تین نظمیں ۔۔۔ سعدیہ بلوچ
نظم
سعدیہ بلوچ
جسم کے اوپری حصے کو
مسلسل گھورتے رہنے سے
جن آنکھوں کو باز نہیں رکھ سکتے
شلواریں کجھاتے ہو
ان آنکھوں پر چلمن کر لو
ورنہ ۔۔۔۔۔۔
نگاہ نیچی رکھنے کے حکم والی ساری آیئتیں
خدا سے شکوہ کریں گی
کہ انہیں کسی نے نہیں مانا
نظم
کچھ دنوں کے لیے اپنا سینہ ادھار دے دو
میں خود کو یہاں رکھ کر دنیا داری نمٹا آوں
تم کرائے کی مد میں میرے خواب رکھ لو
سود میں لمس بھی عنایت کیا جا سکتا ہے
ابھی تو اس میں اک
دھڑدھڑاتا دل ہی ہے ناں
اس کو یہیں رہنے دو
میں آس پاس اپنی جگہ بنا لوں گی
نظم
جن محبتوں کی تان
اجسام سے ٹکرا کے ٹوت گئی
انہیں زندگی کے گوشوارے میں درج کرنے کا
کشٹ کیا اٹھانا
بے سُرے گیتوں کو کون گنگناتا ہے
دماغ کو بھلا دینے میں بھی مہارت ہے
بس اک دھڑکا سا لگا رہتا ہے
تم اس کی زد میں نہ آجاو
————————————————————————————————–