فکر ِ بدگماں ۔۔۔ نودان ناصر
نظم
نودان ناصر
~ فکر بد گماں ۔۔۔۔۔ تخیل بد زباں ~
شمشیر و نیام بدلتے ہیں
سیاست کے نام بدلتے ہیں
کوفہ و شام بدلتے ہیں
بار الہا مجھے جرآت اظہار دے
زیب داستان کا جامہ اتار دے
سسکتی دریا کی امواج ہیں
بپھری دشمن کی افواج ہیں
تاریخ کے تماشے ہیں
صحرا میں پھول کے لاشے ہیں
پانی کا کال ہے
سورج کی آنکھ لال ہے
ایک طرف آزمائش ہے مصیبت ہے
ایک طرف آرائش ہے غنیمت ہے
کئی محکوم ہیں کئی مظلوم ہیں
جو مظلوم ہیں وہ مغموم ہیں
اسیر کربلا مومنات
سب فداکار ہیں
دیکھا بے مثل ایثار ہے
کوئی زخم دھو رہی ہے
کوئی بیوہ ہو رہی ہے
کوئی جھولا جھلا رہی ہے
کوئی بچوں کو بہلا رہی ہے
کوئی شوق شہادت بڑھا رہی ہے
سفر کی تھکاوٹ ہے
سانس میں رکاوٹ ہے
صحرا میں پانی کے سیراب ہیں
صحرا میں کانٹے بھی گلاب ہیں
زبان پانی کو ترسے ہے
نیزہ چھاتی پہ برسے ہے
کوئی قتل ہو چکا
کوئی قتل ہو رہا ہے
کوئی قتل ہونے والا ہے
شام غریباں میں صبح کا اجالا ہے