دانائی کی تلاش میں ( بدھا) ۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

دانائی کی تلاش میں

ڈاکٹر خالد سہیل

500 قبل مسیح سے 2000 عیسوی تک :: علم کے سمندر سے ملے چند صدف اور موتی

1۔ کنفیوشس۔ 2۔ لاوزو۔3۔ بدھا۔ 4۔ مہاویرا۔ 5۔ زرتشت۔ 6۔ سقراط۔ 7۔ افلاطون۔8۔ارسطو۔9۔بقراط۔10۔ جالینوس۔ 11۔ الکندی۔ 12۔ الفارابی۔ 13۔ الرازی۔ 14۔ بو علی سینا۔ 15۔ ابن رشد۔ 16۔ ابن تیمیہ۔ 17۔ ابن خلدون۔ 18۔ رینی ڈیکاٹ۔ 19۔ ڈیوڈ ہیوم۔ 20۔ جون روسو۔21۔ ایڈم سمتھ۔ 22۔ ایملی ڈر کھائم۔ 23۔ میکس ویبر۔ 24۔ فریڈرک ہیگل۔ 25۔ کارل مارکس۔ 26۔ اینٹونیو گرامچی۔ 27۔ لوئی التھوزر۔ 28۔ فریڈرک نطشے۔ 29۔ چارلس ڈارون۔ 30۔ سٹیون ہاکنگ۔ 31۔ سگمنڈ فرائڈ۔ 32۔ کارل یونگ۔ 33۔ ژاں پال سارتر۔ 34۔ ایرک فرام۔35۔ مارٹن لوتھر کنگ جونئر۔ 36۔ نیلسن منڈیلا

BUDDHA.3

بدھا

بدھا ہندوستان میں 563 قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور 483 قبل مسیح تک زندہ رہے۔ وادین نے ان کا نام سدھارتا رکھا تھا لیکن جب انہیں نروان ملا تو وہ بدھا بن گئے۔ انہوں نے اپنے دور کے مذہبی توہمات اور اعتقادات کو چیلنج کیا۔ انہوں نے اپنے شاگردوں اور پیرو کاروں کو یہ درس دیا کہ وہ روایات کی بجائے اپنی عقل، اپنے ضمیر اور اپنے شعور کو اپنا رہنما بنایئں۔ انہوں نے لوگوں کو اک پر امن زندگی گزارنے کا درس دیا۔ بدھا نے کہا:

کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ وہ کسی دانا نے کہی ہے

کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ اسے سب مانتے ہیں

کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ وہ کسی مقدس کتاب میں لکھی ہے۔

کسی بات کو صرف اس لیے نہ مانو کہ کوئی اسے مانتا ہے

صرف اس بات کو مانو جسے تم خود سچ سمجھتے ہو۔

بدھا کا کہنا تھا کہ انسان کا تجربہ اس کا سب سے بڑا انسان ے۔

بدھا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر انسان کو اپنے ضمیر کی پیروی کرنی چاہیئے اور دوسروں سے ہمدردی سے پیش آنا چاہیئے۔ ۔

بدھا کی زندگی اور فلافہ حیات کے بارے میں ، میں نے جتنی کتابیں پڑھی ہیں ان مین مجھے سدھارتا سب سے زیادہ پسند ہے۔ یہ ہرمن ہیس کا ناول ہے جو بدھا کی زندگی سے ماخوذ ہے۔ اس ناول میں ہرمن ہیس، سدھارتا کے روحانی سفر کی منازل کا نہایت تخلیقی انداز سے ذکر کرتے ہیں۔

سدھارتا ایک ریئس باپ کے بیٹے تھے۔ وہ اپنے باپ کے محل میں بڑی شان و شوکت سے رہتے تھے۔ انہیں اس محل میں ہر طرح کی سہولت میسر تھی۔ نوکر چاکر ان کی خدمت کرتے تھے۔ سدھارتا کے باپ کو جوتشیوں نے بتایا کہ انہیں محل سے باہر نہ جانے دینا کیونکہ اگر وہ محل سے باہر گئے اور انہوں نے چند چیزیں دیکھ لیں تو وہ سادھو بن جایئں گے۔ سدھارتا کے والد نے جوتشیوں کے مشورے پر عمل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ سدھارتا کو ان چیزوں کو دیکھنے سے محفوظ نہ رکھ سکے۔

نوجوانی میں سدھارتا ایک دن محل کے شمالی دروازے سے شہر دیکھنے گئے تو انہوں نے ایک شخص کو سڑک کے کنارے بیٹھے روتے دیکھا۔ اسکے ہاتھ پاوں مڑے ہوئے تھے۔ سدھارتا نے نوکروں سے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ ہنے لگے کہ وہ شخص کوڑھ کا مریض ہے۔

دوسرے ہفتے سدھارتا اپنے نوکروں کے ساتھ محل کے جنوبی دروازے سے شہر دیکھنے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کی کمر مڑی ہوئی ہے۔ وہ لاٹھی کے سہارے چل رہا ہے۔ سدھارتا کے پوچھنے پر نوکروں نے بتایا کہ وہ شخص بوڑھا ہو گیا ہے۔ تیسرے ہفتے جب سدھارتا شہر کے مشرقی دروازے سے شہر دیکھنے گئے تو دیکھا کہ ایک شخص چارپائی پر بے جان پڑا ہے۔ سدھارتا کے پوچھنے پر انہیں بتایا گیا کہ وہ شخص مر چکا ہے اور اب لوگ اسکی لاش جلانے کا انتظا م کر رہے ہیں۔

چوتھے ہفتے سدھارتا محل کے مغربی دروازے سے شہر دیکھنے گئے تو ایک ننگ دھڑنگ شخص کو خود سے باتیں کرتے دیکھا۔ سدھارتا کے پوچھنے پر نوکروں نے بتایا کہ وہ شخص دنیا تیاگ کر سادھو بن گیا ہے

یہ سب چیزیں دیکھنے کے بعد جوتشیوں کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی اور سدھارتا نے فیصلہ کر لیا کہ وہ انسانی دکھوں کا راز جاننے کے لیے دنیا ترک کر کے ۔  ایک سادھو بن جایئں گے۔

دنیا تیاگ دینے سے پہلے سدھارتا اپنے والد کے پاس آشیر باد لینے کو گئے۔ ہرمن ہیس اپنے ناول سدھارتا میں باپ بیٹے کا مکالمہ اسطرح بیان کرتے ہیں۔

سدھارتا۔ ” میں آپ سے اجازت لینے آیا ہوں کہ میں محل چھوڑ کر جنگل میں چلا جاوں اور سادھو بن جاوں۔ مجھے امید ہے کہ میرے با با کو کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ “

با با ۔ ” کسی برہمن کو زیب نہیں دیتا کہ وہ غصہ میں آئے اور سخت الفاظ استعمال کرے لیکن اس وقت میرے دل میں تمہارے لیے اچھے جذبات نہیں۔ میں تم سے پھر کبھی ایسی بات نہ سنوں۔ “

اس مکالمے کے بعد سدھارتا کے با با سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے لیکن بیٹے کے بارے میں ذہنی پریشانی کی وجہ سے سو نہ سکے۔ ہر بار جب وہ بستر سے اٹھتے اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے تو سدھارتا کو اسی جگہ پر کھڑا پاتے جہاں وہ اسے چھوڑ کر گئے تھے۔ سدھارتا اسی جگہ ساری رات کھڑے رہے۔ صبح اٹھ کر جب سدھارتا کے با با نے سدھارتا کو دیکھا تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں لیکن ان کا ارادہ مصمم تھا۔ با با کو اندازہ ہو گیا کہ سدھارتا جسمانی طور پر تو وہاں موجود تھے لیکن روحانی طور پر کب کے جا چکے تھے۔

سدھارتا کے دور میں بہت سے لوگ دنیا تیاگ کر سادھو بن جاتے تھے۔ سدھارتا نے بھی اپنے ماں، باپ، بیوی اور بچے کو الوداع کہا اور جنگل کی طرف چل دیے۔ سدھارتا نے دنیاوی زندگی کی قربانی دی تاکہ نروان حاصل کرسکیں اور انسانی دکھوں کا راز جان سکیں۔

سدھارتا کئی برسوں تک جنگل میں رہے اور رہبانیت کی زندگی اختیار کی۔ ہرمن ہیس کہتے ہیں کہ سدھارتا کی ریاضت کا بس ایک مقصد تھا۔ ان کا ایک آدرش تھا۔ وہ اپنے من کو خالی کرنا چاہتے تھے، ہر بھوک سے، ہر پیاس سے، ہر خواہش سے، ہر خواب سے۔ وہ اپنے نفس کو مارنا چاہتے تھے تاکہ نروان حاصل کر سکیں۔

برسوں کی محنت ریاضت کے بعد سدھارتا کو نروان حاصل ہو گیا اور وہ بدھا بن گئے۔

نروان حاصل کرنے کے بعد وہ بقیا زندگی جنگلوں میں بھی گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ واس دنیا میں آیئں گے اور دوسرے لوگوں کو نروان حاصل کرنے کا راستہ دکھایئں گے۔

ہرمن ہیس لکھتے ہین کہ جب بدھا دنیا میں واپس آئے تو وہ ایک عورت کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور کچھ عرصہ کاروبار کرتے رہے۔ جب ایک تاجر نے ان سے پوچھا کہ برسوں کی ریاضت سے انہوں نے کیا سیکھا تو وہ کہنے لگے کہ اب

میں سوچ سکتا ہوں

میں بھوکا رہ سکتا ہوں

میں انتظار کر سکتا وں

ناول میں سدھارتا کی ایک کشتی بان سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو انہیں وقت کا راز ان الفاظ میں بتاتا ہے۔

وقت دریا کی طرح ہوتا ہے۔ دریا بیک وقت اپنے آغاز میں بھی ہوتا ہے اور اپنے انجا میں بھی۔ وہ بیک وقت پہاڑون سے نکل رہا ہوتا ہے، وادیوں میں بہہ رہا ہوتا ہے اور سمندر میں داخل ہو رہا ہوتا ہے۔

بدھا فطرت کا یہ راز جان گئے کہ ساری کائنات مقدس ہے اور زندگی میں مسلسل ارتقا کا عمل جاری ہے۔ ہرمن یس لکھتے ہیں

پتھر مٹی بن جاتا ہے

مٹی سے پودا پیدا ہوتا ہے

پودا پرندہ بن جاتاہے

پرندہ جانور بن جاتا ہے

جانور انسان بن جاتا ہے۔

وہ پتھر بیک وقت مٹی بھی ہے، پودا بھی، پرندہ بھی، جانور بھی ہے اور انسان بھی۔ انسان مٹی سے پیدا ہوتا ہے اور مٹی میں دوبارہ چلا جاتا ہے۔

سدھارتا بدھا بن گئے اور انہون نے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو نروان کا رستہ دکھایا تا کہ ان کے دکھ کم ہو سکیں، سکھ زیاد ہو سکیں اور وہ ایک پر سکون زندگی گزار سکیں۔

بدھا کو بدھ ازم کا بانی کہا جاتا ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031