نذیر قیصر کی شاعری ۔۔ گفتگو ۔۔۔ محمود احمد قاضی
نذیر قیصر کی شاعری
محمود احمد قاضی
میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں
کیا تم نے چند لمحے جس شخص کے ساتھ گزارے لِئے ہیں ، تم نے اسے اس دوران میں سارے کا سار جان لیا ہے ۔۔
اور دوسرا سوال بھی میں خود سے کرتا ہوں
کیا تم جس شاعر کو اور اس کی شاعری کو پسند کرتے ہو اس کی شاعری پر ایک بے لاگ نظر ڈال سکتے ہو ۔۔
پہلے سوال کا جواب تو کچھ یوں ہے کہ ایسا ممکن نہیں ۔ جب تک تم کسی بندے کے ساتھ اپنے کافی دن رات نہ بسر کر لو تم اس کے بارے جو بھی جانو گے وہ خام ہو گا ۔اس لِئے اپنی بیٹھک کو لمبا کرو ۔۔صبر اور استقامت کے ساتھ ۔۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب میں ایسا کرنا چاہوں گا تو میں اس سے اپنی پہلی چاہت ، پسند اور محبت کو تج کر ، اسے detach کر کے صرف اس کی شاعری کو سامنے رکھوں گا ، ہے یہ مشکل کام لیکن شائد میں کر گزروں ۔۔
ایک بات یہاں آغاز میں ہی صاف ہو جائے تو اچھا ہے کہ میں نے نذیر قیصر کو زیادہ نہیں پڑھا صرف تنویر قاضی کی زبان سے سنا ہے کہ وہ اس کا گرویدہ ہے ۔ مجھے وہ پیارا اس لِئے ہے کہ وہ میری ہر تحریر کا پہلا قاری رہا ہے ۔۔ اس کی تنقید میں بصیرت اور محبت یہ دونوں عناصر شامل ہوتے ہیں ۔۔
تو اب آؤ نذیر قیصر ذرا تم سے گُفتگُو ہو جائے ۔۔
تم نے اپنی گُفتگو میں امیر خُسرو اور نظام الدین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ۔۔ نظام الدین نے امیر خُسرو سے کہا کسی کا گلہ مت کیا کرو ۔۔
نذیر قیصر یہ تم گِلوں سے اٹے پٹے جہان میں کس جہان کی باتیں لِئے بیٹھے ہو ویسے زندگی کو ذرا بہتر طور پر سمجھنے کے لِئے رومی میرے زیادہ کام آیا ۔۔ وہ کہتا ہے تمہارے جسم میں موجود زخم تمہارے اندر روشنی داخل کرتا ہے ۔۔
تو میرے پیارے نذیر قیصر ہمیں زخم سے نہیں گھبرانا کہ یہ ایک روزن بھی ہے ۔۔۔
تم نے جس موسم میں مجھے اپنے اوپر لکھنے کو کہا تو میرے عزیز یہ تم نے کس سے کہہ دیا ۔۔ اس پت جھڑ میں جہاں دوسروں سے ہمکلام ہونا مشکل ہو رہا ہو تو کوئی پڑھے گا کیسے ۔۔ لیکن خیر تمہیں پڑھتا ہوں کہ اب مفر نہیں ۔۔
میں اب بھی جان بوجھ کر تمہیں زیادہ نہیں پڑھوں گا صرف تمہیں اور تمہاری شاعری کو محسوس کروں گا ۔۔ جب تم ملے تو تم اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے میرے ویر تنویر قاضی کو دلیپ کمار اور سائرہ بانو جیسی جوڑی لگے ۔۔ دوائی وقت پر ۔۔ چائے جب جی چاہے ۔ باتیں بے تکان ۔۔ ساتھ ہمیشہ کا ۔ میں نے تمہاری مسز سے پوچھ لیا تھا تم دونوں میں سے مشکل کون ہے ۔۔ وہ بولی ۔۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے لِئے آسان ہیں ۔۔ کیسی مشکل بات اس نے آسانی سے کہہ دی ۔۔
تم بھی کہو گے یہ کیا ادھر اُدھر کی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو بھئی میں اور میری شاعری کِدھر ہے ۔۔ پیارے ، ذرا دھیرج ۔۔ تم نے کہا تھا بھرواں لکھو ۔یہ بھرواں کیا ہوتا ہے ، مجھے نہیں معلوم ۔۔۔۔
اور ویسے بھی میں تنویر قاضی کے بقول ( ایک تو یہ تنویر قاضی بیچ میں بار بار آ جاتا ہے ) تمہاری مسز کی طرح جو تمہارا بِلی کے بچے کی مانند خیال رکھتی ہے کیسے دیکھ بھال کر سکتا ہوں تمہاری اور تمہاری شاعری کی ۔۔۔
تو لو بھائی جو مِسا لُونا ہے حاضر کرتا ہوں ۔۔
میرے شہر میں ایک بندہ تھا پنجابی میں شاعری کرتا تھا ۔۔ منیر عصری ۔۔ اس کی ایک کتاب تھی بسنتی چولا ۔۔ وہ سر تا پا شاعر تھا ۔۔ اسے دیکھتے ہی لگتا تھا کہ وہ شاعر کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا ۔۔
اور اب تم ہو سر سے لے کر پاؤں تک شاعر ۔۔ نرے شاعر
میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو قیصر
کوئی خوابیدہ منظر جاگتا ہے
ذرا بتاؤ گے یہ خوابیدہ منطر کیسے جاگ پڑتے ہیں ۔۔ جب اندر کی فصلِ گُل راکھ ہونے کو ہو تب بھی ۔۔ ہاں شاعر کو امید کا ایک در تو کُھلا ہی رکھنا ہوتا ہے ۔۔
” ہم نے چراغ کی لَو کے گِرد بکھری روشنی دیکھی ہے ۔۔ اس کے شعلے پر ہونٹ نہین رکھے ”
بھلا کیوں ، اس لِئے کہ ہم ڈرُو اور خوفزدہ لوگ ہیں ہم دنیا کا سامنا کیا کریں گے ہم تو خود اپنا سامنا بھی نہیں کر پاتے ۔۔
ہم کنویں ( کنویں جو کبھی تھے) ماہل کے اندر گھومتی ٹنڈوں کی طرح بھرتے اور خالی ہوتے رہتے ہیں اور جب وقت کا بیل اپنی آنکھوں پر چڑھے کھوپوں سمیت چلتے چلتے رُک جاتا ہے تو ہم بھی رُک جاتے ہیں ۔۔ بس یہی ہمارا سفر ہے گول گول ۔۔ایک مصرف کے ہوتے ہوئے بھی بے مصرف ۔۔ ذرا اپنے اندر اور باہر آؤ جاؤ ۔۔ لمبی مسافرت کرو تو بات سمجھ میں بھی آ جائے ۔۔ ہم گھڑا جانا زیادہ پسند کرتے ہیں کبھی اَن گھڑ رہنا بھی سیکھنا چاہیئے ۔۔ یہ بھلا کب آئے گا جب ہم شاعری کریں گے ۔۔ کیا ابھی تک جو ہمارے گِرد ہو رہی ہے شاعری ہے ۔۔ اگر ہے تو بھئی میں باز آیا ایسے پاندان سے.اُٹھا لو پاندان اپنا ۔۔ اس لِئے کہ
” مگر جس چہرے کے ساتھ ہم مرتے ہیں اسے تراشنے کے ذمہ دار ہم خود ہوتے ہیں ”
خالی دعا سے کیا ہوتا ہے
اچھا خیال دعا ہوتا ہے
جب ہمارے پاس اچھا خیال نہ ہو تو دعا کیسی اور دعا ہو مگر خیال سے خالی ہو تو بھی دعا کیسی ۔۔
آؤ پھر سے تمہیں دہراتا ہوں
” جب ہم اپنے لفظوں کو live جس دن محبت کرنا سیکھ جائیں گے اس دن زندہ رہنا آسان ہو گا محبت کرنا آسان ہو گا ”
یار یہ تم مشکل چیزوں کا حل آسانی سے کیسے ڈھونڈ لیتے ہو ۔۔ جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا پیچیدہ مسلہ ہو گا اس کا حل بھی اتنا ہی مشکل ہو گا ۔۔
شاید ایسا کرنا تمہاری مسز نے تمہیں سمجھایا ہے ۔۔ جب کہ تم خود ہی کہہ رہے ہو ۔۔
کشتی میں بہا کے رات اُس نے
رکھا ہے ستارہ ساتھ اُس نے
کشتی ، رات ، ستارہ ان تین چیزوں کا یکجا ہونا بھی تو ایک کمال ہے
ٹُوٹتے ہیں بدن میں سنّاٹے
رات ہے گُفتگُو کا موسم ہے
میرے نذیر قیصر اب جب میں تم پر کہتے ہوئے یہاں تک آ گیا ہوں تو لگتا ہے میں مضمون تو لکھ ہی نہیں سکا ۔۔ صرف تم سے گُفتگُو ہی کر پایا ہوں ۔۔
میرے پیارے اس جُگتی دور میں جب مزاحیہ ”شاعری ” ہو رہی ہو.. giggly دانت نکال کر ہنسا جا رہا ہو تو بتاؤ اس سے زیادہ ہو کیا سکتا ہے بس تم اسے اپنے ساتھ گپ شپ ہی سمجھو ۔۔
اپنی جزب سے بھری شاعری کے ساتھ جیتے رہو ۔۔
اے چاند جُھک شجر پر
اے شام ہم سُخن ہو
وہ آنکھ سو رہی ہے
تارا رُکا ہوا ہے
آؤ مل کر اس کائنات کو بارِ دگر دیکھیں اور خود اپنی نظر سے دیکھیں ۔۔۔