احمد ہمیش ۔ایک یادگار شخصیت ۔۔۔ محمد اشتیاق
احمد ہمیش ایک یاد گار شخصیت
محمد اشتیاق
(الہ آباد،انڈیا)
8 اپریل 1979ء کو الہ آباد میں انجمن تہذیب نو کی طرف سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کا موضوع تھا ”نئی کہانی اور نئے مسائل، جس میں نئے افسانہ نگاروں کی ایک نئی نسل نے حصہ لیا اور ملک و بیرون ملک کے بہت سے افسانہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ ان سب میں پاکستان سے مشہور افسانہ نگار انتظار حسین اور احمد ہمیش نے بھی حصہ لیا۔ احمد ہمیش سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی اس زمانے میں میں ریسرچ کا طالب علم تھا۔ احمد ہمیش جن کی پیدائش یوپی کے ہی ایک شہر بلیا میں ہوئی تھی اور وہ ۱۹۵۵ء میں پاکستان چلے گئے تھے۔ احمد ہمیش جس وقت سیمینار میں بولنے کے لئے کھڑے ہوئے تو نہایت ہی جذباتی انداز میں انھوں نے اپنی باتیں کیں اور کہیں ۔ کہیں وہ آبدیدہ بھی ہو جایا کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جب میں دریائے گنگا کے پل پر آیا تو بے حد جذباتی ہو گیا اور اپنے جیب سے کچھ پیسے نکال کر دریا میں پھینک دیا۔ (عام طور سے یہاں آنے والے دوسرے شہروں کے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں پل پر آنے کے بعد کچھ پیسے نکال کر دریا میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ ہی کام احمد ہمیش نے بھی کیا کیوں کہ وہ اپنے جذبات سے مجبور ہو گئے تھے یہ کام کرنے کے لئے ) اس سے ان کا یہاں کی تہذیب سے لگاؤ ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اپنی ایک کہانی ” کہانی مجھ کو لکھتی ہے کا کچھ حصہ بہت جذباتی اور ڈرامائی انداز میں سنایا۔
احمد ہمیش الہ آباد میں شاید دو تین دنوں تک ٹھہرے ہم لوگوں کے ساتھ گھومے پھرے اور تصویریں کھنچوائیں، جو کہ آج تک میرے پاس محفوظ ہیں۔ اس کے بعد وہ
واپس پاکستان چلے گئے اور میرے ذہن میں ان کی یادیں باقی رہ گئیں۔ پاکستان جا کر انھوں نے ایک سفر نامہ لکھا جس میں الہ آباد کے مختلف اہم ناموں کے درمیان اپنا نام دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ میرے جیسا ایک طالب علم ان کو کیسے یا درہ گیا۔ اس کے بعد کوئی امید نہیں تھی کہ ان سے دوبارہ ملاقات ہوگی ۔ لیکن جلد ہی مجھے پاکستان جانے کا موقع مل گیا اور اپنے ریسرچ کے سلسلہ میں میں یونیورسٹی کے اجازت نامہ کے ساتھ دسمبر ۱۹۸۰ء میں پاکستان میں لاہور ہوتا ہوا کراچی پہنچ گیا۔ کراچی پہنچ کر کچھ دنوں کے بعد میں نے اپنے ایک عزیز سے ان کا ذکر کیا انھوں نے بتلایا کہ وہ تو میرے محلہ میں ہی رہتے ہیں جو کہ میرے ماموں کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ میں نے ان سے ٹائم لیا اور ایک دن ان کے گھر پہنچ گیا۔ جیسے ہی انھوں نے دروازہ کھولا مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے اور دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئے کہنے لگے اشتیاق تم یہاں کیسے۔ میں بھی ان کی زبان سے اپنا نام سن کر حیران رہ گیا کہ اس شخص کو میری شکل و صورت کے ساتھ ساتھ میرا نام بھی اب تک یاد ہے بڑی محبت سے وہ مجھے لے گئے اور کمرے میں بٹھایا اس وقت ان کے ایک دوست بھی وہاں موجود تھے ان سے بھی میرا تعارف کرایا پھر میں نے انھیں جھولے میں رکھا ہوا الہ آباد کا امرود دیا اس کو دیکھ کر وہ بے حد خوش اور جذباتی ہو گئے کہنے لگے کہ تم میرے لئے الہ آباد سے امرود لے کر آئے ہو یہ توالہ آباد کا بہت ہی قیمتی تحفہ ہے اپنے ساتھی سے بھی خوش ہوکر بتایا۔ اس کے بعد چائے ناشتہ وغیرہ ہوا پھر انھوں نے کہا کہ اشتیاق تم کراچی پہلی بار آئے ہو میں تمہیں یہاں کے متعلق کچھ باتیں بتاتا ہوں جو کہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھو گے۔ انھوں نے کہا کہ تم یہاں جس کے یہاں بھی جاؤ گے وہ تمہیں ایک نہایت ہی آراستہ و پیراستہ ڈرائنگ روم میں بٹھائے گا پھر وہ اپنی بات شروع کرے گا کچھ حال احوال پوچھنے کے بعد وہ تمہیں بتائے گا کہ یہ صوفہ
میں نے چالیس ہزار میں لیا ہے اب ایک اس سے زیادہ خوبصورت صوفہ دیکھا ہے وہ لانے کا ارادہ ہے۔ ٹی وی کے بارے میں بتلائے گا کہ یہ کلر ٹی وی ہے میرے پاس دوسرا بلیک اینڈ وہائٹ بھی ہے۔ اس کمرے میں عمدہ کراری رکھی ہوگی وہ کہے گا یہ فرانس کی ہے اور یہ گھڑی جرمنی کی ہے اس کے علاوہ میرے پاس فلاں کمپنی کی کار ہے اب اس کا نیا ماڈل آگیا ہے اس کو نکال کر میں وہ کا رلانے والا ہوں۔ اس طرح سے وہ اپنے تمام گھر کے ساز وسامان کے بارے میں بتا دے گا۔ آپ کو ان کے کمروں میں کتابوں کا کوئی ریک نہیں ملے گا اور نہ ہی کوئی کتاب نظر آئے گی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہے کہ آپ کسی کے یہاں زیادہ دیر تک بیٹھ کر باتیں بھی نہیں کر سکیں گے کچھ دیر کے بعد آپ کو خود بخود محسوس ہوگا کہ وہ چاہتا ہے کہ اب آپ اٹھ کر چلے جائیں۔ اس طرح سے میں نے خود دیکھا کہ لوگوں کے یہاں عام طور پر یہ باتیں دیکھنے کو ملیں ۔ آتے وقت انھوں نے کہا کہ جب کوئی پروگرام ہوگا تو میں آپ کو اپنے ساتھ لے لیا کروں گا پھر آپ کو پہنچا دوں گا۔ اس طرح وہ برابر جہاں کوئی پروگرام ہوتا مجھے اپنے ساتھ لے جاتے پھر گھر چھوڑ دیتے ۔ آخر میں جس دن مجھے واپس آنا تھا وہ ایک گھنٹہ پہلے میرے ماموں کے گھر پہنچ گئے اور جب میں اسٹیشن جانے کے لئے ماموں کے ساتھ نکلا تو وہ باہر آ کر کھڑے ہو گئے میں ان سے مل کر گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا تو پیچھے مڑ کر دیکھتا رہا وہ احمد ہمیش مجھے کھڑے کھڑے نم آنکھوں سے دیکھے جارہے تھے اور جب تک وہ مجھے دکھائی دیئے اپنا ایک ہاتھ اوپر اٹھائے برابر ہلا رہے تھے اور ایک تک میری طرف دیکھ رہے تھے ان کے یہ جذبات میرے ذہن پر نقش ہو گئے اس محبت کا مظاہرہ پاکستان میں کسی اور نے نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کو آج تک بھول نہیں پایا۔ میری آنکھوں میں بھی اس وقت آنسو تیر رہے تھے۔ یہ ان سے میری آخری ملاقات تھی۔ جو کہ لازوال تھی وہ اب دنیا میں نہیں
ہیں لیکن ان کی یادیں آج بھی میرے سینے میں تازہ ہیں۔ اس زمانے میں وہاں ضیاء الحق صاحب کی حکومت تھی اور یہ لوگ حکومت کی نظر میں مشکوک تھے اس لئے بہت چھپ کر خفیہ طریقہ سے اپنا ادبی پروگرام کیا کرتے تھے ۔ ان کا جذباتی لگاؤ ، سادگی، بے تکلفی اور محبت کا جذبہ ہمیشہ یادر کھنے والا تھا۔ انھوں نے اپنے ہم خیال کئی ادیبوں اور شاعروں سے میرا تعارف کروایا۔ ان سے متعلق ایک بات اور بتاتا چلوں وہ یہ کہ ایک مرتبہ میں بغیر کسی کو ساتھ لئے سائیکل سے نکل پڑا اور ان کے گھر پہنچ گیا۔ انھوں نے جب مجھے سائیکل سے دیکھا تو بہت حیران ہو گئے کہنے لگے اشتیاق آپ کو واپس الہ آباد جاتا ہے اس لئے مہربانی کر کے آئندہ کبھی بھی سائیکل سے کراچی میں نہ نکلنا۔ میں بننے لگا وہ بے حد سنجیدہ تھے، خیر پھر میں نے کبھی یہ غلطی نہیں کی۔
احمد ہمیش ایک بڑے افسانہ نگار اور شاعر بھی ہیں وہ فطرنا ایک آرٹسٹ ہیں۔ یہ آرٹ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے ان کے بارے میں ایک صاحب کا خیال ہے کہ اگر وہ آرٹ کو اپنے لئے وقتی مشغلہ نہ بنا لیتے تو وہ پاگل ہو جاتے۔ ان کے کردار میں ان کے افسانوں میں ان کا اپنا ایک آرٹ ملتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ کسی بھی وقت کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر اپنے خیالات کو قلمبند کرتے رہتے تھے ہو سکتا ہے کہ بعد میں وہ اس کو ترتیب دیتے رہتے ہوں۔ ان کی سوچ اور فکر وافسانے میں ان کے ترسیلی رویے سے بہت سے لوگ اختلاف کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان پر تنقید بھی خوب ہوا کرتی تھی۔ ان کا افسانہ لکھی بہت دنوں تک بحث کا موضوع بنا رہا لوگوں نے اس پر خوب تنقید کی لیکن احمد ہمیش اپنی راہ پر اعتماد و اعتبار کے ساتھ چلتے رہے۔ وہ اپنے ہم عصر تنقید کرنے والوں کی روش سے متاثر نہیں ہوئے۔ وہ اپنے حال میں مگن رہتے تھے۔ ان کی کہانیوں میں اپنا الگ انفرادی رنگ ہوتا تھا۔ ان کی کہانیاں گفتگو کا مرکز وموضوع بنتی تھیں اور وہ لوگوں کو
سوچنے سمجھنے کے لئے مجبور کر دیتے تھے۔ یہ ان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ پروفیسر فرمان فتح پوری صاحب کا خیال ہے کہ :
احمد ہمیش ایک کھرے بچے اور بے ریا کہانی نویس ہیں۔ اردو افسانہ نگاری میں خواہ وہ قدیم ہو یا جدید بحیثیت مجموعی ایک طرح کی ملمع کاری اور صنعت گرمی نظر آتی ہے۔ افسانہ میں گرد و پیش کی زندگی کا عکس ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ جیسا کہ زندگی واقعی ہے۔ احمد ہمیش یہ چاہتے ہیں کہ زندگی کو ٹھوس حقیقت کے طور پر پیش کیا جائے اور وہی پیش کیا جائے جو مشاہدے اور تجربے میں آیا ہے انھیں اشیاء و افراد کا ذکر کیا جائے جن سے فنکار کا واسطہ رہا ہے اور جن سے اس کے ذہن و قلب نے براہ راست اچھا یا برا اثر قبول کیا ہے۔“
حقیقت نگاری کی یہ بہت بڑی خوبی ہے اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے احمد ہمیش ہمیشہ دوسرے فنکاروں سے مختلف رہے۔ ان کا اپنا انفرادی رنگ رہا۔ احمد ہمیش ۱۹۴۰ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۵۸ء سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ شروع میں انھوں نے شاعری کی اور نثری نظمیں لکھیں پھر ۱۹۶۳ء میں ان کی پہلی کہانی بے زمینی کے عنوان سے شائع ہوئی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ۱۹۶۶ء میں لکھی کے نام سے ہندوستان میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ کی اہم کہانی کھی“ میں انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے درد انگیز واقعات کی تصویر کشی کی ہے۔ اس کہانی کا ترجمہ انگریزی میں بھی ہوا تھا۔ ان کا دوسرا مجموعہ ” کہانی مجھے کو لکھنی ہے“ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ مجموعہ ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا۔ اس میں کل گیارہ کہانیاں ہیں۔ ایک احمد ہمیش سے انٹرویو ہے بک شیلف میں محفوظ زمین کے عنوان سے جسے ان کے دوست ریحان صدیقی صاحب نے لیا تھا۔ ریحان صدیقی
اچھے شاعر اور انسان دوست آدمی تھے احمد ہمیش نے ان سے میری ملاقات ان کے گھر پر کرائی تھی۔ احمد ہمیش اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
میں کہانی یہ سوچ کر نہیں لکھتا میں روایتی کہانی لکھ رہا ہوں پانی، میں کہانی اس لئے لکھتا ہوں کہ کہانی ہی لکھ سکتا ہوں۔ یہ میرا مقدرہے۔
البتہ کہانی لکھنے کے بعد اسلوب ٹکنیک اور موضوعات کی بات آتی ہے اس بحث میں بھی میرے سوچنے کا ڈھنگ کہانی لکھنے کے پیشہ ورانہ رویے سے مختلف ہے۔ میں ادب میں رحجانات کی تبدیلیوں سے بے خبر نہیں ہوں ۔ رہا اسٹائل تو اسٹائل میرے ساتھ آیا ہے۔ بحیثیت کہانی کار میں خود سے کمیٹیڈ ہوں۔“ اس سے پروفیسر فرمان فتحپوری کی بات کی تائید ہو جاتی ہے کہ وہ ایک بچے اور کھرے افسانہ نگار ہیں۔ ان کی کہانی کے دو مجموعہ شائع ہوئے اولکھی“ اور دوسرا کہانی مجھے لکھتی ہے۔ مجھے ان کا مجموعہ کبھی دستیاب نہیں ہوسکا لیکن ان کی کہانی مکھی میں نے دوسرے مجموعہ ” کہانی مجھے معنی ہے ” میں پڑھا اس مجموعہ میں کل گیارہ کہانیاں ہیں، جس میں کہانی مجھے لکھنی ہے، فریاد کی لے، بے زمینی، گبرولا، چھپکلی بے دیوار سلمی اور ہوا، اگلا جنم ، پاگل کتے کی کھوج لکھی ، داستان پیش اور پیل، ہیں خواب میں ہنوز ، اس کے علاوہ ان کے دوست ریحان صدیقی کا ان سے لیا گیا انٹرویو جو کہ بہت کارآمد ہے۔ ان کی پہلی کہانی بے زمینی سے لے کر ہیں خواب میں ہنوز تک سبھی کہانیاں اپنا ایک اسلوب بیان اور اپنے الگ انداز کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ان کی کہانیاں زیادہ تر طویل ہیں کچھ مختصر بھی ہیں۔ انھوں نے کہانی کہنے کا علامتی انداز اختیار کیا ہے اور علامتوں سے بھر پور کہانیاں لکھی ہیں یہ بھی وجہ ہے کہ سیدھی سادی زبان میں کہانی پڑھنے والے لوگوں کو ان کہانیاں کم سمجھ میں آتی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ وہ دور ہی علامت نگاری تجریدیت کا دور تھا جس میں بلراج میشرا، انیس اشفاق، سریندر پرکاش اور پاکستان میں انتظار حسین انور سجاد اور احمد ہمیش وغیرہ کہانیاں لکھ رہے تھے یہ دور تقریباً ۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۰ء تک چلتا رہا پھر کہانی نے ۱۹۷۰ء کے بعد اپنا اسلوب تبدیل کیا اور کہانی میں کہانی پن کی بازیافت ہوئی۔ احمد ہمیش کی کہانیوں کے اس انداز اس اسلوب کی وجہ ان کے اس بیان سے ظاہر ہو جاتی ہے۔
رہا اسٹائل تو اسٹائل میرے ساتھ آیا ہے۔ بحیثیت کہانی کار میں خود سے کمیٹڈ ہوں۔
احمد ہمیش کی تمام کہانیوں میں علامت تمثیل اور تجریدیت سے کام لیا گیا۔ ان کی پہلی کہانی ” بے زمینی” سے لے کر آخر تک کی تمام کہانیاں اسی انداز ، اسی اسلوب، اسی اسٹائل کی ہیں۔ ان کی کہانیاں ایک بے حد ذہین اور جینیس شخص کی سوچ وفکر کا نتیجہ ہیں اس لئے ان کو سمجھنے کے لئے دماغ و ذہن کو بہت کشادہ کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں ان کے اس انداز بیان کی دو بہت اہم وجہیں ہیں اول تو ان کا ہجرت کا درد و کرب دوسرے وہاں کی فوجی حکومت جس نے ان کو اپنی باتیں علامتی اور استعاری زبان میں کہنے کے لئے مجبور ہونا پڑا ۔ آخر میں کہانی کی متعلق ان کے اس خیال کو بھی دیکھنا ضروری معلوم ہوتا جو کہ انھوں نے ہمیشیت کے عنوان سے لکھا ہے: ”ہماری کہانی کا اول و آخر رشتہ دار سورج ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس کائناتی نمائندہ ازل واہد، نے مشرق اور تصویر مشرق کا اجرا کیا۔ اول یہ کہ مشرق کوئی سمت نہیں۔ مشرق تو ازل سے ظہور ہمیشیت ہے یا کائناتی دائرہ ہے اور دائرہ میں کوئی سمت نہیں ہوتی اور اگر مغرب، شمال اور جنوب سمتوں کے فرض کئے ہوئے نام ہیں تب بھی سورج کہیں غروب نہیں ہوتا۔ نظر سے چھپ جاتا ہے۔
(ہمیشیت احمد ہمیش ) اس طرح سے احمد ہمیش کا کہنا ہے ہماری کہانی کی ابتدا ازل سے ہوتی ہے جو کہ ابد تک چلتی ہے۔ اس کہانی میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ آتی رہیں گی۔ اس دور کے لحاظ سے ان کے سمجھنے والے پیدا ہوتے رہے ہیں اور رہیں گے۔ احمد ہمیش نے اپنی کہانیوں میں کچھ خاص علامتیں تشکیل کی ہیں۔ جیسے ان کی پہلی کہانی میں ایک کتا ایک مرغی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہجرت کے اثرات تمام کہانی میں نظر آ جاتے ہیں ایک لمحہ میں وہ دلی پہنچ جاتے ہیں دوسرے لمحے میں وہ گوجرانوالہ پاکستان جس میں وہ لکھتے ہیں: خاتون اپنی جگہ پر اٹل۔ تم اندھیرے اور روشنی کے فرق کے باوجود بھی اسی مکان میں ہی رہو گے۔ یہ مکان جسے تم میرا کہتے ہو۔
حالانکہ ہر آنے والے کا مکان ہے۔“ اسی طرح کی باتیں انتظار حسین بھی اپنے ناول بہستی میں لکھتے ہیں کہ ایک مہاجر آج کسی مکان میں رہ رہا ہے کل اسی مکان کو کوئی اور لاٹ کروا لیتا اور وہ ان کو نکال کر خود رہنے لگتا پھر یہ ایک مکان دوسرے پھر تیسرے مکان میں شفٹ ہوتے رہتے ہیں۔ احمد
ہمیش لکھتے ہیں: راستے پر ان گنت عورتیں شیخ کے کسی نہ کسی مفہوم میں چیخ رہی ہیں۔ کئی عورتیں بغیر مکان ہاتھوں میں غیر مرئی باورچی خانے لئے کھڑی ہیں اور ان کی روایتی حسرت میں غیر مرئی آئے گوندھ رہی ہیں کہ کوئی آئے اور انھیں نسبتی رشتوں سے پکارے۔ مگر کوئی نہیں آتا۔ کوئی آئے گا بھی کیوں؟ راستوں میں سب کی بھٹکی ہوئی
آسودگیاں جلا وطن ۔ “ ( کہانی بے زمینی )
یہ ہجرت سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں جہاں ہر آدمی اجنبی ہے۔ کسی سے کوئی رشتہ نہیں سب تنہائی اور محرومی کا شکار ہیں۔ اسی طرح سے گہر ولا ، چھپکلی بے دیوار، پاگل کتنے کی تلاش پکھی وغیرہ ایسی علامتیں ہیں جن کے ذریعہ وہ ہجرت کی وجہ سے پیدا
ہونے والے دردوکرب کا بیان کرتے ہیں۔
احمد ہمیش ایک ذہین، محبت سے لبریز دل رکھنے والے بے لوث قسم کے انسان تھے وہ خود دار اور انسانیت پرست آدمی تھے میں جس زمانے میں ان سے پاکستان میں ملا وہاں فوجی حکومت تھی اس لئے وہ اپنے دوستوں کے خفیہ طریقہ سے ادبی محفلیں جماتے تھے۔ اسی زمانے میں صلاح الدین پرویز صاحب کراچی میں موجود تھے جو کہ پیسے کے دم سے ادیب و شاعر بنے تھے لوگوں کو خرید لیتے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ وہ احمد ہمیش کو بھی اپنے جال میں پھنسانا چاہتے تھے لیکن وہ ان سے ملنے سے گریز کرتے تھے۔ جب ان کے پاس بیٹھا تھا انھوں نے میرے ساتھی سے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں انھوں نے اپنے گھر کا پتہ بتایا تو انھوں نے ان سے کہا کہ وہیں پر فلاں صاحب رہتے ان کے گھر چلے جانا اور ان سے کہنا کہ احمد ہمیش کی طبیعت بہت خراب ہے وہ آج صلاح الدین صاحب سے نہیں مل سکتے ۔ میں کچھ نہ سمجھا پھر میں واپس ہندوستان آگیا کچھ دنوں کے بعد ان کا ایک خط ملا جس میں ٹریپ“ کے عنوان سے ایک مضمون کی فوٹو کاپی اور صلاح الدین پرویز صاحب کا خط اور ایک چیک کی فوٹو کاپی تھی۔ یہ تمام چیز میں انھوں نے اسرار گاندھی صاحب کو بھی بھیجی تھیں اور رسالہ آہنگ کے ایڈیٹر کلام حیدر صاحب کو بہار بھیجا تھا میں تمام چیزیں ویسے ہی رکھ دیں۔ پھر جب ” آہنگ” کا نیا شمارہ آیا تو اس میں سب چیزیں باقاعدہ ٹریپ عنوان سے شائع ہوئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ صلاح الدین پرویز صاحب
احمد ہمیش کو خریدنے کے لئے چیک سے پیسے بھیجے تھے جسے انھوں نے واپس کر دیا تھا اور ان کا تمام کچا چٹھا رسالہ ‘ آہنگ’ میں شائع کرا دیا۔ اس سے ان کی خود داری اور ان کے کردار کی تمام خوبیاں ظاہر ہو جاتی ہیں کہ وہ نہ تو لالچی تھے اور نہ کسی کے دباؤ میں آنے والے تھے۔ وہ ایک بچے کھرے اور بے لوث محبت کرنے والے انسان تھے۔ وہ مجھے رخصت کرنے میرے ماموں کے گھر گئے تھے اور جب میں وہاں سے نکلا تو میں پیچھے مڑکر دیکھتا رہا جہاں تک وہ نظر آئے میری طرف ایک ٹک دیکھتے ہوئے کھڑے اپنے ہاتھ ہلاتے نظر آئے حقیقت میں وہ مجھے رخصت نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ ہم لوگوں سے رخصت ہورہے تھے اور حقیقت میں وہ ہم سے رخصت ہو گئے ۔ اب ہم ان کو کبھی نہ دیکھ پائیں گے۔