اے وطن سے خفا خفا لوگو ۔۔۔۔ ارشاد عرشی ملک

اے وطن سے خفا خفا لوگو

(ارشاد عرشی ملک)
محفلِ شب کے ہم نوا ،لوگو
پاک مٹی کے بے بہا ،لوگو
تم تھے اُمید و آسرا ،لوگو
کھو چُکے اپنا راستہ ،لوگو

ہو گئے آج کیا سے کیا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

وہ جو جذبوں سے جاں کا رشتہ تھا
یا مکین و مکاں کا رشتہ تھا
سر کا اور سائباں کا رشتہ تھا
اپنی مٹی سے ماں کا رشتہ تھا

اب وہ رشتہ کہاں رہا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

فکر تھی جن کوکاروباروں کی
کار خانوں کی حصہ داروں کی
ڈالروں ،کوٹھیوں کی کاروں کی
اپنے گیٹوں پہ چوب داروں کی

اُن کا دامن بھی جل گیا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

جو اماں ڈھونڈتے تھے ویزوں میں
پیپسیوں،برگروں میں ،پیزوں میں
سوٹ کی بے شکن کریزوں میں
اور قسطوں کی مرسڈیزوں میں

وہ بھی ہیں غم میں مبتلا لوگو؟
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

کون پوچھے گا ذمہ داروں سے
خالی لفظوں بھرے غباروں سے
اِن حکومت کے عہدہ داروں سے
ایک دُوجے کے راز داروں سے

گھر بھرا کیسے لُٹ گیا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

تھی جو بچپن کے قہقہوں کی زمیں
کم سنی کی شرارتوں سے حسیں
نوجوانی کے رت جگوں کی امیں
اس کا وارث بھی آج کوئی نہیں

بے وفاوں سے با وفا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

وہ گھروندے ،وہ بولتی گلیاں
آنگنوں میں اُگی ہو ئی کلیاں
چاہتوں کی حسین رنگ رلیاں
کتنی بیلیں اُگی ہوئی تھیں یہاں

سب کا سب راکھ ہو گیا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

نفرتیں ،دُشمنی، دھماکے ہیں
ہر گلی ،ہر سڑک پہ ناکے ہیں
شہر اپنےہی ،غیر علاقے ہیں
مفلسی، رہزنی ہے ،فاقے ہیں

ہو گیا درد،لا دوا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

اِک قیامت کی مارا ماری ہے
خوف چھوٹے ،بڑے پہ طاری ہے
کیا خبر آج کس کی باری ہے
اب تو گھر گھر میں پُرسہ داری ہے

ہم پہ ہے لمحہِ نزع لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

تم اگر غور سے سنو تو کہیں
مرہمِ دل اُدھار دو تو کہیں
آنسووں سے وضو کرو تو کہیں
اپنے ماتھوں کو ٹیک دو تو کہیں

کون ہے ہم میں بے خطا لوگو؟
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

اب بھی یہ دل ہے اپنا،جان ہے یہ
اپنی پہچان ،اپنا مان ہے یہ
بے نشاں ہم ہیں اور نشان ہے یہ
زندگی گیت ہے ،تو تان ہے یہ

اِک یہی سُر ہے مدھ بھرا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

گر چہ کی ہے ہر اک خطا ہم نے
ڈال دی اس پہ ہر بلا ہم نے
اس کو کچھ بھی نہیں دیا ہم نے
اس سے پھر بھی سنی دعا ہم نے

مائیں کرتی نہیں گِلہ لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

ہم کہ ممتا کا کاروبار کریں
اس کو دنیا سے بے وقار کریں
بم دھماکوں سے لالہ زار کریں
کیوں اس آنچل کو تار تار کریں

ماں کا رہنے دو سر ڈھکا لوگو
اے وطن سے خفا خفا لوگو۔۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031