ڈوبنے والوں کے خواب ۔۔۔ محمد جمیل اختر

ڈوبنے والوں کے خواب

 محمد جمیل اختر

اس ملک کے لوگوں کی نیندوں میں دکھ بھرے خوابوں نے بسیرا کر لیا تھا۔۔۔۔لوگ ہر تھوڑی دیر بعد چیخنے چلانے لگ جاتے، گھر میں کوئی نہ کوئی فرد جاگتا رہتا تاکہ ڈر کر جاگ جانے والوں کو بروقت پانی پلا کر حوصلہ دیا جا سکے ورنہ عموماً ڈرے ہوئے لوگ گھر سے نکل کر باہر کی جانب دوڑ لگا دیتے اور ایسے میں کئی ایک حادثات بھی ہو چکے تھے۔۔۔احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود ہر صبح کا اخبار ایسے حادثات کی خبروں سے بھرا ہوتا تھا جو خوابوں کے بھیانک مناظر دیکھنے کا نتیجہ تھے ۔۔

مثلاً ایک کسان کو خواب آیا کہ گزشتہ برس کی طرح اس دفعہ بھی اس کی ساری فصل سنڈیاں کھا گئی ہیں، وہ اور اس کے بچے گلی گلی بھیک مانگ رہے ہیں۔۔۔وہ اس خواب سے اس قدر پریشان ہوا کہ اسٹور روم میں جا کر سنڈیاں مارنے کی زہریلی دوا پی لی۔۔آخری خبریں آنے تک وہ سرکاریہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔۔۔

اکثریت کے خوابوں میں بھوک ایک مستقل منظر تھا۔۔۔

ایک پرائمری سکول کے استاد نے خواب میں دیکھا کہ اس کے دونوں بچوں کو راکٹ لانچر میں ڈال کر سرحد کی دوسری جانب پھینکا جا رہا ہے۔۔۔اب وہ انہیں گھر سے نہیں نکلنے دیتا۔۔۔

لوگوں میں دیکھے گئے خوابوں میں اس قدر یکسانیت تھی کہ انہیں تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاسکتا تھا۔

1: ماضی کے متعلق خواب :

عوام کی ایک بڑی تعداد ماضی کے بھیانک خوابوں میں گرفتار تھی۔۔۔وہ سوتے تو خوابوں میں ماضی کے کسی دکھ بھرے دن میں جاگ جاتے ، انہیں محسوس ہوتا کہ وہ کبھی بھی ان حالات سے باہر نہیں نکل سکیں گے حتیٰ کہ جاگنے کے کئی گھنٹوں بعد بھی خواب کا اثر زائل نہ ہوتا اور وہ خود کو ماضی کے دکھ کا گرفتار سمجھتے۔۔۔۔

ایسے ہی ایک مریض اور ماہرِ نفسیات کا مکالمہ :

” ڈاکٹر صاحب ، ہمارا گھر ٹوٹ گیا تھا۔۔۔اب ہم دوبارہ کیسے تعمیر کریں گے ؟”

” وہ پرانی بات ہے ، بھول جائیں۔۔”

” تو اس باریک مونچھوں والے دیو کا کیاکریں  جو اب بھی ہر رات مجھے آ کر ڈراتا ہے ، میرے آخری بچے کو بھی وہ لے جائے گا۔۔”

” ڈریں مت ، اب وہ نہیں آ سکتا ۔۔”

” لیکن ڈاکٹر صاحب ، وہ دیو گیا کب تھا۔۔۔؟ وہ تو اب بھی ہر گلی ، کوچے میں موجود ہے ۔۔”

” ہاں ہے تو مگر ڈریں مت۔۔۔”

2: حال کے متعلق خواب:

وہ لوگ جن کا حال انتہائی دگرگوں تھا ۔۔وہ زیادہ تر کسی پرندے کی شکل میں ایک پنجرے میں قید ہوتے اور اس کی سلاخوں سے سر ہی پھوڑتے رہتے ۔۔۔۔

” ہمیں نکالو ، ہمیں نکالو” وہ چیختے چلاتے تاہم شکاری چابیوں کا گھچا سمندر میں پھینک دیتا۔۔۔

3: مستقبل کے متعلق خواب:

والدین دیکھتے کہ ایک بہت بڑی بلا ان کے بچوں کو نگل رہی ہے ، وہ بھوکے ہیں۔۔۔موسم کبھی انتہائی سرد ہو جاتا ، برف گرنے لگتی  تو کبھی اچانک ہر طرف آگ بھڑک اٹھتی ہے۔۔۔بچے رونے لگ جاتے ۔۔۔لیکن وہ بلا انہیں نگلنے میں ذرا دیر نہ لگاتی۔۔۔۔

“مستقبل کے متعلق خواب” , بچوں اور نوجوانوں کو بھی آتے تھے۔۔۔ایسے خوبواں میں وہ خود کو ایک تاریک کمرے میں قید پاتے ، وہ ساری ساری رات اس تاریک کمرے میں دروازہ تلاش کرتے رہتے تاہم انہیں دروازہ نہ ملتا ۔۔۔۔جاگتے ساتھ ہی بچے اپنے مجبور والدین سے شکایت کرتے کہ ہمیں اس تاریک کمرے میں کیوں جنم دیا تھا۔۔۔؟

ایسے خوابوں کے ساتھ آدمی کیوں کر سو سکتا ہے ،اس لیے زیادہ تر لوگ راتیں جاگ کر گزارنے لگے۔۔۔۔

عوام کا حکومت سے مطالبہ تھا کہ ہمیں ہمارے خوابوں سے نجات دلائی جائے یا کچھ ایسا کیا جائے کہ خواب کچھ کم خوفناک مناظر لیے ہوں۔۔۔

یہ بات بہت اہم ہے کہ اس ملک کے طاقتور حلقوں کا ان خوابوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔۔۔وہ اتنی پرسکون نیند سوتے کہ بعض اوقات ان کو جگانے کے لیے لوگ خود کو آگ لگا دیتے ، ایسا کرنے کے باوجود وہ کروٹ بدل کر سو جاتے۔۔۔اور اپنے ماتھوں پر لکھوا دیتے کہ ہم جاگ رہے ہیں۔۔۔۔

جب ان کی آنکھ کھلتی اور کوئی انہیں بتاتا کہ کئی لوگ خودکشی کر چکے ہیں تو آنکھوں میں نقلی آنسو بھر لاتے ، پھر انہی مر جانے والوں کی لاشوں کو لے کر اپنی معیشت چلاتے۔۔۔۔

سال ہا سال گزرتے گئے اور خواب مذید اذیت ناک ہوتے چلے گئے۔۔۔۔

اشرافیہ جو ان خوابوں کی اذیت سے ناآشنا تھی ، انہیں صرف اتنا معلوم تھا کہ خوابوں کی  اذیت ناکی میں جیسے جیسے اضافہ ہوگا ، مقتدرہ حلقوں کی اہمیت اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی۔۔۔دکھ بھرے خواب ہی ان کی معیشت کا سہارہ تھے۔۔۔

وہ ہر تھوڑے عرصے بعد ایک میلے کا انعقاد کرتے جس میں وہ اپنے اپنے جھنڈے لے کر آتے اور لوگوں کو یہیقین دلاتے کہ ان کے پاس لوہے کا ایک ایسا جادوئی کنٹینر ہے جس کے اندر جاتے ہی لوگوں کو ان کے برے خوابوں سے نجات مل جائے گی۔۔۔۔

آج پھر میلہ سجا ہے ، مداری اپنی اپنی آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔۔۔

ایک مداری آواز لگاتا ہے :

” بنا خوابوں کے کمرہ ، شاندار اور بہترین نیند والا کمرہ ،

آپ اس کمرے میں داخل ہو جائیں ، یہ برے خوابوں سے نجات کا کمرہ ہے ، آپ گھنٹوں بنا خواب کے سو سکتے ہیں ۔۔اور اگر کوئی خواب آیا بھی تو وہ ایسا شاندار ہو گا کہ آپ کا جی چاہے گا کہ ہمیشہ سوتے رہیں۔۔

پہلے آئیں ، پہلے پائیں ۔۔بس ایک انگوٹھا لگائیں اور کنٹینر میں داخل ہو جائیں۔۔”

لوگ اکھٹا ہونا شروع ہو گئے۔۔۔

” ایسا بھلا کیسے ممکن ہے ؟ ” ہجوم میں سے کوئی پکارا

” خوابوں کے بغیر بھلا کون سی نیند ہوتی ہے ؟” ایک آواز

” جھوٹ ہے ، جھوٹ ہے۔۔۔” کئی آوازیں ۔۔۔لیکن کچھ لوگ خوشی سے ناچتے گاتے کنٹینر میں داخل ہو جاتے ہیں۔۔۔

دوسرا مداری اپنے کنٹینر پر چڑھ کر چلانے لگ جاتا ہے۔۔۔

” وہ مداری جھوٹا ہے ، مکار ہے ، اس نے پہلے بھی لوگوں کو برے خوابوں سے نجات کا بتا کر دھوکا دیا تھا ۔۔آپ لوگ ایک بار میرا نیا اور صاف ستھرا کنٹینر استعمال کریں۔۔۔اس میں پرانا کچھ بھی نہیں ، بس آپ میرا اعتبار کریں۔۔۔”

” کیا تمہیں کبھی بھوک کے اذیت ناک خوابوں نے پریشان کیا ہے ؟” ہجوم سے کوئی پکارا

” نہیں مجھے ایسا خواب تو کبھی نہیں آیا لیکن” مداری

“اور تمہارے بچوں کو ؟” ہجوم سے ایک آواز

” نہیں،  انہیں بھی نہیں آیا لیکن میں تمہارا دکھ سمجھتا ہوں۔۔۔بس ایک انگوٹھا لگاؤ اور اپنے سارے غم بھول جاؤ۔۔۔۔”

ہر طرف میلے کا سماں ہے ، لوگ ناچتے گاتے ، ایک دوسرے کا گریبان پھاڑتے مختلف کنٹینرز میں داخل ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔

جہاں جا کر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ برے خوابوں کا سلسلہ مستقل جاری ہے کہ مداری تو ایک کٹھ پتلی کے سوا کچھ بھی نہیں اور پھر یہ کہ اذیت ناک خواب ہی تو اس ملک کی معیشت کا سہارے ہیں۔۔۔۔۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031