بارش بھرا تھیلا ۔۔ علامتوں کا جنگل(مقالہ) مہ جبین آصف
بارش بھرا تھیلا ۔۔۔ علامتوں کا جنگل
ماہ جبیں آصف
(بارش بھرا تھیلا از مسعود قمر پر مقالہ )
سویڈن میں مقیم شاعر، مسعود قمر کی شاعری کے اس سے پیشتر بھی کئی مجموعہ کلام نئے تجرباتی انداز میں سامنے آ چکے ہیں۔ زیر نظر مجموعہ ” بارش بھرا تھیلا ” جب ہمیں موصول ہوا تو یہ وہی موسم تھا جو دیوار جاں پر نقش ابھارتا اور بالٰآخر دیوار جاں ان نشانات سے بھیگ بھیگ جاتی ہے۔ اک نمی سی دل میں اتر جاتی ہے۔ وہ نمی جو موئے قلم کو بھگوتی ہے۔
کائنات کی وہ سچایئاں جو جبر و استبداد کے پہلو سے نکلتی ہیں ۔ یہ 150 نظموں میں سموئی وہی کہانیاں ہیں۔ یہ 150 درد سے کروٹ لیتے وہی لمحے ہیں جن سے یہ مجموعہ جگمگا رہا ہے۔
غلامی کی زنجیروں، بے بسی، دل شکستگی کو صیقل کرتی یہ نظمیں ہماری فکر کو جگاتی اور سوچ کے در خوابوں کی جانب کھولتی ہیں۔
سرورق
کائنات کے بنیادی رنگ سیاہ سے آراستہ سرورق بہت خوبصورت علامتی تجدیدیت کا شاہکار اور تمام نظموں کے پس منظر کو اجاگر کرتا ہے۔
انتساب
اس چہرے کے نام جس نے کہا تھا
” کتاب میں میرا چہرہ نہ دکھانا”
مسعود قمر کی نظمیں اپنے منفرد موضوعات، دلچسپ عنوانات اور تخیل کی مانند کسی برقی مقناطیسی کشش کی طرح اپنی اور کھینچتی ہیں اور قاری علامتوں کے گھنے جنگل میں ان کے ساتھ سفر کرتا جاتا ہے۔
دیباچہ
فطرت سوہان کا تحریر کردہ دیباچہ اپنی طرز میں منفرد اور اچھوتا مکالماتی انداز لیے ہوئے ہے۔ اس سے پیشتر یہ انداز سخن دیکھنے میں نہیں آیا۔ جس انٹلیکچوئل لہجے کو استعمال کر کے فطرت سوہان نے ان کی نظموں کا احاطہ کیا ہے وہ اپنی دانست میں بذات خود ایک الگ تجربہ ہے۔ گمان کی حد سے پرے، یقین کی حد کے قریب، ظلم و جبر و استحصال کے خلاف یہ نظمیں اعلان جنگ ہیں۔ یہ ایک باغی کے دل میں کھلا ہوا وہ شگوفہ ہے، وہ سبز پتا ہے جسے وہ اپنے وطن کی زمین میں مور پنکھ کی صورت کھلا اور شاداب دیکھنا چاہتے ہیں۔
مسعود قمر کی نظمیں نفرت کے یخ بستہ ماحول میں نظموں کا گرم تکیہ ہیں جنہیں سرہانے رکھ کر وہ میٹھی نیند سونا چاہتے ہیں۔ یہ وہ نظمیں ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی قاتل کے کانوں میں سوراخ کرتی ہیں۔ ۔ یہ نظم ملاحظہ کریں
پھولوں کے باغ میں
چھاونی بنانے والے
بھول گئے
پھول چھاونی کی دیوار پھاڑ کے اگ آتا ہے
کیسی امید بھری نظمیں ہیں جو اسے ہر دم جگا کے رکھتی ہیں۔ مسعود قمر کی نظموں کا موضوع محبت ہے۔ جس کا استعارہ عورت کے وجود سے لے کر بنتا ہے۔ یہ نظم دیکھئے
مجھے پتا چل جائے
کہ پھانسی کتنے وقت کے لیے
معطل کی گئی ہے
میں اس درمیانی وقفے میں
اس لڑکی سے
اک بار اور محبت کرلوں
وہ قید کی تنہائی ، وحشت ، حبس اور گھٹن زدہ ماحول میں بھی محبت کرنا فراموش نہیں کرتا۔ وہ حسین لڑکی اس کے وطن کی سر زمین ہے اور اس پر پھیلا امن ہے جس کی تمنا اسے برفاب میں بھی گرمائے رکھتی ہے اور برف کی سطح پر آگ اگلتا لہجہ۔
نظم ” آتش دان میں ٹھٹھرتی محبت” بھی ایسی ہی نظم ہے۔ محبت اس کا موضوع ہے، محبت پانے والا اس بات پر مطمئن نہیں ہوتا کہ اسے ایک دن کے لیے مکمل محبت حاصل ہوئی تھی، محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے۔ جس طرح روز سورج نہ نکلے تو دن نہیں چڑھتا اسی طرح جس روز محبت کا سورج طلوع نہ ہو تو اندھیری رات موجود رہتی ہے۔
یہ دل اور جسم بڑے بیری ہیں ایک دوسرے کے لیے۔ جسم روندا جائے تو یہ دل کو بسنے نہیں دیتا اور دل مٹھی میں بند رہے تو یہ جسم کی نگری کو برباد کر دیتا ہے۔ یہ نظم بھی سرد شاخوں میں روشن دان کے سامنے ٹھٹھرتی محبت کی نظم ہے جس کا رس دھوپ چرا لیتی ہے۔
کسی نے بھگت کبیر سے پوچھا، محبت کیا ہے ؟ انہوں نے کہا، “جیسے کوئی گڑ کھائے اور ذائقہ نہ بتا پائے۔ “
” گوند کے درخت کا طبعی موت مرنے کا خواب ” سے لیکر ” نیندوں کے احسان اٹھانے تک ” ۔۔۔ ” ہواوں کا پوسٹل ایڈریس لکھنے سے انکار ” کیا منفرد عنوانات ہیں۔۔۔ تہ در تہ مطالیب لیے یہ نظمیں پڑھنے والے کے احساس کو جگاتی ہیں۔
جوتوں سے نا آشنا سڑکیں، سلاخوں کے درمیان لیا گیا بوسہ، ہاوس آف لوسٹ لیٹرز، استعارات کی پازیب پہنے حقیقت کاسفاک چہرہ بے رحمی سے دکھا رہی ہوتی ہیں۔ علامتیں مسعود قمر کے فن میں گویا صیقل ہو رہی ہوتی ہیں جن کی جھنکار سے قید خانے کی تاریکی، سکوت کو قوت گویائی مل جاتی ہے۔
سمندر، مسعود قمر کا پسندیدہ موضوع ہے جسے وہ استعارے کی شکل میں ڈھالتا ہے۔ سمندر انہیں تحفے میں ملا ہے جسے وہ دل میں بسائے رکھنا چاہتے ہیں اور اس لیے تنہائی کے خشک صحرا میں چل رہے ہیں۔ ترقی، جدت پسندی اور انقلاب سلگتے موضوعات جن پر بات کرنا دور حاضر میں گردن زدنی قرار پاتا ہے۔ حساس موضوعات جنہیں چھوتے ہوئے پر جلنے لگتے ہیں۔
مسنگ پرسن کی بیٹی سے گفتگو، جو با با کی دونوں آنکھوں کو، رخسار کو چومنا چاہتی ہے، چاہے وہ مسخ شدہ ہی کیوں نہ ہوں، کیا دلگیر اور حساس موضوع ہے۔
نظم ” حاملہ برقعے کی لڑکیاں ” دیوار میں روشن دان بننے کی منتظر جس یں پیدا ہونے والا بچہ جو تمام عمر نفرت کا شکار رہا۔
” ماں جیسی ریاست ” سفیدی کرتے مزدور، قحبہ خانے کی عورت، اخبار ہاکر، اذانوں، ایمبولینس کے نغموں سے جاگتے استحصال کا نوحہ ہے۔
نظم ، ” ہم پیشہ ور سوگوار ہیں “
اب ہمیں سوگ منانے کے لیے ماہر سوگوار امپورٹ کرنے پڑیں گے
ہم جنہیں سوگ منانے کے لیے انسانوں کو بھی جلانا پڑتا ہے۔
کیا المیہ ہے، جو روز کا معمول ہے، جسے لکھنے کے لیے اپنے اندر ایک آگ جلانی پڑتی ہے۔ الاو دہکتے ہیں تب ایسی نظمیں خلق ہوتی ہیں۔ اپنے ان ہی عنوانات ، ہمہ گیر موضوعات، سلگتے حساس مسائل پر لکھی گئی یہ نظمیں بلا شبہ حواس پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بزم میں رزم گاہ کی صورت یہ مجموعہ خود آگاہی بھی دیتا ہے اور خود فراموشی بھی، جو اولا مسحور کرتا ہے اور دگراں محصور کر دیتا ہے۔