غزل ۔۔۔ رفیع رضا
غزل
رفیع رضا
اگرچہ وقت مناجات کرنے والا تھا
مرا مزاج سوالات کرنے والا تھا
مُجھے سلیقہ نہ تھا روشنی سے ملنے کا
مَیں ہجر میں گُزر اوقات کرنے والا تھا
مَیں سامنے سے اُٹھا اور لوَ لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا
کھُلی ہوئی تھیں بدن پر رُواں رُواں آنکھیں
نجانے کون مُلاقات کرنے والا تھا
وُہ میرے کعبۂ دل میں ذرا سی دیر رُکا
یہ حج ادا وُہ مرے ساتھ کرنے والا تھا
کہاں یہ خاک کے تودے تلے دبا ہوا جسم
کہاں میَں سیرِ سماوات کرنے والا تھا
Facebook Comments Box