لے ۔۔۔ سبین علی
لَے
سبین علی
محبت تو وہ لے ہے
جو ہنسلی سے کٹی
بانسری سے نکلتی ہے
جسے وحشی درندے بھی
محویت سے سنتے ہیں
میں تو دشت حیات میں
محبت کی نغمہ سرا تھی
اب آنکھیں پھاڑے تکتی ہوں
نفرتوں کے مکتوب
واہموں اور الاہموں کی فردِ جرم
دور رہو ۔۔۔۔ کے فرمان امروز
میری گلیوں میں رقصاں ہوس
جا بجا
مادہ منویہ کی آلودگی
جو گلیوں گلیاروں
شاہراؤں چوباروں میں بکھری
نوچتی ہے انسانیت کو
میری نَے اداس ہے
حیران ہے
اور میں ہونٹوں کے ساتھ لگائے اسے
سوچتی ہوں یا الٰہی
محبت کی دھن کہاں سے چھیڑوں
کہ ٹھٹھک جائیں ذرا
وحشی درندے
مگر دشت میں فقط
ریت اڑتی ہے
Facebook Comments Box