ایک غنایئہ آدھے سورماوں کے نام ۔۔۔ سبین علی
ایک غنائیہ آدھے سورماؤں کے نام
(سبین علی)
میرے ہم جنس
صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی صعوبتیں جھیلتے رہے
میرے درّے
سنگلاخ چٹانیں ہندوکش و ہمالیہ کے
پر پیچ رستے
تنہا مزاحم ہوتے رہے
میرے ہم جنس کھوجتے رہے
اپنی صفوں میں چھپے سورما
کوئی ذرا سا دلیر دکھائی دیا
کوئی سچ کا پرچارک
کوئی کڑیل جوان
تو کندھوں پر سوار کرتے سر پہ بٹھاتے
غلغلہ ہاؤ ہو بلند کرتے
دستار فضیلت سے زیر بار کرتے
مگر میری دھرتی جو ہری من بھری ہو کر بھی
آدھے ادھورے ابطال جنم دیتی رہی
اس کی چھاتیوں کو بھنبھوڑتے رہے
نو آبادیاتی درندے
اسکی ناف میں زہر انڈیلتے رہے
کلمہ حق کا نعرہ
لگا کر
سفید خون کی رکھوالی کرنے والے
اور میری زرخیز دھرتی
اپنے آزاد سپوتوں کو
قرون اولیٰ کے سیاہ فاموں کی مانند
مکاتبت کرتے دیکھتی رہی
مگر وائے بدنصیبی کہ اپنے وجود رہن رکھے وہ کڑیل جوان
نقدی عمر کے عوض
غلامی کے پروانے خریدتے رہے
اور میری دھرتی کی پاکیزہ مٹی میں
ریاکاری کا پانی ملتا رہا
مصلحت اندیشے مفاد
زہر بن کر اسکی راج باہوں میں گھلتے رہے
میری دھرتی پہ دھمک
گھوڑے کے سموں کی رہی
اور میری عورتیں
حسرت بھری نگاہوں سے کھوجتیں
کسی بطل کو رہیں
Read more from Sabeen Ali
Read more Urdu Poetry