کھٹے آم کی تلاش ۔۔۔ ناصر کاظمی

کھٹے آم کی تلاش

ناصر کاظمی

غالب نے آموں کے بارے میں کہا تھا کہ میٹھے ہوں اور بہت سے ہوں۔ خواجہ

میر درد کے کلام میں میٹھے آم تو یقیناً موجود ہیں مگر وہ بہت تھوڑے ہیں اور کھٹا

آم شاید خال خال ہی ملے ۔ یوں کھٹا آم کھانے کی چیز نہیں مگر میٹھے آم سیر ہو

کر کھانے کے بعد کھٹا آم عجب مزا دیتا ہے ۔ درد کے باغ ِشعر میں تو بس دو ایک

قسم کے آم ہیں اور وہ بھی بالعموم قلمی قسم کے صوفیانہ آم ۔ دیسی رسں بھرے

رنگا رنگ آموں کی ڈھیریاں تو خدائے سخن میر کے باغ ہی میں ملیں گی جن پر

عوام تو کیا خواص بھی جان چھڑکتے ہیں ۔

میں اس وقت لکھنے بیٹھا ہوں درد کی شاعری پر اور لے بیٹھا ہوں قصہ

آموں کا۔ مگر گھبرائیے نہیں ، آموں نے غالب کی شاعری کو کوئی نقصان نہیں

پہنچایا بلکہ  اس کا ذائقہ شعر تیز تر کر دیا ۔ اس لیے بارے آموں کا بیاں ہو جائے

تو کیا مضائقہ ہے۔ فن باغبانی سے معمولی سی دلچسپی رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ آم کا پودا پیوند کے بغیر پھل نہیں لاتا اور اگر اتفاق سے پھل بھی لے آئے تو وہ

مقدار میں بہت تھوڑا ہوتا ہے اور ذائقے اور خاصیت میں نہایت ہی گھٹیا قسم کا۔ پس شعر کو بھی آم کا پودا جانیئے کہ اس کا پودا بھی رنگا رنگ خیالات اور تجربات کے پیوند کے بغیر عمدہ پھل نہیں لا سکتا ۔

ایک شاعری ہی پر کیا موقوف ہے ، دو چیزوں کے ملاپ کے بغیر کوئی تخلیق

ممکن نہیں ، تو آیئے پہلے یہ دیکھتے چلیں کہ درد نے کن کن خیالات کا پیوند لگا

کر اپنی شاعری کی داغ بیل رکھی ہے ۔ درد کے اچھے شاعر ہونے میں کس کو کلام

ہو سکتا ہے مگر تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے ان کی شاعری کے ساتھ تصرف

کی چونچ لگا رکھی ہے۔ اس کے خوف سے میں شروع شروع میں ان کے دیوان

کو محض تصوف نامہ سمجھ کر طاق پر رکھ دیتا تھا۔ یوں اردو کے اچھے سے اچھے

بڑے سے بڑے شاعر کے کلام میں تصوف کی چاشنی موجود ہے بلکہ صوفیا نہ خیالات

طرہ امتیاز رہا ہے مگر کسی شاعر پر محض تصوف کا ٹھپہ لگا دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ یہ تو ایک خوبی کی بات ہے کہ ایک صوفی شاعر بھی ہو مگر نرا صوفی اول تو شاعر ہو ہی نہی سکتا اور اگر ہوگا تو یک رنگ ہو گا۔ شاید اسی لیے میر درد

کے کلام میں جا بجا تصوف کی چھاپ دیکھ کر میں نے بقول آزاد انہیں آدھا شاعر کہا

تھا۔ خیر یہ تو ہم آگے چل کے دیکھیں گے کہ درد کس پایے کے شاعر ہیں۔ اس وقت

تو بات تصوف کی ہورہی تھی ۔ اکثر نقادوں نے کمال یہ کیا ہے کہ جن شاعروں کے

کلام میں صوفیانہ خیالات کے الفاظ کی بہتات دیکھی اور کسی طرح جب انھیں یہ

معلوم تھا کہ وہ شاعر ایک صوفی منش انسان تھے تو انھوں نے ان شاعروں کے

سے سیدھے سادھے عشقیہ اشعار پربھی تصوف کی اورھنی ڈال کر اصل بات کو چھپانے کی کوشش کی ہے کہ مبادا شاعر کی ذاتی شرافت اور نجابت پر کوئی حرف آئے۔ شرفاء کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ شرافت اور شاعری کا پیوند نہیں لگ سکتا۔ شاید

ایسے ہی شرفاء یا فقراء کے بارے میں میر صاحب نے کہا تھا۔

تصوف میں سب ڈال دیتے ہیں بات

        خدارس کہیں ہیں یہ توحید ہے

یہ درست ہے کہ میر درد ایک صوفی ہیں مگر ان کا تصوف بزرگوں کے فیض صحبت

یا تصوف کی کتابوں تک محدود نہیں۔ وہ پاکباز ضرور ہوں گے مگر انہوں نے ایام

شباب میں زمین کے حسن کی رعنائیوں کو خاصے قریب سے دیکھا اور ڈوب کر آن

سے والہانہ محبت بھی کی۔ البتہ مجموعی طور پر ان کے اکثر اشعار پر تصوف کی پری کا سایہ ضرور نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے کہیں کہیں سیدھے سائے مضامین زمین سے زرا دور ہو گئے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے درد کا ایک اہم شعر ہے جو

تصوف کے ایک اہم بنیادی مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

شخص و عکس اس آئینے میں جلوہ فرما ہو گئے

 ان نے دیکھا اپنے تئیں ہم اس میں پیدا ہو گئے

درد کے دیوان میں اس نوع کے بہت سے اشعار نظر آتے ہیں جن میں خدا ،

کائنات اور انسان کے باہمی رشتوں کو تصوف کے فلسفے کی لڑی میں پرونے کی

کوشش کی گئی ہے۔ شخص عکس اور آئینہ مذکورہ بالا شعر کے کلیدی الفاظ ہیں۔ یہاں

شخص سے خدا کی ذات مراد ہے، عکس اس کا نیا مظہر اور آئینہ کائنات ۔مطلب

ہوا کہ خدا نے اپنے آپ کو دیکھنے کے لیے کائنات کو تخلیق کیا اور اسی عمل کے

دوران انسان بھی وجود میں آگیا ۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ خدا نے کائنات کو کسی طرح

اور کیونکر تخلیق کیا۔ مختلف مذاہب نے اس کی مختلف تاویلیں کی ہیں۔ مسلمان

صوفی شعراء نے جہاں ایران اور یونان سے تصوف کے خیالات لیے وہاں انھوں

نے ہندو دھرم سے بھی بہت کچھ لیا ہے ۔ کچھ لیا ہے ۔ ایک جدید محق ساخنز Zachner) جو مسائل تصوف کے علاوہ عربی، سنسکرت اور خاص طور پر پہلوی زبان پر سند مانا جاتا ہے اس نے اپنی کتاب

 (Hindu And Muslim Mysticism)

میں یہ مسئلہ تفصیل سے بیان کیا ہے ۔

در اصل ہندوستان میں تصوف کا باقاعدہ آغاز ہندو دھرم کے شیو سکول سے ہوتا ہے ۔ اس مدرسہ فکر کے علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا کی ذات اپنے تئیں مکمل ترین ہے تو پھر کائنات تخلیق کرنے کا مقصد کیا تھا ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا کوئی مقصد تھا تو اس مقصد کی تکمیل کے بغیر خدا کی ذات مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔

مگر خدا کی ذات اپنی جگہ مکمل اور برتر ہے اس لیے اُن کے خیال میں کائنات اس

کی لیلا ( SPORT) ہے۔ لہندا کائنات کا کوئی مقصد نہیں۔ اس سلسلے کا دوسرا

مدرسہ فکر یہ کہتا ہے کہ کائنات مایا یعنی نیرنگ نظر ہے اس لیے یہ مدرسہ فکر عمل

کو نظر انداز کرتا ہے۔ اسی لیے بالعموم تصوف کا یہ بنیادی اصول سمجھا جاتا رہا ہے کہ کائنات نظر کا واہمہ ہے اصل حقیقت تو خدا کی ذات ہے۔ پس ترک دنیا کر کے

خدا سے لو لگائی جائے چنانچہ مذکورہ دونوں نظریات کے تحت ہندو دھرم کے

صوفیا نے یہ نظریہ اختیار کیا کہ خدا کی ذات میں دو طاقتیں موجود ہیں ۔ ایک منفی

اور دوسری مثبت یہ نظریہ کہ جو کچھ موجود تھا اور ہے وہ خدا کے ذہن میں موجود

ہے لہذا منفی قوت نے خدا کے ذہن سے خود آگاہی کا یہ شعور مٹا دیا اور مثبت قوت

نے اس کے دل میں یہ آرزو پیدا کر دی کہ وہ اپنی قوتوں کو عینی طور پر دیکھے۔ پس

اسی آرزو نے کائنات کو جنم دیا ۔

میں یہاں مسائل تصوف کی بھول بھلیوں میں الجھنا یا الجھانا نہیں چاہتا لیکن ہندو

تصوف کا تذکرہ میں نے اس لیے ضروری سمجھا کہ مسلمان شعراء نے بہت سے بنیادی خیالات ہندو صوفیا سے اخذ کئے ہیں۔ مسلمانوں ہیں باقاعدہ طور پر تصوف کی بنیاد سب سے پہلے حضرت بایزید بسطامی نے رکھی جو جنوبی ایران میں پیدا ہوئے تھے ۔حضرت بسطامی نے اپنے ملفوظات میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے خدا سے بہ نفس نہیں مکالمات بھی کئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ” میرے استاد ایک ہندی عالم عبداللہ سندھی تھے۔ جنھیں میں نے دین کے مناسکات سکھائے اور انھوں نے مجھے حکمت سکھائی “ حضرت بسطامی کے اس بیان سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ عبد اللہ

سندھی دین اسلام کی تعلیمات سے پوری طرح واقف نہ تھے اور یہ بات تو وثوق کے

ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اُن کے خیالات پر ویدانت فلسفے کے گہرے اثرات ہیں

لہذا اب یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ مسلمان صوفیاء پر ہندو دھرم کے اثرات کو کیا

اہمیت حاصل ہے۔ اب ایک دو سرے بڑے صوفی حلاج کو لیجیے ۔ وہ بھی کافی حد

تک عیسائیوں سے متاثر تھے ۔ اسی لیے ان کے نظام فکر میں حضرت عیسی کو بڑی

اہمیت حاصل ہے۔ اس کے بعد آنے والے صوفیائے کرام بسطامی اور حلاج

کے خیالات کی واضح طور مخالفت بھی کرتے ہیں مگر درپردہ ان کے خیالات بھی

انھیں کے رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ در حقیقت خدا سے وصال تو اسی

وقت ممکن ہے جب ویدانت فلسفے کے بنیادی اصولوں کو مان لیا جائے۔ اس

میں شک نہیں کہ مسلمان صوفیا ء نے ان عقائد میں بعض اسلامی اصولوں کو بہت

حد تک داخل کر دیا ہے مگر تصوف کے ڈانڈے ہر صورت وید ، زرطشت یا عیسائیت

سے بھی جا ملتے ہیں۔ ساخنز کے بیان کے مطابق امام غزالی نے اپنی تصنیف” انوار

سعادت”  میں تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ وصال سے آگے کی اور بھی بہت سی

منزلیں ہیں جن کا بیان مناسب نہیں مگر یہ خیالات تو ہندووں اور عیسائیوں ہی کے یہاں ممکن ہیں کہ ان کے یہا ں  ہولی گھوسٹ، فادر، سن آف گاڈ کے تصورات موجود ہیں۔

ایک صوفی کے ذاتی تجربات اپنی جگہ پر مسلم حقیقت ہو سکتے ہیں مگر دیکھنا یہ

ہے کہ وہ انہیں اپنی تحریروں میں کس طرح بیان کرتا ہے۔ اس ساری تمہید باندھنے

سے تصوف کے فلسفے کی مخالفت مقصود نہیں بلکہ مدعا صرف یہ ہے کہ تصوف کے فلسفے کی اصل جڑ،  بنیاد کی حقیقت کو آشکار کیا جائے۔ مسائل تصوف کے بارے میں کچھ بھی کہا جائے مگر یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اگر فارسی اور اردو کی عظیم شاعری کو تصوف سے الگ کر کے دیکھا جائے تو وہ بے روح نظر آئے گی۔

اب اگر میر درد کے دیوان کو تصوف نامہ بھی سمجھ کر پڑھا جائے تو جا بجا یہ

احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں دو چیزوں کو پیوند لگایا ہے ۔

مجاز اور حقیقت – زمینی حسن کی تعریف سے مقصد خدا کی تعریف ہے تو اس میں

کیا مضائقہ ہے کیونکہ کائنات کی ہر چیز خدا کی عظمت اور برتری کا احساس دلاتی ہے مگر سیدھے سادے جسمانی عشق کو زبر دستی عشق حقیقی سے تعبیر کرنا کس کتاب میں لکھا ہے۔ چونکہ صوفی کائنات کو ایک واہمہ سمجھتا ہے اس لیے ایک صوفی

شاعر کے کلام میں کائنات کے حسن اور اس میں رہنے بسنے والے انسانوں کے باہمی تعلق کی اہمیت کم ہو جاتی ہے ۔ اب میں ذیل میں درد کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کرتاہوں جو سیدھے سادے عشقیہ اشعار ہیں۔ آئیے ان اشعار میں تصوف تلاش کرنے کی کوشش کریں

تو چونکتا عبت ہے کسی بات کے لیے

میں آگیا ہوں صرف ملاقات کے لیے

ہم جانتے ہیں درد اندھیرے میں رات کو

تو لگ رہا ہے کوچے میں جس گھات کے لیے

اُس سنگ دل کی وعدہ خلافی کو دیکھئے

پتھرا گئی ہیں آنکھیں مری انتظار میں

سب برا کہتے ہیں تو کہنے دو

بات لانے ہو تم بھلی ایسی

اُس کے گھرمیں نپٹ پہنچ جانا

دل بتا وہ کوئی گلی ایسی

ہر گھڑی ڈھاپنا چھپانا ہے

اور غرض ، نو بنو دکھانا ہے

دیکھے پایا نہیں ہے کوئی جس کی چھاؤں یاں

 لے چلی ہے آج ہم کو وہ پری سایا کیے

آخر الامر، آہ ، کیا ہوگا کچھ تمہارے بھی دھیان پڑتی ہے؟

مرے احوال پر نہ ہنس اتنا

یوں بھی، اے مہربان، پڑتی ہے

اگر بے حجابانہ وہ بت ملے

غرض پھر تو اللہ ہی اللہ ہے

تمہارے وعدے بتاں میں خوب سمجھتا ہوں

 رہا ہے ایسے ہی لوگوں سے کاروبار مجھے

مت عبادت پہ پھولیو ، زاہد

 سب طفیل گناہ آدم ہے

میں کہاں اور خیال بوسہ کہاں

 منہ سے منہ یوں بھڑا دیا کس نے ؟

ہر چند نہیں صبر تجھے، درد و  لیکن

 اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بنام کہیں ہو

گھر تو دونوں پاس ہیں لیکن ملاقاتیں کہاں

آمد و رفت آدمی کی ہے، پہ وہ باتیں کہاں ؟

یوں تو ہے دن رات میرے دلمیں اس کا ہی خیال

جن دنوں اپنی بغل میں تھا، سو وہ راتیں کہاں

اب اہل نظر انصاف سے کہیں کہ مذکورہ اشعار میں عشق حقیقی اور عشق مجازی کا

رنگ کہاں تک موجود ہے ؟ کیا بقول درد یہ دنیا گناہ آدم کا کرشمہ نہیں۔ درد

صوفی تھے لہذا انھوں نے وصال کی منزلیں بھی دیکھی ہوں گی کہ انہوں نے یہ شعر

کیونکر کہا ہے

دہ مرتبہ ہی اور ہے فہمیدہ سے پرے

 ہم جس کو بوجھتے ہیں وہ اللہ ہی نہیں

اس شعر میں تو وصال تو کیا بلکہ صوفیانہ خیالات کی سرے ہی سے نفی کر دی ہے۔

درد نے مجاز اور حقیقت کے پیوند سے جو پودا لگایا ہے اس میں اولین اہمیت مجاز کو

دی گئی ہے کہ اس کے بغیر حقیقت کا تصور ممکن نہیں میں نے ابتدامیں یہ کہا تھا

کہ درد کے یہاں کھٹے آم خال خال ہی ملیں گے سو نذکورہ بالا اشعارکی روشنی میں

بظاہر بہت حد تک اس بیان کی تردید ہو جاتی ہے۔ مگر ان کے ہاں میر یا غالب کی

سی جرات رندانہ یا شوق فضول نہیں۔ درد نے اہتمام یہ کیا ہے کہ اپنی شاعری میں

عام انسانی جذبات اور عام زمینی قباحتوں کا تو حسب توفیق جی کھول کر تذکرہ کیا ہے

مگر انھیں تصوف کی چادر تلے چھپا دیا ہے ۔ اُن کی شاعری میں تصوف کی تمام منزلوں کے ساتھ ساتھ گوشت پوست کے عام محبوب کا تذکرہ جا بجا ملتا ہے اور اُس کے ساتھ وہ تمام سطحی غیر سطحی، اعلیٰ اور ارفع جذبات بھی ملیں گے جو ایک صحت مند زندہ انسان کی علامت ہیں۔ البتہ ان میں محبوب کا بوسہ لینے کی ہمت نہیں بوسے کا تذکرہ ضرور موجود ہے۔ جس شخص میں بوسہ لینے کی ہمت نہ ہو وہ  جسم کی گنگا میں کیونکہ اتر سکتا ہے اور جو شخص جسم کی گنگا میں اترنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا وہ ہری کے درشن کیسے کر سکتا ہے۔ شاید اسی لیے میں نے بقول آزاد درد کو آدھا شاعر کہا ہے مگر آدھا شاعر ہونا بھی کسے نصیب ہے ؟

( ماہنامہ نصرت، 1963 لاہور )

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031