نظموں کا جیب کُترا۔۔۔ نبیلہ عصمت
نظموں کا جیب کترا ۔۔۔۔ مسعود قمر
نبیلہ عصمت
پچاس برس گذرے لائل پور کا مہینوال جنوب کی جانب روانہ ہوا۔دشت دشت کی سیر کرتے سندھو کے کنارے آباد ایک چھوٹے سے شہر لیہ کی ایک چھوٹی سی گلی میں ایک لڑکی سے ایسا ٹکرایا کی پھر اکیلے واپسی کا سفر ناممکن ہو گیا۔اس سوہنی نے مسعود قمر کے دل میں یوں پڑاؤ ڈالا کہ پھر کبھی ہجرت نہ کرسکی۔لیہ کی سوہنی اتنی عقلمند تو تھی کہ کچے گھڑے پر اعتبار کرنے کی بجائے پکا رشتہ استوار کرتے لائل پور چلی آئی یوں دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔خوشی بھی خانہ بدوش ہوتی ہے کبھی ٹک کر ایک جگہ نہیں رہ سکتی اس کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔اسی طرح سوشل میڈیا کی نیل پری جگت آپا ہے جو دنیا کو ایک خیمے میں بٹھانے پر تلی ہوئی ہے یہاں لوگ آتے ہیں کچھ سنبھل کر اپنی جگہ بیٹھ جاتے ہیں سب کی سنتے اور کبھی کبھی اپنی سناتے ہیں اور کچھ ۔۔۔خیر جانے دیجیے
مسعود قمر بائیں بازو سے تعلق رکھنے کی سزا میں ضیاء الحقی دور میں مارشل لائی استبداد سے لڑتے لڑتے آخر عازم سویڈن ہوئے جہاں وہ سٹاک ہوم میں عرصہ تیس سال سے مقیم ہیں۔ نظم کے شاعر ہیں۔ان کی نظموں میں مشرق و مغرب کا امتزاج ایک ایسی دنیا کی تشکیل کرتا ہے جہاں فطرت اور انسانیت مساوی اہمیت رکھتی ہیں۔تجریدی خیالات اور عملی اصولوں کا یہ ملاپ ہمیں ایک متوازن دنیا دکھاتا ہے جہاں بارش کی رم جھم ،ہوا کی سرسراہٹ اور سیبوں کے باغات کی خوبصورتی عقل و خرد سے بیگانہ نہیں کرتی بلکہ عملی طور پر انسانی حقوق کے تحفظ اور اصولوں کی پاسداری کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ ان کی نظموں میں بارش کی نرم پھوار اور دھند کی دبیز چادر سے کبھی دیوار سے لٹکا خواجہ سرا جھانکتا ہے تو کبھی مسنگ پرسنز کے پیچھے رہ جانے والے اپنے پیاروں کی چیزوں کو دیکھ دیکھ جیتے ہیں اور فضاؤں میں لکھا پوسٹل ایڈریس ڈھونڈتے ماں جیسی ریاست تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسعود قمر کا تکیہ نظموں سے بھرا ہے۔وہ ہر صبح ایک نئی نظم نئے خیال کے ساتھ تکیے سے نکالتے خواب بن جانے کا خواب دیکھتے ہیں جہاں آزادی میں جکڑے لوگ بستے ہیں۔
“بارش بھرا تھیلا” کا دیباچہ فطرت سوہان نے لکھا اور کیا عجب فسوں پھونکا ہے کہ قاری نظموں سے نکلتا تو دیباچے میں ڈوبتا ہے لکھتی ہیں
“مسعود!
یہ میں ہوں تمہاری ۔۔۔۔۔۔تمہاری فطرت ۔۔۔۔تم نے مجھے بھی ایک نظم سمجھ کر پھانس لیا ہے اور اب میں بھی تمہاری بارش بھری زنبیل میں بہت سی نظموں کے ساتھ پڑی ٹھٹھر رہی ہوں ۔ہمیں آزاد کرو یا بوڑھے آتش پرست کو سونپ دو کہ وہ اپنی تاب کاری سے ہماری ٹھٹھری سانسیں بحال کرکے اپنا الاؤ روشن کرسکے”
پھر لکھتی ہیں
“سنو مسعود تمہیں نظمیں لکھنے کے لیے کنویں سے پانی نکالنے جتنا زور نہیں لگانا پڑتا ،اکیلے بس میں سفر کرتے دو ٹکٹیں خریدنا پڑتی ہیں۔تمہاری نظموں کے مصرعے فرانسیسی وائن اور روسی واڈکا سے جلا پاتے اور ان کے عنوانات سکاچ وہسکی تراشتی ہے”
دھوپ،سمندر،درخت،موت اور عورت ان کی شاعری کے خصوصی موضوعات ہیں۔ ان کی نظم کی عورت کوئی دیو مالائی کردار نہیں وہ نہ دیوی ہے نہ جل پری بلکہ سیدھی سادی،جیتی جاگتی،چلتی پھرتی اپنے مکمل انسانی روپ کے ساتھ نظموں میں اترتی ہے ۔ ان کی نظموں کا اچھوتا پن ان کی منفرد سوچ کو بیان کرتا ہے۔ان کی نظموں کے موضوعات سماجی اور بنیادی دائرے توڑ کر باہر آ جاتے ہیں ۔ان کی شاعری فرد اور اس کے جوہر کی تلاش ہے اس کی آزادی ہے
ہر وقت عورت میں
عورت پن
نہیں ڈھونڈنا چاہیے
کیا ہر مرد میں
مردانہ پن ہوتا ہے ( خالی پن)
عورت اور مرد کے روایتی رشتے کی نفی کرتے اور اسے بند گلی سے باہر نکالنے کی خواہش اور کوشش کرتے ہیں
ہم کب تک ایک دوجے کو
اپنے اپنے اندر سے نکالیں گے
ہم
کب ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے
(اس کے نام پہلی نظم)
وہ زندگی کو ادھر ادھر تلاش نہیں کرتے بلکہ زندگی ان کے کافی کے کپ کے ساتھ پڑی ہے
زندگی تمہارے اس
کافی کے کپ کا نام بھی ہے
جو میرے سامنے پڑا ہے
تمہارے بغیر۔ (کافی کے کپ کے ساتھ پڑی زندگی)
بند معاشرے میں عورت کی زباں بندی اس کی زندگی کی ضمانت ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ جب وہ بولی تو سماج کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے
جت جاتی ہو ہر کام
سوائے محبت کے
میں نے جب نامکمل نظم
اسے سنائی تو اس نے کہا
پلیز آپ اس نظم کو پھاڑ دیں
کہیں
میں بولنے نہ لگ جاوں
عجیب بات ہے صنفی امتیاز میں جکڑے معاشرے کا ایک شاعر لڑکیوں کو پہلی محبت کا پہاڑہ پڑھانے سے منکر ہے اور وہ اس محبت کی آواز سننے کے لئے سمندر کنارے جانا پسند کرتے ہیں جہاں وہ لڑکی سمندر کے درمیان گنگنا رہی ہو اور شاعر اور سمندر اسے سننے کے لئے سانس روکے بہتے رہیں۔
(برف کبھی بھی آگ بن سکتی ہے)
لڑکیاں برقعوں کو سیج پر لٹا کر
دیوار پر چاک سے
روشن دان بنانے میں جتی ہوتی ہیں
برقعے پیدائش
اور لڑکیاں
دیوار پر روشن دان بننے کی منتظر ہیں۔ ( حاملہ برقعے)
بند سماج میں سوچ پر پہرے ہونے سے تخلیق کا عمل ختم ہو جاتا ہے اور صرف چٹخورہ پن باقی رہ جاتا ہے
ہمیں خود کو حاملہ کرنے کے کتنے مواقع ملے
مگر
چٹخورہ عادت کے سبب
اب ہماری پیدائش
گندی نالیوں میں بہہ رہی ہے۔ (چٹخورے باز)
محبت زندہ رہنے کے جواز تلاش کر لیتی ہے صنعتی دنیا فیشن شوز ،ادبی اجلاسوں اور ایوارڈ کی تقریبات کی چکا چوند دکھا کر ایسا وقت لے آتی ہے کہ انسان اس دوڑ میں محبت کرنا بھول جاتا ہے اور دی جانے والی پھانسی کی سزا کے انتظار میں محبت کرتا جاتا ہے معاشی زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں پیچھے رہ جانے والی محبت کا پھندہ نہ تنگ ہوتا ہے کہ جان نکلے اور نہ آزاد ہونے دیتا ہے۔موت کا انتظار موت سے اکتاہٹ پیدا کرتا ہے
مجھے
پیدائش کے لیے
خود کشی کرنی پڑے گی
میں
موت سے تنگ آگیا ہوں
پل کی لکڑی کے لیے بہت سے
درخت کاٹنے پڑتے ہیں
خود کشی سے ہوئی موت
مجھے پل بنا سکتی ہے۔ (موت سے اکتاہٹ)
ایک صنعتی شہر سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ آڑھت اور اس سے جڑے کاروبار کی طاقت سے آشنا ہیں ۔آڑھت کی دکان کا افتتاح ہو اور نظموں کی کتاب کی رونمائی تو زیادہ کمائی گھٹیا فصل سے ہی ہو سکتی ہے۔کاروبار،پیسہ اور زیادہ سے زیادہ کمانے کی طلب محبت کرنے کا وقت نہیں رہنے دیتے۔سماجی دباؤ بدلے کی سیاست کو بڑھاوا دیتا ہے۔
شہر کے درخت کہاں گئے ؟
وزیر جنگلات نے کٹوا دئیے
شہر کے باغات کہاں گئے ؟
وزیر تعمیرات نے
ان میں پلازے اگا دئے
شہر کے سکول کہاں گئے ؟
وزیر جیل نے ان میں
بیرکیں بنوا دیں
شہر کے طالب علم کہاں گئے؟
جیلوں میں بیٹھے انقلابی گیت
نیفوں میں چھپانے کی مشق کر رہے ہیں
شہر کے مجرم کہاں گئے؟
اقتدار کے ایوانوں کی رونق بنے
شہر کے تھیٹر اور سینما گھر کہاں گئے ؟
آڑھت کی منڈیوں میں تبدیل ہو گئے
شہر کی لڑکیاں کس کونے میں ہیں ؟
دادیاں نانیاں بنیں
محبت کی شادیاں رکوا رہی ہیں
مسعود قمر کی نظمیں حقیقت اور سچائی کی ایسی عکاس ہیں جو ترقی پسند ادب کا خاصہ ہے۔وہ حقیقت کی بےرحم عکاسی کرتے ہیں ان کا نشتر ایک ہی وار میں جھوٹ کی قبا تار تار کر دیتا ہے
جہاز چیختے ہیں
اور دنیا کانوں پر ایم پی تھری لگائے محو رقص ہے
کوڑا کرکٹ پر گدھ بچوں کو نوچ رہے ہیں
مگر
کمپنیاں صاف ستھرے گوشت کو
پیکٹوں میں محفوظ کرنے کے نت نئے
طریقے سوچ رہی ہیں۔ (چھاتیوں سے محروم مائیں)
آرٹ گیلریاں رنگوں کے نئے نئے معانی پر سیمینار کرواتی ہیں اور مغنی کے سر اور تال بارودی سرنگوں سے ٹکرا کر بے آواز ہو جاتے ہیں ۔استعمار کی ثقافت ہر روز نیا تشدد ایجاد کرتی ہے تنہائی کا قحط ہے پورا دن بھوکا رہنے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے بینکوں کے کھاتے پورے کرتے کرتے انسان صرف بھوک کھا سکتا ہے۔ ( تنہائی کا قحط)
ہم پیشہ ور سوگوار ہیں
ہمارا شمار دنیا کے بڑے
سوگواروں میں ہوتا ہے
چھوٹا موٹا سوگ تو ہم
ریلوے اسٹیشن پر کھڑے کھڑے
بھری بس میں چڑھتے چڑھتے
اور
رش میں جیب کتری کرتے کرتے منا لیتے ہیں
میرے خیال میں عالمی طاقتوں کے مظالم میں ہمارا ہر طرح کا کردار اس نظم میں نظر آتا ہے۔ہم ظالم کے ساتھ ہوتے ہوئے مظلوم کا دکھ منانا جانتے ہیں
آمریت ہمارا المیہ ہے مگر مسعود قمر ایسے حالات میں بھی محبت کی سرسوں اور انسانی رنگت کے گلاب کھلانا جانتے ہیں۔انسان جو نسلی تعصب کا شکار ہے نہیں جانتا کہ پھولوں کی طرح ان کے بھی مختلف رنگ ہیں جو پھولوں کی طرح خوبصورت ہیں
(محبت کی سرسوں)
پھول زنگ آلود تالوں میں بھی آگ آتے ہیں اور چھاؤنی کی دیوار پھاڑ کر بھی
چھاؤنی بنانے والے بھول جاتے ہیں
پھول چھاؤنی کی دیوار
پھاڑ کر بھی آگ آتا ہے۔ ( نظموں بھرا تکیہ)
مسعود قمر آپ خواب دیکھنا اور خواب جینا جانتے ہیں اس لیے خوابوں بھرے تکیے پر سر رکھ کر سوتے ہیں ان باکس میں سفید گلاب بھیجتے ہیں اور پیغام لکھنے والی کا جواب لکھنے میں جل گیا پراٹھا بڑی محبت سے کھاتے ہیں ۔اپ پودوں کے درخت بننے سے پہلے مور پنکھ کی شاخوں کے پر لگا کر جنگل میں رقص کرتے کرتے مور بن جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔انسان زندگی بھر محبت کی ریز گاری اکھٹا کرتے کرتے تابوت میں جا سوتا ہے
ہمارے حصہ میں
زمین پر پھینکی محبتوں کی وہ ریز گاری آئی
جسے لے کرجب ہم
پھولوں اور تابوت والی دکان پر گئے
تو ہم نے خود کو
پھولوں کے بغیر تابوت میں پہلے سے لیٹے پایا
(محبت کی ریز گاری)
مسنگ پرسنز کے حوالے سے آج بھی ریاست کا جبر ختم نہیں ہوا نظم میں دونوں جوتوں میں پاؤں ڈالنا چاہتی ہوں اسی درد کا اظہار ہے جن کے پیاروں کو ریاستی دہشت گرد دن دیہاڑے غائب کر دیتے ہیں اور ان کی یادوں کے ساتھ ان کے استعمال کی اشیاء گھر والوں کا سرمایہ بن جاتی ہیں ۔یہ نظم دردناک المیہ ہے ۔باپ کی عینک کی ایک آنکھ دہلیز کے باہر اور دوسری ٹارچر سیل کے اندر بیٹی کی والد سے گہری وابستگی اور محبت کے ساتھ جسمانی اور ذہنی استحصال کی تصویر کشی ہے جو باپ کی تصویر دیکھتے دیکھتے جوان ہوئی۔نظم ہم بہت ہیں بھی اسی دکھ،بےبسی اور شدید جذباتی درد کا احساس ہے
ہمارے تلوں کے چھالے
ہمارے پاؤں کے خواب بن جاتے ہیں
دسمبر کی سرد راتیں
جب ہمارے جسموں کو منجمد کرنے لگتی ہیں
تو ہم حراستی مراکز میں
جلتے جسم پہن لیتے ہیں
ظلم کے باوجود بندی خانوں میں زندگی جیتی ہے مگر انصاف مر جائے تو قبرستان آباد ہو جاتے ہیں
جلاد تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنا
اور
لوگوں نے انصاف کے ترازو میں
پڑے باٹ کے ہار
جلاد کے گلے میں ڈال دئیے
تو میری موت واقع ہو گئی
(انصاف نامی قبرستان کی ایک مجرم قبر)
مذہبی بیانیہ معاشرے کو انحطاط کی جانب لے جاتا ہے نظم برفیلی سرنگ کے قیدی میں سورج کا سوا نیزے پر انا، ججوں کا سفید وگیں اتار سفید گول ٹوپیاں پہن لینا،فیصلے مناجات کے زیرِ اثر کرنا پورے ماحول کو سامنے لے آتا ہے۔ماں جیسی ریاست کیسے اپنے بچوں کو پالتی ہے کہ مزدوروں کا دن بھر سخت مزدوری کرنا ،قحبہ خانوں میں موجود عورتوں اور اخباری ہاکروں کی آوازیں ،بسوں کے تیز ہارن،ایدھی ایمبولینس کے نغمے لاکھوں اذانوں کے ساتھ طالب علم اور لاپتہ افراد کے ورثاء کی بےبسی اور کم مائیگی کا ایسا شور جو نہ ماں سنتی ہے نہ اس سے جڑے ادارے (ماں جیسی ریاست) ایسے ہی ماحول میں پیدا ہونے والے بچے کا نام حبس رکھا جاتاہے ۔جعلی نکاح ناموں پر خدا کے دستخط ہوتے ہیں ۔شادی محبت کرنے کے لیے نہیں بلکہ بیویوں کے پڑوسنوں سے کشیدہ کاری کے نمونے سیکھنے ،سوئٹر بننے اور بچے پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور مرد اپنے فرائض پورے کرنے میں لگا رہتا ہے
(جعلی نکاح ناموں پر خدا کے دستخط)
ہنی مون مناتے گدھ استعمار کی کیسی زندہ تصویر کشی ہے نقشہ نویس کو پھولوں کا باغ ،قبرستان اور دلہن کا گھر ساتھ ساتھ بنانا پڑتا ہے
لاشوں پر پھول ڈالنے کے لیے
اور پھولوں کو لاش بنانا پڑتا ہے
پسماندگان کی چیخوں میں
کفن سیتے درزی کے بچوں کی فیس
قہقہے لگاتی رہتی ہے۔ (ہنی مون مناتے گدھ) محبت کبھی پلید نہیں ہوتی زبردستی جوڑے گئے رشتے پلید ہو سکتے ہیں ۔عورت ناپسندیدہ آدمی کے ساتھ زندگی گذار بھی لے مگر اپنے پیٹ میں موجود بچے کے کان میں اس آدمی کی اذان دیتی رہتی ہے جس سے اس نے محبت کی مگر خدا پلید شبد کو مسترد کر دیتا ہے( پلید شبد)
موت مسعود قمر کی ایسی محبوبہ ہے جس سے وہ بیک وقت محبت بھی کرتے اور نفرت بھی۔وہ صاف شفاف موت چاہتے ہیں خود کشی موت کو داغ دار کر دیتی ۔انسانی زندگی کی بقا قبر کی موت سے سے ممکن ہے
میں قبروں کا پیدائشی ہوں
کچھ قبروں کی اور میری پیدائش ایک ساتھ ہوئی
میری زبان نے پہلا ذائقہ
قبر کی مٹی کا چکھا
شاعر خوابوں کے ٹائپسٹ ہیں ان کے خواب آنکھیں ڈھونڈتے اور آگ بھری تخلیق کرتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں ملکیت والے الفاظ زندگی اور شاعری میں نہیں آنے چاہئیں کیونکہ خود کو کسی کی دسترس میں دینا دراصل کسی کو اپنی دسترس میں لینے کی خواہش ہے آزادی کی پتنگ دروازے کے ساتھ لٹکی رہنی چاہیے ۔گملے میں محبت اگا کر اسے مٹی کے سپرد کردیا چاہیے تاکہ وہ اپنی جڑیں خوب پھیلائے۔خوشی اور غمی جڑواں بہنیں ہی تو ہیں ۔خوشی کی عمر کم ہوتی ہے وہ چھوٹی عمر سے ہی بیمار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔نظم کے بغیر محبت صرف پیٹ بھر کھانا ہے۔خواب کو قبر میں سونے سے انکار کرنا چاہیے کیونکہ قبریں بھی شور سے بھری ہوتی ہیں ۔
اپنے ماحول سے ہجرت کرنے والے اس دکھ کو سمجھ سکتے ہیں جو انہیں نئی دنیاؤں کی تلاش میں ملتے ہیں ۔نئی جگہوں ،نئے روابط اور نئی ثقافت کو اپنانا اور اس میں بس جانا اتنا بھی آسان نہیں ۔یہ تجربات مسعود قمر کو ایسے برف زار میں ہوتے ہیں جہاں گھاس سوکھنے کے انتظار میں نظم پڑھنے سے انکاری ہے کیونکہ وہ ان کی زبان نہیں جانتی۔وہ آئینے میں جنم لیتے ایسے آدمی کو دیکھتے ہیں جو ان جیسا ہوتے بھی مختلف ہے ۔زندگی اتنی آسانی کے ساتھ کافی کے کپ کے ساتھ رکھے تحفے میں ملے سکارف کے ساتھ نہیں گذاری جا سکتی۔کونیاک،وہسکی سگار اور ایوا کے سیب بھی دھرتی سے دوری کے دکھ کو کم نہیں کرتے۔جانسن کو پوتے کے ساتھ کھیلتے دیکھنے کی خوشی کہیں دور بسے کسی اپنے کی جدائی کی ہوک دل میں پیدا کرتی ہے مگر مسعود قمر برف میں جمی زندگی میں بھی حرارت ،توانائی اور زندگی تلاش کر لیتے ہیں ۔اپنی جنم بھومی سے محبت ،وہاں کے لوگوں سے لگاؤ اور تعلق بنائے رکھتے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ سویڈن کے شہر سٹاک ہوم کی کسی گلی کے ایک گھر میں لائل پور سانس لیتا ہے ۔
( مسعود قمر کی وال سے)