کترن ۔۔۔ ثمین بلوچ
کترن
ثمین بلوچ
کترن
ماضی کی سلین زده دیواروں پر
یادوں کا پیر پھسلا
تو حوصلے کی کمر ٹوٹ گئی
محرومیوں نے گریہ کیا بے بسی کے نوحے گونجے
رنج آشنائی سسکنے لگا
وقت کی پکار پر لبیک نہ کہنے والے
نارسائی کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے
قبروں میں اتر گئے
مقام عبرت کا کوئی مقام نہیں
! کائی لگے کنویں سے مداوے کی طلب
پیاس کی توہین نہیں تو کیا ہے؟
جب نیلے ہونٹ جھوٹے بھرم کی چغلی کھانے لگیں
تو سفید پوش آئینوں سے کترانے لگتے ہیں ننگے پیٹ انا اوڑھنا
اور بھوکی آنتوں خودی کے لقمے چبانا
کتنا مضحکہ خیز عمل ہے
خلائی دائرے کے عین وسط میں کھڑا وجود
خود اپنے وجود پر سوالیہ نشان ہے
کمیت کا اس میں عمل دخل صفر ہے
یادوں کے کھنڈرات سے ملی تحریر کے زبان شناس کی تلاش جاری ہے
چلو میوزیم کے اجزاء میں تو اضافه ہوا
زبان کا زمانے سے تعلق کس نے ناپنا ہے
میں کوئی آرکیالوجسٹ تھوڑی ہوں
اس خستہ عمارت سے میرا کیا لینا؟
میری چائے ٹھنڈی ہو ربی ہے