ابھی مت مرو ۔۔۔ ممتاز حسین

ابھی مت مرو

ممتاز حسین

اور میں نے اپنے جسم پر

پت جھڑ کا لبادہ اوڑھ لیا

سانپ نے اپنی کھال چھٹک کر

میری ڈیڑھ ستر ڈھانپ دی

غربت کا کشکول اوندھے منہ یوں لیٹا تھا

جس سے میرا شکم ماتمی کے خون سے

بھر گیا تھا

جو اس نے مفلسی کی زنجیرنی

سے اکٹھا کیا تھا

میں تو پھر بھی بھوکا تھا

پیٹ کا بھوکا پیالہ کھنک رہا تھا

ٹوانہ سے

جیسے حاملہ فاحشہ

کے ٹخنوں سے بندھے گھنگرو

جو کنجری بنی اپنی ذات کو گھٹا رہی تھی

دولت سے مال و مال دولتانوں اور ٹوانوں کی ٹپکتی

رالوں کو اپنے ہونٹون پر مل رہی تھی، سرخی کی جگہ

میں نیم عریاں نیم کے درخت کے نیچے کھڑا

پت جھڑ کے پتوں کو اپنی آنکھ کی سوئی سے سی رہا تھا

تاکہ میں دوڑ سکوں اولمپکس کے مقابلے میں

بھوک کی دوڑ میں جیتے ہوئے مقابلے کا میڈل

میری اپنی ہی میت کے سینے پر رکھا ہے

چیونٹیاں اپنے لنچ کا ساماں اپنے سروں پر لادے

میرے کانوں میں اذان دے رہی ہیں

اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبراللہ اکبر

خدا عظیم ہے جو بھوکوں کو کھانا

دے رہا ہے

ابھی مت مرو

خدا خود روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا رہا ہے

آسمان کے مکان میں بھوک کی کھڈی پر روٹی بن رہا ہے

ابھی مت مرو

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031