نیلا ملبہ ۔۔۔ ثمین بلوچ
نیلا ملبہ
ثمین بلوچ
میں ایک بار
اس کی محبت کے ساون میں نہائی تھی
پھر اس کے بعد
ہجر کا بادل
میرا ساون کھا گیا
اب ہر ساون میں
اس کی یاد کا بچھو
میری ایڑی میں
ڈنک مارتا رہتا ہے
یہ وہ بچھو ہے
جو میں نے خود
اپنے ہاتھ پہ اگایا تھا
درد کی نیلاہٹیں
زندگی کی جانب
رواں مسافت میں
رخنہ ڈالتی رہتی ہین
اب مجھے
ساون میں نہانے سے
خوف آ تا ہے
میرا جسم
درد کی نیلاہٹوں سے
بھرا پڑا ہے
مگر
نیلاہٹیںں میرا ساون
مجھ سے نہیں چھین سکتیں
ساون کے نصف شب کے بعد
میری پہچان واضح ہوتی ہے
میں رات کا درمیان ہوں
کھال بدلنے میں رات میری معاون ہوتی ہے
اندھیرے، تاریکی اور رات کے فرق کو سمجھنے میں
بصارت کے ضعف میں بصیرت کی تقویت میرے کام ائی
میں نے کئی دفعہ
سوا نیزے پہ آئے سورج کی کھال کو بدلا
اور اسے رات بنا دیا
میری اصل تمہاری چپ میں ہے
میرے اندر رہنے کے لیے
تمہیں چپ کا لباس اوڑھنا ہوگا
مجھےکریدنے سے تمہیں صرف ملبہ ملے گا
کریدنے کی بجائے
آ ؤ میری چپ سے اپنی چپ ملاؤ
اس سے قبل کہ تمہارے سوال مجھے ملبہ بنا دیں
اور تم اس ملبے کے ڈھیر میں
خود کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے نیلے پڑ جاؤ