گُل ِ مصلوب ۔۔۔ تجزیہ۔۔ راشد جاوید احمد
گل ِ مصلوب ( افسانے )
(مصف : سبین علی )
(تجزیہ : راشد جاوید احمد )
اپنے ہفتہ وار ای میگزین کے لیے نثر و نظم تلاشتے ہوئے مجھے سبین علی کی شاعری نظر آئی جو کئی اعتبار سے منفرد لگی اور پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ خاتون افسانے بھی لکھتی ہیں۔ اکا دکا افسانے میری نظر سے گزرے اور میں نے انہیں میگزین میں بھی شائع کیا۔ پھر گل مصلوب، سبین علی کے افسانوی مجموعے کی خبر ملی ( افسوس میں بوجوہ اس کتاب کی تقریب رونمائی میں شامل نہ ہو سکا)
گل مصلوب میرے سامنے ہے اور میں نے اسکے 22 افسانے، نہیں 21 افسانے مطالعہ کر لیے ہیں 17 کے بعد 18 نمبر افسانہ کتاب میں نہیں ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہوا۔ ان کہانیوں پر طویل گفتگو ہو سکتی ہے تاہم اختصار سے کام لیتے ہوئے کچھ گذارشات رقم ہیں۔
گل مصلوب کی کہانیاں، ماسوائے چند ایک کے بھرپور کہانیاں ہیں۔ ” کلمہ و مہمل ” ایسی کہانی ہے جو ہر اس شخص کے لیے نصاب کی حیثیت رکھتی ہے جو کسی بھی قسم کی جسمانی معذوری کا شکار ہے۔
” کتن والی” ، تو تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ ” انٹیوشن ” ، ” گگڑی ” ، ” گل مصلوب ” چیونٹیاں”، ” رات کی مسافر” اور دیگر کئی کہانیون سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کہانیوں کے تمام کردار ہمارے دایئں بایئں ہی موجود ہیں تاہم ان کو ایک افسانہ نگار کی آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے۔ سبین علی نے نہ صرف ان کرداروں کو دیکھا ہے بلکہ ادبی خورد بینی سے ان کا مکمل ادراک کیا ہے ۔ نتیجے کے طور پر ہمیں خوبصورت کہانیاں پڑھنے کو ملی ہیں۔ ” طلوع ماہتاب ” کی یہ سطریں ” آخر یہ مرد بندوق کو زیور کیوں سمجھتے ہیں ” اور ” ” دین و دنیا، مذہب، شریعت تو ایک طرف ، زندہ رہنے کے لیے انہیں نان روٹی کے بھی لالے پڑ چکے تھے ” کہانی کے کرداروں کے ذہنی رویوں کی کنجی ہیں۔ اسی طرح ” سرنگ کے راستے ” میں ، ” یہ سرنگ کس بستی میں جا نکلے گی، ابھی کوئی در ایسا نہیں آیا جہاں محسوس ہو کہ اب مجھے باہر نکلنا ہے، ہاں تب تک مجھے اسی سفر میں رہنا ہے۔ ” ایک رکے ہوئے ، ٹھہرے ہوئے کجرومعاشرے کی نشان دہی ہے۔
” گل مصلوب ” زندگی کی حقیقتوں کو آشکار کرنے والا افسانہ ہے اور سبین علی نے اس کے ذریعے قاری تک جو کچھ پہنچانا چاہا ہے وہ پورے ابلاغ کے ساتھ پہنچا ہے۔ ” ایتھنےاور سموں” سرمایہ داری اور غربت کی ازلی تفریق کی کہانی ہے لیکن میں اس کہانی کے اختتام سے مطمئن نہیں۔ ” لالہ ” مجھے ایک کمزور کہانی لگی ہے۔ ” آنکھوں کے راز اور خول ” میں ابتدائی پیرا گرافوں نے کہانی کو ایک رپورتاژ میں بدل دیا ہے۔
کہتے ہیں افسانہ نگار کردار تخلیق کرتا ہے لیکن ان کہانیوں کے کردار تو ہمارے ارد گرد چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، اب معلوم نہیں کہ سبین علی کو کبھی تحلیل نفسی سے شغف رہا ہے یا نہیں لیکن انہوں نے ان کرداروں کی نفسیات بھرپور طریقے سے کہانیوں میں اسطرح سے سموئی ہے کہ قاری خود کو اس منظر، اس کردار اسکی لوکیل کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ ” چیونٹیاں، پرزم، رات کی مسافر، عین عشق، لپ سٹک، ہلدی بے چاری کیا کرے ” اسی قبیل کی کہانیاں ہیں۔
ہو سکتا ہے کچھ کہانیوں کے اختتام، قاری کو خشک یا بے نتیجہ لگین آخری تین کہانیاں، ” تلاش، خوارزم کے نمکین آنسو اور اضافت ” مین مجھے کوئی کہانی نظر نہیں آئی۔ شاید یہ ” مایئکروفکشن ” ہے جس سے ابھی تک میں آشنا نہیں۔
دورحاضر میں افسانہ حقیقت سے قریب ہو چکا ہے۔آج کا افسانہ نگار خیالی اور تصوراتی کہانیاں لکھنے سے گریز کرتا ہے اور اس کے کردار الف لیلیٰ اور پنچ تنتر و کلیلہ دمنہ کے قیاسی اور خیالی کردا رنہیں ہیں بلکہ اپنے سماج اور معاشرے کے اور اپنے سامنے کے جیتے جاگتے اورحقیقی کردارہیں اورجو منظر اور ماحول ہے وہ اس کا اپنا اور سامنے کاہے۔
ادب کی کسوٹی پر وہی ادب کھرا اترتا ہے جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حُسن کا جوہر اور تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں سے نظریں چرانے کے بجائے اس کا سامنا کرائے۔
سبین علی نے اخلاق کے معیاروں ، معاشرتی اُلجھنوں ، اقتصادی ناہمواریوں، نفسیاتی کیفیتوں اور تہذیبی اقدار کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور اس نظریے کو کہیں بھی خود احتسابی کی نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ اور
اختصاص ، جزئیات نگاری اور کرداروں کے نویکلے پن کا بیان اکیسویں صدی کے تناظر میں کیا ہے۔ کردار بعض ایسے تخلیق کیے ، جو سراسر حقیقی ہونے کے باوجود نہایت انوکھے ، دل چسپ اور یاد رہ جانے کے لائق ہیں
سبین علی کے افسانے سماج سے جڑے ہیں۔۔ ایک حساس افسانہ نگار کا دل سب کے ساتھ دھڑکتا ہے اور دوسروں کے دکھ پر کڑھتا ہے ۔ ان کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر کرب محسوس کرتا ہے۔ وہ سماجی ناانصافی کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ۔ اسی لئےان کے افسانوں کے موضوعات زندگی کے دوزخ کے بیان سے باہر نہیں
بڑے عرصے کے بعد ایک قابل مطالعہ افسانوی مجموعہ پڑھنے کو ملا۔ شکریہ سبین علی۔ آپ کے پاس مطالعہ، مشاہدہ ، ادراک اور بھر پور تخلیقی صلاحیت موجود ہے۔ لکھتی رہیے۔
کتاب کا پیش لفظ نیر حیات قاسمی نے لکھا ہے اور اسطرح سے لکھا ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب کا نام تبدیل کر کے اسے کسی بھی افسانوی مجموعے کا پیش لفظ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے فلیپس نسیم سیداور جناب شموئل احمد نے تحریر کئے ہیں۔ مین یہاں محترم شموئل احمد سے اختلاف کی جسارت کر رہا ہوں کہ مجھے یہ سیدھی سیدھی، عام فہم زبان میں عوامی کہانیاں لگی ہیں جن میں عورت پر ہونے والے ہر قسم کے جبر جس میں شوہر کا جبر بھی شامل ہے عکاسی کی گئی ہے اور ان میں سے کوئی بھی کہانی ایسی علامت یا خفیہ معنی لیے ہوئے نہین کہ ایک گورکھ دھندہ بن جائے۔ یہ ساخت کی گئی کہانیاں نہین بلکہ مصنف کو پورا پورا ادراک ہے کہ وہ کیا لکھ رہی ہیں اور یہی ان کی کہانیوں کی خوبصورتی ہے۔ بیک کور پر منفرد افسانہ نگار محترم جناب محمود احمد قاضی نے اپنی قیمتی رائے سے مستفید کیا ہے جو سبین علی کے لیے یقیننا ایک اعزاز سے کم نہیں۔