رقص ِ آگہی ۔۔۔ انجلا ہمیش
رقص آگہی
انجلا ہمیش
ربا وہ دیوانگی دے مجھے
رچاؤں وہ تانڈو
کہ ٹوٹ جائے خاموشی
کھل جائیں سلے ہوئے لب
پاؤں میرے تھرکیں
تو زمین کھسک جائے ان قدموں تلے
جو لطف اندوز مجھے ایذا پہنچا کے
مولا
وہ برہنگی دیکھی میں نے
جو دبیز پوشاکوں میں چھپا لی گئی
مجھے کون سنتا
کہ فیصلوں کی کرسی پر معذور دماغ بیٹھے تھے
میں نے دیکھا اہل رجال کو
پست قامتوں کے گھیرے میں
مسخرے جب عصمت دری کرتے ہیں فکر و دانش کی
تب مردہ معاشرے کی بے حسی و بے بسی کو
میں نے دیکھا ہے معبود
میں نے سڑے گلے سماج میں محبت کو پامال ہوتے ہوئے دیکھا
ربا
وہ دیوانگی دے مجھے
رچاؤں وہ تانڈو
کہ نشاں بھی نہ رہیں
زمین ناحق کے
Facebook Comments Box