارد لڑکے کے چہرے کی حیرت نے کچھ کہا یا پھر کمبل اور کپڑوں کے نظر میں کھبتے رنگ اور نئے پن کی خوشبو نے کوئی سحر پھونکا۔ زینو کی زبان رُک سی گئی۔
زینو نے لڑکے کے چہرے پر مونچھوں اور داڑھی کی تازہ فصل کو دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر تمام چیزیں آغوش میں بھر لیں۔
مدتوں بعد نرم و ملائم کمبل اور شل شل کرتے نئے نکور کپڑے بدن سے مس ہوئے تو جانے کون کون سی حِسّیں بیدار ہوئیں اور کون کون سے جذبوں نے آنکھ کھولی۔ حیرت زدہ فیقے نے زینو کی وحشت زدہ آنکھوں میں ایک پل کو وہ شرارہ لپکتے دیکھا جس کی حدت تاروں جیسی ٹھنڈی تھی۔ صرف ایک پل کو۔
زینو نے تمام چیزیں سمیٹیں اور کچھ کہے بغیر اٹھ کر اپنی جھونپڑی کی جانب چل دی۔ پیچھے پیچھے ڈبو بھی دُم ہلاتا روانہ ہو گیا۔ فیقے نے اس کے گول شانوں اور سڈول پنڈلیوں کو دیکھ کر ایک گہری سانس لیتے ہوئے نووارد کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی حیرتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا؛
”پتہ نہیں کہاں سے آئی ہے۔ زیادہ متھا نہ لگانا اسے ظہورے۔ تھوڑی میٹر ہے، جو مانگے بغیر پیسوں کے دے دیا کرنا“
ظہورے نے ایک نظر اور جاتی زینو پر ڈالی جس کے نیم برہنہ جسم کا اُچھال پہاڑوں سے آئے لڑکے کو منہ زور ندیوں کا سالگا۔ اس کا بدن اینٹھنے لگا اور گال تپنے لگے۔
زینو دو تین دن کپڑے اپنی جھونپڑی میں رکھے کبھی اندر اور کبھی باہر سوچوں میں گم گھومتی رہی۔ فیقا لڑکوں کے ہاتھوں چائے کا مگ، کلچے اور کھانا بھجواتا رہا۔ مگر زینو نے چائے کے سوا کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا۔
”استاد! یہ عورت تو مر جائے گی ایسے۔ تین دن میں تین نوالے بھی نہیں لیے اس نے“ ظہور جانے کس جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر بول پڑا۔
فیقے نے ایک نظر جھونپڑی کے پاس بیٹھی زینو کو دیکھا۔ ظہور کے من کے چور کو پکڑنے کی کوشش میں اپنے دل پر پڑے بھاری پتھر کو لکڑی کے ساتھ تنور میں دھکیلتے ہوئے بولا ”چھوڑ پرے! کون دماغ خراب کرے، بخیے ادھیڑ کر رکھ دے گی، نہیں مرے گی“
یہ اور بات کہ اسے اچانک ہی زینو کی سڈول پنڈلیاں یاد آنے لگی تھیں نظر سینکنے کا اچھا خاصا بہانہ تھا مفت میں۔ فیقے نے رات گئے جا کر زینو سے حال چال پوچھنے کا ڈانواں ڈول سا ارادہ باندھا، مگر اس کی نوبت ہی نہ آئی۔ رات زینو خود ہی ڈبو کے ساتھ نڈھال سی فیقے کے کھوکھے پر آن کر بیٹھ گئی۔ فیقے سے پہلے ظہور اُس کے پاس پہنچ گیا۔
زینو کچھ زیادہ ہی اُداس لگ رہی تھی۔ سوجی آنکھیں، گالوں پر جمے آنسو، ظہور نے اٹکتے اٹکتے پوچھا ”کھانا کھائے گی؟“
زینو نے اپنی سلگتی آنکھیں ظہور کے متجسس چہرے پر چند لمحے جمائے رکھنے کے بعد اثبات میں سر ہلا دیا۔
فیقا بڑھتے ہوئے رَش کو سنبھالنے میں مصروف ہو گیا۔ زینو جانے لگی تو ظہور بلا ارادہ ہی کہہ بیٹھا ”یہ پھٹے پرانے کپڑے پھینک بھی دے اب۔ وہ نئے کپڑے پہن لے نا“ زینو اُٹھتے اُٹھتے رُک سی گئی۔ زمین و آسمان کے درمیان کچھ اَٹک سا گیا۔ اس کی وحشت زدہ نظروں میں جانے کیا تھا کہ ظہور لرز گیا۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے برتن اٹھائے اور سر جھکا کر ہوٹل کے پچھلے حصے میں غائب ہو گیا اور جب تک زینو جھونپڑی کے اندر نہ چلی گئی۔ ظہور ہوٹل سے باہر نہ آیا۔
ساری کتھا سن کر فیقا اس پر خوب بگڑا۔
”تو ماما لگتا ہے اس کا۔ بس دے دیے کپڑے۔ پہنے یا آگ لگائے، تجھے کیا؟ شکر کر تیری ماں بہن کو بخش دیا ہے اس نے۔ اپنے مشورے آئندہ اپنے پاس رکھنا“
مگر ظہور پھر بھی دل کی بات زبان پر لائے بغیر نہ رہ سکا۔
”نئے کپڑے ضائع کرنے ہیں کیا؟ پہن کر اچھی خاصی لگے گی۔ خود بھی“
فیقے نے کڑی نظر سے ظہور کے جملے کو تولا؛ ”اوئے تو نے کہاں سے دیکھ لی ہے اس کی اچھائی دو دن میں؟“
یہ کہتے کہتے فیقے کی نظروں کے سامنے پھٹے کپڑوں سے جھانکتی زینو کی ساری اچھائیاں اُبھرنے لگیں۔
ظہور کے کانوں کی لویں تپنے لگیں۔ وہ گھبرا کو بولا ”میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا، مجھے کیا؟؟ فیقا اپنے جسم کے تناؤ کو کم کرنے کے لیے تن کر بولا؛ ”جا پھر اس کی فکر چھوڑ اور کام کی فکر کر“
اگلا دن حیرت کدہ تھا۔ صبح سویرے ہی زینو آن دھمکی۔ ایک عدد پانی بھری بالٹی اور صابن کی فرمائش کے ساتھ۔ فیقے کا منہ حیرت سے کھلا اور پھر بند ہو گیا۔ ہوٹل کی پچھلی جانب جا کر اس نے ظہور کو عجیب نظروں سے دیکھا اور بولا ”وہ آئی ہے، تیری اماں، تیرے مشورے پر میرا کباڑہ کرنے۔ پانی اور صابن مانگ رہی ہے“
ظہور نے اپنے رنگ بدلتے چہرے پر پانی کا چھینٹا مارا اور چند لمحے کی خاموشی کے بعد پوچھا؛
”کیوں؟“
ظہور کے بظاہر پُرسکون ردِ عمل نے فیقے کے تن بدن میں آگ لگا دی، جل کر بولا؛
”ڈوب مرنے کو“
پھر جاتے جاتے کہنے لگا ”جا اب اس کے اشنان کے لیے فرمائش پوری کر اس کی۔ ہونہوں، کپڑے پہنانے چلا ہے ماں کو!“
پورا دن جھونپڑی میں کھڑپڑ تو ہوتی رہی مگر زینو نظر نہ آئی۔ فیقا اور ظہور ایک دوسرے سے نظریں بچا بچا کر وقفے وقفے سے اُدھر دیکھتے رہتے۔ مگر ٹاٹ کا پردہ ساکت تھا۔ کوئی گہرا راز چھپائے۔
زینو ابھی تک اندر کیوں ہے؟ کیا کر رہی ہے؟ باہر کیوں نہیں آئی آج؟ اس نے نہا کر کپڑے بدلے یا نہیں؟
یہ سوال فیقے اور ظہور کے ذہن میں کلبلا رہے تھے بار بار، مگر بولنے یا جھونپڑی تک جانے کی ہمت دونوں میں نہ تھی۔ رات گئے ٹریفک کا شور کم ہونے کے ساتھ ساتھ کھوکھے کی رونق بھی ماند پڑ گئی تو فیقے کے ذہن میں نئے فتنے نے سر اُٹھایا ”کہیں ایسا تو نہیں کہ زینو نہا دھو کر پچھلی طرف سے کسی کے ساتھ۔۔۔؟“
”نہیں نہیں“ فیقے کی مردانگی نے اپنے شک کو خود ہی رَد کر دیا۔ ویسے بھی زینو مرد تو کیا مرد کے سائے کو بھی دیکھ کر دور ہی سے ایک آخ تھوہ کے ساتھ ساری نفرت زمین کے سینے پر اُنڈیل دیتی تھی۔
فیقا کافی دیر تک چارپائی کی چولوں کی مضبوطی کا امتحان لینے کو کروٹیں بدلتا رہا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا۔ دھیرے سے اٹھتے ہوئے بستر پر پڑے ظہور پر ایک نظر ڈالی اور زینو کی جھونپڑی کی جانب چل پڑا۔
اپنے سینے میں ہونے والی دھک دھک اسے اپنے کانوں میں صاف سنائی دے رہی تھی۔ حالانکہ فیقا ایسا پارسا بھی نہ تھا۔ عورت ان چکھی شے نہ تھی اس کے لیے لیے مگر زینو۔ کیا خبر شور مچا دے؟؟
اچھی خاصی ساکھ تھی علاقے میں۔ خواہ مخواہ مٹی میں مل جائے، فیقے نے گھبرا کر چاروں طرف یوں دیکھا جیسے واقعی وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔ یک لخت اس کے قدموں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔
وہ آدھے راستے ہی سے پلٹ آیا۔ دوبارہ لیٹ کر سونے کی ناکام کوشش کی مگر آدم کے خمیر میں کلبلاتے کیڑے کو آرام نہ آیا۔ یہ وہی کیڑا تھا جس نے آدم سے اس کی جنت چھینی۔ اسے اب بھی چین نہ تھا۔ وہی اب فیقے کے وجود میں رینگ رہا تھا۔ لمحہ بہ لمحہ اسے اُکسا رہا تھا۔ فیقے نے تنگ آ کر ظہور کو جھنجھوڑا۔
”ظہورے! ظہوریار! بات سن“
ظہور نے میٹھی نیند خراب ہونے پر کڑوا سا منہ بنایا۔ بوجھل آواز میں بولا؛ ”استاد کیا مسئلہ ہے آدھی رات کو“
فیقے نے اپنے وجود میں سر اٹھاتے کیڑے کا سر کچلنے کی کوشش میں اپنا لہجہ گھمبیر کر لیا۔
”مجھے لگتا ہے زینو کی طرف گڑ بڑ ہے“
”کیا؟“ ظہور نے آنکھیں پوری کھول دیں۔
”جا دیکھ تو سہی کیا معاملہ ہے؟“ کہنے کو تو فیقا کہہ گیا مگر ظہور کی پھرتی اسے کچھ زیادہ بھائی نہیں جو فوراً ہی اٹھ کر زینو کی جھونپڑی کی جانب چل پڑا تھا۔
فیقے کی تھکی نظریں اندھیرے میں لمحہ بہ لمحہ دُور ہوتے ظہور کو واپس کھینچنا چاہ رہی تھیں اپنی جانب مگر دیر ہو چکی تھی۔ ڈبو پہلے تو بھونکنے لگا مگر ظہور کی پچ پچ پہچان کر اسے سونگھ کر دُم ہلانے لگا گویا اسے اندر جانے کا پاس مل گیا تھا۔ ظہور نے ٹاٹ کے پاس کھڑے ہو کر آواز دی۔
”زینو۔۔زینو۔۔سب خیر تو ہے نا؟“
خاموشی کی چیخ خاصی ڈراؤنی تھی۔ ظہور نے لرز کر ذرا اونچی آواز میں پکارا ”زینو۔۔زینو“ اور ساتھ ہی ٹاٹ کے پردے کو ہاتھ سے تھوڑا ہٹایا۔ اندر لالٹین کی ملگجی سی روشنی کے علاوہ پہلے تو کچھ دکھائی نہ دیا مگر جلد ہی چند بے کار سی چیزوں کے ہیولے واضح ہونے لگے۔ چارپائی پر ڈھیر زینو کے وجود کا احساس ہوتے ہی ظہور اس کی جانب بڑھا۔ سسکیوں نے اس کے قدم روک دیے۔ زینو رو رہی تھی۔ جانے کب سے؟ لمحوں سے یا صدیوں سے۔۔؟
ظہور نے پوچھا ”سب ٹھیک تو ہے نا؟“
سسکیاں تھم سی گئیں۔ ڈھیر میں حرکت ہوئی۔ زینو نے ہولے سے سر اٹھایا۔ ظہور پر ایک نظر ڈالی اور اٹھ کر بیٹھ گئی؛ ”تُو اس وقت یہاں؟“ زینو کی آواز بے نام سے تاثر سے بوجھل تھی۔
”وہ۔۔وہ ہم سمجھے شاید ادھر کوئی ہے“ استاد نے کہا۔۔۔۔
ظہور اتنی رات گئے اپنی موجودگی کی وضاحت کر ہی رہا تھا کہ زینو نے لالٹین کی لو اونچی کر دی۔ ظہور پر کسی اور ہی دنیا کا ظہور ہونے لگا۔ ککھوں سے اَٹے کھچڑی بال دُھل کر زینو کی کمر تک لٹک چکے تھے۔ نئے کپڑوں میں لپٹی صاف ستھری زینو صبح والی زینو سے الگ ہی کوئی ہستی دکھائی دے رہی تھی۔ ظہور غیر محسوس طریقے سے ایک قدم پیچھے ہو گیا۔
”کیوں؟ ڈر کیوں گیا ہے؟میں زینو ہی ہوں!“
ظہور واقعی گھبرا گیا تھا۔ اس کی ہتھیلیاں بھیگنے لگی تھیں۔
”آج تو میں بھی خود سے ڈر گئی ہوں“
زینو نے اپنی بات کا خود ہی جواب دے دیا۔ لالٹین کی لَو اونچی کرنے کے بعد وہ نیچے جھکی تو کھلے فیشنی گلے سے چھلکتے اُچھال نے ظہور کے گلے میں پیاس کا پھندہ سا ڈال دیا اس کے قدم اُکھڑنے لگے۔۔
. ”میں۔۔۔میں۔۔چلتا ہوں“
زینو لالٹین نیچے رکھ کر سیدھی ہوتے ہوئے بولی ”آ گیا ہے تو چند گھڑی بیٹھ جا۔ جانے کب سے اکیلی ہوں“ یہ کہتے کہتے اس کی آواز میں سناٹا بولنے لگا تھا۔ ظہور جیسے کسی خواب میں سانس لے رہا تھا۔ یہ وجود۔۔یہ لہجہ۔۔۔کیا یہ زینو ہی ہے۔
وہ زینو ہی تھی اپنی تمام تر حسرتوں اور محرومیوں سمیت اس نے خود سے دو تین بالشت اونچے ظہور کو دیکھا، جس کی گردن کی رگیں پھولی ہوئی اور چوڑے چکلے ہاتھوں سے جڑے بازؤؤں کی مچھلیاں قمیض کے نیچے بھی پھڑک رہی تھیں۔ جانے کتنی ہی بھولی بسری کراہیں۔ زینو کے وجود سے لپٹ کر رونے لگیں، نسوں میں بہتا لہو دوڑنے لگا۔ اتنا تیز کہ وہ ہانپنے لگی۔ یوں جیسے پھٹ جائے گی۔ بھک سے اُڑ جائے گی خود کو بچانے کی خاطر اس نے ظہور کا سہارا لیا۔ ظہور کے بازؤؤں کی پھڑکتی مچھلیاں زینو کے سینے کے اچھال سے ٹکرائیں تو طوفان آ گیا۔ بے ترتیب سانسوں کے درمیان خود کو بچانے کی کوشش کرتے۔ ہانپتے ظہور نے ٹوٹتے ٹوٹتے لفظوں میں کہا ”یہ۔۔یہ۔۔یہ تُو کیا کر رہی ہے تُو تو میری ماں جیسی ہے“
زینو شل شل کرتی نئی نکور قمیض کا دامن اوپر تک اُٹھاتے ہوئے سسکی ”مگر ماں تو نہیں“ آج وہ شاید آدم کی نسل سے اپنے سارے اگلے پچھلے کھاتوں کا حساب بے باک کر کے نفی کر دینا چاہتی تھی۔ اسے زندگی سے یا شاید زندگی کو اس سے۔۔۔
باہر بے چینی سے پہلو بدلتا فیقا آخرِ کار چارپائی سے اٹھ کر جھونپڑی کی سمت چل پڑا۔