شریک غم سمندر ہے ۔۔۔ صدف مرزا
شریک غم سمندر ہے
( صدف مرزا )
تمہاری چمچماتی کار کا یہ ان چھوا ماڈل
تا حدّ نظر پھیلی رہائش گاہ کے ماتھے پر
چمکتے نام کی تحتی
اور اس نام کے پیچھے قطاریں ڈگریوں کی بھی
تمہارے کاندھوں پر یوں بھی
کئی عہدوں کے تارے تھے
شرق و غرب پر چھائے یہ کاروبار کے بادل۔۔۔
روا تھے تم کو کبر و نخوت کے یہ انداز سب
کہ دوست آئینہ بھی تھا، اور نازاں خود پہ تم بھی تھے
تمہارا یہ زعمِ خود ستائی بے وجہ کب تھا
کہ منتظر نظرِ کرم کے مہ جبیں بھی لاکھوں تھے
کہ نظرِ کرم کے تھے منتظر کئی ماہ جبیں ، کئی ماہ رُو
اور طاقتِ خرید تمہاری کو بھی غرور تھا
کہ اس کی دسترس میں ہے، جس کی کرے وہ آرزو
معترف ہیں ہم کہ تم کھلاڑی با کمال تھے
فسوں طراز پینترے سارے ہی تو بلا کے تھے
مہرے سب ہی شاہی تھے
نشانے سب نپے تلے
تیر سارے نیم کش
بوالعجبی سی بوالعجبی ہے۔۔۔۔؟
اک سر پھری سی عورت کا اقرار بک نہیں پایا