
ہم ملنا چاہتے ہیں ۔۔۔ مہجور بدر
ہم ملنا چاہتے ہیں
مہجوربدر
ہم ملنا چاہتے ہیں
ہر سانس کے آنے جانے میں
بارشوں کے عہد میں
نوروزکے بہاروں میں
ہمارا ملنا ایسا ہو
جیسے ہوا کسی کو مس کر گزرجائے
جیسا کوئ خوشبو ارواح میں اتر جائے
جیسا دریا سمندر میں اتر جائے
جیسا دور دیسوں کے مسافر
واپسی پر اپنوں کو گلے ملتے ہیں
ہم ملنا چاہتے ہیں
اس گلزمین کے آسمانی نیلگوں چادر تلے
جیسے کوئ پرندہ شام ڈھلتے ہی
اپنے گھونسلے میں اترتا ہے
بچوں کو بھلاتا ہے
ہم ملنا چاہتے ہیں
کسی بک اسٹال پر
کسی کیفے میں
کسی ریستوراں کے ریسفشن پر
کسی لائبریری کے لان میں
کسی شاعر کی جنم دن پر
کسی شاعر کی کتب کی رونمائ پر
کسی عالمی کانفرس میں
ہم ملنا چاہتے ہیں
مگر ہم کو پتا نہیں
کہ ہم ملے ہیں کہ نہیں
بس اتنا احساس ہے
ہم ملے ہیں کہیں
بچھڑے ہیں کہیں
ہم اپنے ابدی بچھڑنے کے دکھ میں
اور کتنی بار
اپنے آپ سے ملنا چاہتے ہیں