آدھی رات کے بعد کا منظر ۔۔۔ خوش بخت بانو
آدھی رات کے بعد کا منظر
خوش بخت بانو
آدھی رات گزرنے کے بعد خواب بیدار ہوجاتے ہیں
میلوں دور دکھائی دینے والا چاند سرہانے بیٹھ جاتا ہے
میں اس سے بات کر سکتی ہوں
اپنی تنہائی کی
سنا سکتی ہوں اپنا خواب
بتا سکتی ہوں دل کا راز
مجھے اس بات کا ڈر نہیں کہ یہ کسی کو بتا دے گا
مجھے اس بات کا ڈر نہیں کہ یہ خواب توڑ دے گا
یہ امانت دار ہے
آدھی رات گزرنے کے بعد بیدار ہوجاتے ہیں
گلی میں بھونکنے والے آوارہ کُتے
جو عشق کرنے والوں کو پہچانتے ہیں
یہ ان سے لپٹ جاتے ہیں
ان کی قدم بوسی کرتے ہیں
کیونکہ یہ کُتے ہیں
اگر کُتے نہ ہوتے تو انسان کو وفاداری کی مثال دینے کے لیے کسی اور جانور کا نام سوچنا پڑتا
مگر پھر بھی اسکا دھیان اپنی طرف نہیں جاتا
کیونکہ وہ اپنے بارے میں خاصی معلومات رکھتا ہے
آدھی رات گزرنے کے بعد شہروں میں
بھاری ٹریفک کی آمد و رفت شروع ہوجاتی ہے
سوتے جاگتے ڈرائیور شہر بھر کی نیند کا تاوان ادا کرتے ہیں
ہماری ضروتوں کا بوجھ اٹھانے والی گاڑیوں کے پہیے
زمین کی کمر کو جھکا دیتے ہیں
ٹائروں کی رگڑ سے اسکے بدن کو چھلنی کر دیتے ہیں
کمرے کی دیواروں کو چیر کر کانوں تک پہنچنے والی ہارن کی آواز سونے والوں پر قہقہہ لگاتی ہے
اور جاگنے والوں کی گفتگو میں خلل پیدا کرتی ہے
لوگ سوچتے ہیں کہ رات کو کچھ اور طویل ہونا چاہیے تھا
جبکہ ایک بستر میں موجود دو جسم ایک دوسرے کے لیے کشش کھو چکے ہیں
اور دیوار کی طرف کروٹ لینا زیادہ پسند کرتے ہیں
آدھی رات گزرنے کے بعد شروع ہونے والی نظم
ہماری زندگی میں تاریکی کی طرح
طویل ہوتی جاتی ہے
مگر میں صبح صادق تک جاگنا چاہتی ہوں
میں چاہتی ہوں کہ اپنی سرمئی آنکھوں میں سرخ رنگ بھروں