بھیس، روپ اور طوائف ۔۔۔ سبین علی
وہ عبادت گزار شخص مدتوں سے اس باغ میں چلا کاٹ رہا تھا۔ کئی چالیس راتیں آئیں اور بیت گئیں مگر اسے جس کاانتظار تھا وہ نہ ملا۔ دن میں وہ اپنے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کی خاطر کچھ دیر کام کرتا ایک پہر سوتا اور پھر نمازِ عصر کے بعد سے حصار کھینچ کر بیٹھ جاتا۔ حصار سے باہر وہ فقط وضو کی حاجت سے ہی باہر نکلتا اور عشاء کے بعد جب رات گہری ہو جاتی جن ، چڑیلیں اور آسیب اسے ڈرانے پہنچ جاتے ۔وہ بھی اپنی دھن کا پکا تھا کئی بار بیمار پڑا دھوکہ سے حصار سے باہر بلایا گیا مشکلات کا شکار ہوا مگر پھر نیا چِلا شروع کر لیتا ۔ اسی ریاضت کے بیچ اسے کہا گیا کہ قریب ہی کسی بستی میں ایک بڑھیا رہتی ہے وہاں سے اس کی ریاضت کو فیض مل سکتا ہے۔ مالک کی تلاش میں بھٹکتے اس شخص کو گویا سمندر کے کنارے کا پتا مل گیا تھا۔ اس نے قرب و جوار کی سبھی بستیوں میں ضعیف العمر عورت کی تلاش شروع کر دی کہ جس کے فیض سے اسے اپنے سفر کا کوئی اہم نشان مل سکتا تھا ۔
وہاں سے کچھ دور ایک گاؤں کے قریب امرودوں کے کئی باغات تھے ۔ ان باغات میں ایک بڑھیا مٹی سے لیپ کئے ہوئے کچے مکان میں رہتی تھی۔ بڑھیا کے چار بیٹے تھے جو سنِ رُشد کو پہنچ چکے تھے مگر بیوہ بڑھیا کسی بہو پر بوجھ بننے کی بجائے اکیلے رہنے کو ترجیح دیتی تھی۔ گاؤں کے لوگ اسے اور اس کی بہوؤں کو ملامت کرتے۔ بیٹے اور بہووئیں ساتھ رکھنے پر اصرار کرتے مگر بڑھیا ٹس سے مس نہ ہوتی تھی۔ دھیرے دھیرے وہ اپنی بات پر اڑنے والی اکھڑ اور تنہائی پسند مشہور ہوتی گئی مگر اس شہرت کے باوجود بڑھیا کے گھر میں مسافر عورتیں آ کر بے خوف قیام کرتیں اور کسی مرد کی مجال نہ ہوتی کہ بدمزاج اور اکھڑ بڑھیا کے گھر میں جھانک بھی لے ۔
رات گئے وہ بڑھیا اپنی پوتیوں اور مہمان عورتوں کو اکٹھا کر کے کئی کہانیاں سناتی ۔ دیس دیس کی داستانیں عورتوں کے قصے، سبق آموز کہانیاں جو مردوں کے کانوں کو نصیب نہ تھیں۔ ۔ اس کا کہنا تھا کہ دن کو کہانی سنائیں تو مسافر راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ رات کی کہانی چپکے سے شعور کی نچلی پرتوں میں جا کر ٹھہر جاتی ہے۔ اسکی کہانیاں بھی چپکے سے کئی دلوں اور ذہنوں پر نقش ہوتی گئیں۔
کسی دن حق کی تلاش میں بھٹکنے والا وہی بزرگ بڑھیا کے مکان کے پچھواڑے میں موجود گھر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ رات کے پہلے پہر جب اندھیرا چھا گیا اور دیے کی لو مدھم ہوئی تو اماوس کی رات میں بڑھیا اپنی کہانی سنانے بیٹھ گئی ۔ اندھیری رات کے گہرے سکوت میں وہ بزرگ بڑھیا کی آواز با آسانی سن سکتا تھا۔ جونہی اس نے اپنی کہانی کا آغاز کیا
ہمارا تمھارا خدا بادشاہ
کر بھلا سو ہو بھلا ،
تو بزرگ کے کان کھڑے ہو گئے۔ اسے لگا شاید یہ وہی بڑھیا ہو جس سے اسے راہگزر کا نشان ملے گا۔
خاموشی کے راج میں بڑھیا کی مدھم آواز پھیلنے لگی
دھی رانیوں اور کڑیو بالڑیو دھیان سے آج کی کہانی سنو ۔
دور دیس میں ایک مجبور عورت رہتی تھی اس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور کما کر دینے والا کوئی نہ تھا۔ جب وہ بہت مجبور ہو جاتی تو پیشہ کرتی۔
اس کے پڑوس میں ہی ایک بہت نیک پارسا اور پنج وقتہ نمازی عورت رہا کرتی تھی ۔ جس رات بھی اس عورت کے گھر کوئی آدمی آتا تو پارسا بی بی اپنے گھڑے میں ایک پتھر ڈال دیتی اور کسی سے کچھ نہ کہتی۔
دھیرے دھیرے گھڑا پتھروں سے بھرتا گیا ۔کئی بار وہ پارسا عورت گھڑے پر بندھا کپڑا ہٹاتی اور دیکھتی کہ کتنے پتھر جمع ہو گئے ہیں۔
یہ کہہ کر بڑھیا خاموش ہو گئی
پھر کیا ہوا بے بے ۔۔۔۔ ؟
لڑکیوں نے حیرت سے پوچھا
ہونا کیا تھا اس مجبور پیشہ ور کو توبہ کی توفیق ملی تائب ہوئی اور چھوٹ گئی مگر پارسا بی بی کی پکڑ ہو گئی ۔گھڑے میں پڑے پتھر منوں وزنی ہو گئے۔
وہ کیسے ؟
۔ دھیو کبھی کسی کے گناہ شمار مت کرنا یہ کام مخلوق کا نہیں۔
رب سوہنا تو بھیس بدل بدل کر اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے۔ جانے کب کہاں کس روپ میں آزمائی جاؤ۔
ٹمٹماتے دیے کی لو بجھنے لگی بزرگ اٹھا اور اپنے سفر کو ہو لیا۔ اسے گویا راستے کا نشان مل گیا تھا اور امید بندھ چلی کہ کسی دن وہ اپنی منزلِ مراد کو پا لے گا۔ اس نے دنیا سے کنارہ کیا اور مخلوق کے گناہوں سے چشم پوشی کی ۔ کان لپیٹ لیے اور آنکھوں کے گناہ سے بچنے کو مراقبہ میں رہنے لگا۔۔۔ دھیرے دھیرے اس کے مراتب زمانے کی نظروں میں بلند ہونے لگے بزرگ کا شمار متبرک لوگوں میں ہونے لگا۔ لوگ دعا اور شفاء کے لیے اس کے پاس آتے اور نیاز بانٹتے۔ مگر بزرگ جانتا تھا وہ جس منزل کی تلاش میں ہے اسے ابھی تک پا نہیں سکا۔۔
جس باغ میں وہ مقیم تھا وہاں کئی بچے دن کو اودھم مچاتے کھلیتے کودتے ، پرندوں کے گھونسلوں میں جھانکتے اور کئی بچے باغ میں سے پھل بھی چرا لیتے۔ شب بیداری کے بعد جب بزرگ دن کا ایک پہر سو کر گزارا کرتا اس وقت اسے بچوں کا شور بڑا گراں گزرتا۔۔ اسے خدشہ ہوتا کہ شب بیداری کے دوران اگر اس کی آنکھ لگ گئی تو سب کیا دھرا اکارت جائے گا۔
کئی بار اس نے بچوں کو منع کیا کہ شور مت مچاؤ۔ باغ کا پھل مالک کی اجازت کے بنا مت توڑو اور اس کی عبادت میں مخل مت ہو۔ مگر بچے اپنی دھن کے پکے تھے۔ دن بدن بچوں کی شرارتیں بڑھتی گئیں ۔ ان بچوں کی دیکھا دیکھی سکول سے چھٹی کے بعد کئی لڑکے باغ کا رُخ کرنے لگے اور سب کئی گھنٹوں تک وہاں کھیلتے ۔ کبھی کرکٹ کی گیند کٹیا کے قریب آن گرتی تو کبھی دھماک سے فٹ بال گرنے کی آواز اس کی عبادت کا ارتکاز ختم کر دیتی۔
بزرگ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔ وہ جس دنیا سے منہ موڑ کر باغ میں آن بسا تھا وہ پاؤں پاؤں چلتی خود اس کے پیچھے آ گئی تھی۔ اس کے کان شور سے پک گئے، ذکر سے سکون ختم ہوا اور عبادت میں خشوع باقی نہ رہا ۔
اکتا کر اس نے بچوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا پھر انہیں باغ سے بھگانے لگا۔ کئی بار انہیں جنات کا ڈراوا دیا اور کئی بار ان کے والدین کو شکایت بھیجی۔ والدین کی سرزنش پر
بچوں نے باغ میں جانا کم کر دیا ۔ جب بچوں کی آمد و رفت کم ہوئی تو پرندوں کا چہچہانا بھی کم ہوتا گیا۔ ایسا لگتا تھا پرندے باغ میں کچے پھل چکھنے یا دانہ چگنے نہیں آتے تھے وہ بھی بچوں کے ہمجولی تھے ۔
اگلے برس کی فصل میں باغ میں پھل بھی بہت کم لگے۔ بزرگ کی عبادت اور شب بیداریوں نے اگرچہ اسے کئی روحانی فوائد سے نوازا تھا مگر جس کی تلاش میں وہ مدتوں سے ریاضت کر رہا تھا وہی نہ ملا ۔
ایک دن باغ میں سے کسی فقیر کا گزر ہوا۔ بزرگ کی کٹیا پر صدا دی اور پانی طلب کیا۔ بزرگ نے فقیر کو اپنے پیالے میں پانی پیش کیا۔ فقیر نے عبادات کی قبولیت کی دعا دی۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ وہ مدتوں سے رب کی تلاش میں سرگرداں رہا بستی بستی قریہ قریہ گھوما اور پھر عرصہ دراز تک چلے کاٹے مگر اسے رب نہ ملا۔یہ سن کر فقیر مسکرایا اور کہنے لگا
وہ کئی بار تمھارے پاس آیا مگر تم اسے پہچان نہ سکے۔
بھلا کوئی رب کو بھی نہ پہچانے گا؟
بزرگ نے استفہامیہ انداز میں کہا۔
ہاں جیسے تم نہ پہچان سکے۔ کیا یاد نہیں بڑھیا نے کیا کہا تھا۔ وہ چلوں اور عبادات میں نہیں بلکہ عام سے لوگوں بچوں اور گناہ گاروں کے بیچ چپکے سے بھیس بدل کر آتا ہے۔
Read more from Sabeen Ali
Read more Urdu Stories