
نظم گوئی کے ہنر میں ملبوس ۔۔ ثمین بلوچ
نظم گوئی کےہنرمیں ملبوس۔۔۔۔ ثمین بلوچ
راشد جاوید احمد
ثمین بلوچ کی نظموں سے میرا تعارف حال ہی میں ہوا ہے۔ ان کی شاعری اتنی گہری اور پراثر ہے کہ مجھے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی تحریک ہوئی۔ اگرچہ میں شاعرہ کو ذاتی طور پر نہیں جانتا، لیکن ان کی نظمیں اپنا تعارف خود کراتی ہیں۔ ابھی تو ان کا کوئی شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا، لیکن میں ان کی تیس سے چالیس نظمیں پڑھ چکا ہوں جو بہت متاثر کن ہیں۔
ثمین بلوچ کی شاعری میں گہری بصیرت اور حساسیت کا عکس واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ان کی نظموں میں زندگی کی تلخیاں، انسانی حقوق کی پامالی، اور محبت و عشق کے جذبات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ کہیں عورت کی شناخت اور اس کے شعور کی قید کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے، تو کہیں عورت کی سماجی حیثیت اور اس کی آواز کے فقدان کا ذکر ہے۔ ان نظموں میں ایک واضح احتجاجی لہجہ پایا جاتا ہے، جو معاشرتی روایات اور قدروں کو چیلنج کرتا ہے۔
ثمین کی نظموں میں کہیں کہیں تاریخی حوالے بھی ملتے ہیں۔ وہ ماضی کی تلخیوں کے باوجود امید اور مستقبل کی روشنی کو برقرار رکھتی ہیں۔ یوں وہ مصائب اور آلام کے باوجود کبھی مایوسی کا شکار نظر نہیں آتیں۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعے اپنی سچی آواز کو بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی شاعری اس بات کی عکاس ہے کہ سچائی کا اظہار ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات اس کے نتائج خوفناک بھی ہو سکتے ہیں۔ چاہے وہ “روز عزم” ہو یا “نظم کا نوحہ”، شاعرہ کا لہجہ موجودہ سماجی حالات پر تنقید کرتے ہوئے درد اور بغاوت سے لبریز ہے۔
نظم کا نو حہ
مجھے راست گوئی کا مرض لاحق ہو چکا ہے
درازوں سے ماسک ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلا ڈالے ہیں
اب میرا چہره واضح ہے
لوگ مجھ سے خوف کھانے لگے ہیں
آنکھوں کے گرد پڑے نیل اور چہرے پہ چھپی سیاہی کو چھائیوں اور حلقوں کا نام دینے والو
سنو
یہ چھائیاں نہیں
پرچھائیاں ہیں
طویل معاشرتی جنگ اور دم توڑنی چپ کی
خوف
خوف کیا ہے؟
جب سر کی طرف بڑھتا ہاتھ چھاتیوں کی جانب آتا دکھائی دے
چپ
میں چپ ہوں
مجھے چپ ہی رہنا چاہیے
نظم کی صورت بگڑتی جارہی ہے
جب وہ “چپ سے چپ کا مذاکرہ” بیان کرتی ہیں، تو خاموشی کی گہرائی میں اتر جاتی ہیں۔ اس نظم میں زبان کی بجائے خاموشی کو ایک طاقتور ذریعہ اظہار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ثمین کی نظموں میں شناخت کے سوالات بھی ہیں۔ وہ مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر انسان کی اصل پہچان کی تلاش کرتی ہیں اور ایک جامع انسانیت کا تصور پیش کرتی ہیں۔ ان کی نظموں میں جذبات کی گہرائی، سماجی مسائل کی عکاسی، اور روحانی تجربات کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ عشق، قربانی، شناخت، اور خاموشی جیسے موضوعات کو اس قدر پراثر طریقے سے بیان کیا گیا ہے کہ قاری کے دل و دماغ پر ان کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
نظموں کے عنوانات بھی نہایت منفرد ہیں۔ “نیلا ملبہ” اور “چوتھی آپشن کی تلاش” جیسی نظمیں محبت اور جدائی کے درد کو بیان کرتی ہیں۔ محبت کے موسم (ساون) کی خوبصورتی اور ہجر کی تلخی کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ شناخت، جنس، اور تخلیقی آزادی جیسے موضوعات پر یہ نظمیں بتاتی ہیں کہ شاعرہ اپنی شناخت کی تلاش میں ہے، لیکن شناخت کے صرف تین ہی آپشنز ہیں: مذکر، مونث، اور مخنث۔ تجربات، جذبات، شناخت، درد، اور محبت ان کی داخلی کیفیات کے عکاس ہیں۔ “سرطان کی گود میں لیٹی سہیلی” جیسی نظم بہت سادہ مگر پراثر اسلوب میں زندگی کی ناپائیداری کو بیان کرتی ہے۔ “موت کا شاہی لباس” اور “آخری سانس لیتی زندگی” جیسے استعارے زندگی کی تلخی اور موت کی حقیقت کو عمدگی سے پیش کرتے ہیں۔ “راستے میں تمہارا گھر پڑتا ہے” قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ انسانی تعلقات کی قوت دیگر جذبات کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔
: نیلا ملبہ
میں ایک بار
اس کی محبت کے ساون میں نہائی تھی
پھر اس کے بعد
ہجر کا بادل
میرا ساون کھا گیا
اب ہر ساون میں
اس کی یاد کا بچھو
میری ایڑی میں
ڈنک مارتا رہتا ہے
یہ وہ بچھو ہے
جو میں نے خود
اپنے ہاتھ پہ اگایا تھا
درد کی نیلاہٹیں
زندگی کی جانب
رواں مسافت میں
رخنہ ڈالتی رہتی ہین
اب مجھے
ساون میں نہانے سے
خوف آ تا ہے
میرا جسم
درد کی نیلاہٹوں سے
بھرا پڑا ہے
مگر
نیلاہٹیںں میرا ساون
مجھ سے نہیں چھین سکتیں
ساون کے نصف شب کے بعد
میری پہچان واضح ہوتی ہے
میں رات کا درمیان ہوں
کھال بدلنے میں رات میری معاون ہوتی ہے
اندھیرے، تاریکی اور رات کے فرق کو سمجھنے میں
بصارت کے ضعف میں بصیرت کی تقویت میرے کام ائی
میں نے کئی دفعہ
سوا نیزے پہ آئے سورج کی کھال کو بدلا
اور اسے رات بنا دیا
میری اصل تمہاری چپ میں ہے
میرے اندر رہنے کے لیے
تمہیں چپ کا لباس اوڑھنا ہوگا
مجھےکریدنے سے تمہیں صرف ملبہ ملے گا
کریدنے کی بجائے
آ ؤ میری چپ سے اپنی چپ ملاؤ
اس سے قبل کہ تمہارے سوال مجھے ملبہ بنا دیں
اور تم اس ملبے کے ڈھیر میں
خود کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے نیلے پڑ جاؤ
ثمین بلوچ اپنی نظموں میں ماضی کی یادوں، محرومیوں، اور زندگی کی حقیقتوں کو گہری اور تلخ زبان میں پیش کرتی ہیں۔ نظم “کترن” میں سیلن زدہ دیواریں اور محرومیوں کا گریہ قاری کو تاریخ اور ذاتی تجربات کی جانب مائل کرتا ہے۔ ان نظموں میں فلسفیانہ اظہار بھی موجود ہے۔ وقت، یادوں، اور انسانی وجود کی تفتیش بھی ملتی ہے۔ “خلائی دائروں کے عین وسط میں کھڑا وجود” جیسی نظم انسان کی موجودگی پر سوال اٹھاتی ہے۔
ان نظموں میں زندگی کے بند دروازوں اور درد کو چکمہ دینے جیسی سطریں انسان کی فطرت میں موجود امید اور ہمت کو جلا بخشتی ہیں۔ شاعرہ مثبت رویے اور حوصلہ افزائی کا پیغام دیتی نظر آتی ہیں۔ “وینٹیلیٹر پر پڑی زندگی”، “کلکاریاں”، “سیاہ ایک ماتمی رنگ”، اور “خاموشی گناہ ہے” جیسی نظمیں مصنوعی سانسوں اور دھڑکن کے درمیان فرق، زندگی کی حقیقی کیفیت، خوابوں کی موت، اور امید کی کمزوری کو نہایت عمدگی سے اجاگر کرتی ہیں۔ “لمس کی الفت” اور “جھیلوں کا جنم” جیسے استعارے وجود کی پیچیدگیوں اور زندگی کی گہرائیوں کو بیان کرتے ہیں۔ سیاہی کو وصل کا رنگ قرار دینا بھی ایک منفرد نقطہ نظر ہے۔ معاشرتی خاموشی کے اثرات اور ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ممانعت، ظلم کے خلاف ایک طاقتور احتجاج ہے۔
خموشی گناہ ہے
میں سقراط کے دور کی اک بھٹکتی ہوئی آتما ہوں
جسے بات کرنے سے پہلے پیالے بھرا زہر پینا پڑا تھا
مگر موت مجھ پہ نہ وارد ہوئی
میں اپنے کئی جزئیات اور خلیات میں بٹ کے لفظوں کا لقمہ بنی
اور اگل دی گئی تھی
خیالوں کو لفظوں کے چرخے پہ دھنکا تو جانا
کہ نظموں کی صورت … بڑے شوق سے مجھ کو نگلا گیا ہے
خدائی عطا کو شریعت کے صفحوں میں گمنام عنوان سے لکھا گیا ہے
محبت کے معنوں کی پرتوں کو کھولے بنا مسترد کرنے کی رسم کو
اب تو سولی چڑھا دو ..
…. یاپھر سزا دو مجھے
کہ میں اب بھی اپنے عقیدے کو تھامے کھڑی ہوں
خموشی گناہوں کی حد پہ کھڑی ہے
” مرے ہونٹ بھر بھر کے گرنے لگے ہیں”
“بول کہ لب آزاد ہیں تیرے”، “زخموں کے بخیے”، “نظم مسیحا بن جاتی ہے”، اور “پیاس اور پانی کا تلازمہ” جیسی نظمیں اپنے عنوانات کے لحاظ سے تو منفرد ہیں ہی، لیکن ان کے اندر چھپی سوچ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان نظموں میں کہیں ہمیں جدوجہد کرتی عورت نظر آتی ہے، کہیں سماجی مسائل کا ادراک ہے، تو کہیں خود آشنائی کی جستجو اور وجود کی تلاش ہے۔ کہیں بگ بینگ اور بلیک ہول کے ذریعے فلسفے تک رسائی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاعرہ وجود کی گمشدگی کے احساس کے ساتھ خود کی تلاش کے سفر پر ہے۔ شاعرہ کے مطابق، درد اور تکلیف کی شدت کو کم کرنے کے لیے نظم ایک مسیحا کا کردار ادا کرتی ہے۔ ان نظموں میں سچائی کی نیند اور جھوٹ کی بیداری کے ذریعے قاری کو سچائی اور جھوٹ کے درمیان جنگ کا المیہ بھی نظر آتا ہے۔ صبر اور امید کو ظاہر کرتی نظم “ستارہ”، طبقاتی تقسیم کی عکاسی کرتی نظم “مڈل کلاس”، اور محبت کی گہرائی اور وسعت کا اظہار کرتی نظم “محبت کوئی لفظ نہیں” بہت عمدہ نظمیں ہیں۔
ادب کی دنیا میں نظم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ شاعری ایک ایسا ذریعہ اظہار ہے جس کے ذریعے انسان کے جذبات، خیالات، اور تحریکات کو منفرد انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے، اور ثمین بلوچ نے یہی کیا ہے۔ جتنی نظمیں مجھے پڑھنے کا موقع ملا، ان کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ انسانی تجربات اور جذبات کے گہرے مطالعے کی عکاس ہیں۔ جذبات کی شدت، سماجی مسائل کا بیان، اور انسانی زندگی کی پیچیدگیاں شاعرہ کی سوچ سے مکمل ہم آہنگ ہیں۔ ادب کا قاری، خاص طور پر نظم کا قاری، ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
یہ نظمیں اپنے موضوعات، تکنیک، اور احساسات کے اعتبار سے متنوع ہیں۔ اسلوب سادہ مگر جاندار، خود اعتمادی کا مظہر، اور عمیق ہے۔ تخیل کی وسعت اورتخلیق کی صلاحیت لائق تحسین ہے۔ الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ ہر نظم اپنی جگہ پر ایک منفرد پیغام دیتی ہے، جو انسانی تجربات کی گہرائی کو اجاگر کرتی ہے۔ ان نظموں کے ذریعے شاعرہ نے نہ صرف اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، بلکہ قارئین کو بھی سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ نظمیں ایک بھرپور ادبی سفر کی عکاس ہیں، جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کو روشن کرتی ہیں۔ اپنی نظم ” آنکھیں سن بھی سکتی ہیں” میں ثمین کہتی ہیں، ” میں گویائی کا ہنر جانتی ہوں “۔۔۔ یقیننا وہ نظم گوئی کے ہنر میں ملبوس ہیں۔