نیند میں چلتے ہوئے ۔۔۔غلام حسین ساجد ۔۔۔مبصر :: ثمینہ سید
نیند میں چلتے ہوئے
غلام حسین ساجد
مبصر۔۔۔۔۔ ثمینہ سید
غلام حسین ساجد کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے.بہت ہی ذہین فطین معروف علمی و ادبی شخصیت ہیں .پنجابی اور اردو زبان کےشاعر ہیں ,نقاد ہیں اوربہت بڑے نثرنگار بھی ہیں.
ان کے بارے میں میں اپنی طرف سےکچھ نہیں کہہ سکتی .میں تو طفلِ مکتب ہوں.ادنی’ سی ادب کی طالبہ
انکی کتاب” نیند میں چلتے ہوئے ” کی نظموں کے بارے بہت بڑے مفکر جناب مظفر اقبال ایک خط میں لکھتے ہیں.
“اصل میں یہ اس قدر حیرانی والی بات نہیں ہے.تم جس طرح سے وقت پر سے گزرے ہو اور جس طرح سے زندگی تم پر بیتی ہے.اسی کی وجہ سے تمہارے اندر کی تقسیم اپنے آپ کوCounter کرنے کے لیے ایک ایسی فارم میں اظہار چاہتی ہے.جہاں تم اظہار کو ٹکڑوں میں نہ بانٹو بلکہ ایک تسلسل میں اظہار کرو اور یہی وجہ ہے کہ نظمیں!….دونوں نظمیں بہت خوبصورت ہیں.نظموں میں لفظوں کی قوت بہت پراثر ہے.اور تم دیکھو کس طرح سے تمہارا کینوس پھیلتا جارہا ہے.تم ستارے کو بھولے نہیں اس کی وسیع تر وسعتوں کو دیکھ رہے ہو.شاید یہ Transformation ہے.شاید یہ سب کچھ مربوط ہورہا ہے….تمہارے اندر…..اور اسی لیے نظم کہ تمہارے اندر بھی ‘نظم’ ہونے کا عمل ہورہا ہے.شاید تم اب Object سے ہٹ کر لطیف تر Vision میں داخل ہورہے ہو,جہاں ستارہ بحیثیت استعارہ ظاہر ہورہا ہے.”
مظفر اقبال..24 اکتوبر 1979 کینیڈا
(ایک خط سے اقتباس)
مذکورہ بالا تعریفی عبارت جناب غلام حسین ساجد کی کتاب “نیند میں چلتے ہوئے” کے بارے میں ہے.
میں نے کتاب خریدی اور 96 نظمیں پڑھ ڈالیں.جناب غلام حسین ساجد اپنی کتاب میں موجود نظموں کے بارے میں کہتے ہیں.
“مجھے کہنے دیجیے کہ نظمیں سیاسی ہیں نہ معاشرتی .ان میں فلسفیانہ رموز مخفی ہیں نہ یہ کسی عہد کا نفسیاتی مطالعہ کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہیں.پھر بھی یہ اپنے عہد کی نقیب اور ترجمان ہیں اور اس سے بھی زیادہ شاعر کی نو نہ نو بدلتی ہوئی فکر اور فشارِ ذات کی نمائندہ.کیونکہ ان کے زمانی ابعاد جے بیچ میں وہ دنیا دھڑکتی ہے جو ان نظموں کے خالق کی میراث تھی اورجس کےدونوں کناروں کے بیچ خواب اور حقیقت کی بے کنار آبادیاں ہیں.”
نظمیں بہت سی اعلی’ ہیں میں یہاں چند ایک ہی انتخاب کرسکتی ہوں. دامنِ کوہ میں ایک صبح,بندہ پرور,بارش ,وہ آنکھیں یاد آتی ہیں,نیلوفر,دیمک,کچھ لفظ تھے,جادو,کشف کی رات,نیند میں چلتے ہوئے ,تقطیب,آئنے کی مدح میں,محبت میں بھی کرتا ہوں,اسراف,اگر یہ سچ ہے,ارتقاء, گیت,مارشل لاء کے بعد,کابوس,بےساختہ ,روبرو اور بہت سی نظمیں نہایت اچھی ہیں.
نظم.بارش
بارش
دھو دیتی ہے آنکھیں
دل,آئینے,ستارے
گھر,دہلیزیں ,گلیاں
منی پلانٹ کی بیلیں
اوٹ میں رکھی یادیں
گِریہ سے پتھرائے ,گلے میں نچی ہوئی فریادیں
میں بارش کا شیدائی ہوں
بارش دھو دیتی ہے میرے بوسیدہ خوابوں کے پتے
دھول اٹی تعبیریں
روح سے لپٹی اور چھنکتی وعدوں کی زنجیریں
تقصیریں,تعزیریں
بارش لے جاتی ہے
پچھلے سال کے دکھ اور دھند کواپنے ساتھ بہا کر
جیسے بچے لے جاتے ہیں
گھر آنگن کی رونق
بارش آئے تو میں اپنے گھر سے نکلوں
دھوؤں اپنی آنکھیں
گھر ,دہلیز اور گلیاں
نظم.
خواب کے درمیاں
نیند آتی نہ تھی
چاک پر گُھومتی چھاوں پر ہونٹ رکھنے کی لذّت سے محروم ہوتے گگن
پر اُتر آئی تھی،خواب کی روشنی سے اُمڈتی تھکن
خون میں رقص کرتی ہوئی دُھند کی لجلجی لہر سے
پُھوٹ نکلا تھا،آنکھوں کو مہمیز کرتی ہوئی دُھوپ کا زنگ کھایا بدن
خاک آلودہ کُوچوں میں بہنے لگے تھے کسی موجِ حیرت سے پیوستہ سرو و سمن
کوئی دیوانہ پن
رُت بدلتی نہ تھی
ھجر کی آنچ پر جُھولتے جسم میں جمع ہونے لگی تھی
گُل ِغیب کی آگ سے رنگ لیتی ہوئی سُرمئی بےکلی
بند آنکھوں کے ساگر میں بہتی ہوئی
وہم کے ملگجے سبز ملبوس میں جِھلمِلاتی ہوئی اجنبی روشنی
بے رِدا آئینوں پر برستی ہوئی،آبِ حیواں سے لپٹی ہوئی چاندنی
خُوب و معصوم سی
یاد کرتا ہوں میں
اک گلی میں سحر دم ٹہلتے ہوئے
تیز ہونے لگے تھے قدم کس لیے
دُھوپ میں کِھلکِھلاتے ہوئے جسم پر فتح پانے لگی تھی
فراموش گاری سے لِپٹی ہوئی موجِ غم کس لیے
رنگ اور نُور کی زرد میزان پر
ہو رہے تھے مرے خواب کم کس لیے!
نظم
انچاس سال کے بعد
بہت کچھ ہے
جسے میں یاد رکھنا چاہتا ہوں
کہیں پیپل کی چھدری چھاؤں میں سمٹی ہوئی بستی
کہیں گھر میں کسی جزدان میں رکھی ہوئی یادیں
کہیں رودِ نظر افروز پر رکتے ہوئے بادل
کہیں کشتِ ارادت کو جلاتیں سرمگیں آنکھیں
کہیں تاریک شب کی باؤلی میں ڈوبتی سانسیں
کہیں نخلِ ھوائے صبر کے ٹوٹے ہوئے پتے
کہیں موجِ شگفتِ خواب میں بہتی ہوئی مٹی
کہیں بامِ فلک پر سایہ کرتی دھوپ کی ڈاریں
کہیں برگِ دعا کو رقص میں لاتی ہوئی حیرت
کہیں دشتِ رواں میں زمزمہ کرتی ہوئی وحشت
کہیں نخچیر ہوتی فرصتوں میں ڈوبتی صدیاں
کہیں دیوار ہوتے منظروں کے مرمریں پنجر
کہیں گہری تھکن سے لڑکھڑاتے کاروانِ شب
کہیں آزردگی کی دھند میں دم توڑتی لذت
کہیں شاخِ تمنا سے حذر کرتے گلِ راحت
بہت کچھ ہے
جسے میں بھول جانا چاہتا ہوں
تمام نظمیں بے حد خوبصورت,پراثر اور دیر تک گرفت میں لیے رکھنے والی ہیں.
اب ذرا کتاب سے باہر بھی.پنجابی نظم کا مزہ لیں
بُجھارت
بھُورے رنگ دی مٹّی اُتّے
بھُورے رنگ دا پانی
بھُورے رنگ دیاں گاواں دے گل
بھُورے رنگ دی گانی
بھُورے رنگ دی پھُٹّی اندر
بھُورے رنگ دے پیوے
بھُورے رنگ دی چیچی وچ نیں
بھُورے رنگ دے تھیوے
بھُورے رنگ دی کھجیاں اُتّے
بھُوری پِنڈ پئی دِسدی
دسّو بھُوری مستی چڑھیاں
گل ٹُرسی ہُن کِس دی؟
اور ایک اردو غزل بھی انتخاب کیے بنا نہیں رہ سکی .کمال شاعر ہیں ,باکمال شخصیت.
نہیں ہے شہر میں کوئی مکاں ہمارے لیے
کہ دشتِ نجد ہے دارالاماں ہمارے لیے
کہیں قریب سے آتی ہے برتنوں کی کھنک
رُکا ہوا ہے ابھی کارواں ہمارے لیے
ذرا سی دیر میں کیا کچھ بدل گیا ہے یہاں
جنابِ شیخ ہیں رطب اللساں ہمارے لیے
وہ جس کی آنچ سے زنجیرِ در پگھل جائے
ہوا میں ایسی تمازت کہاں ہمارے لیے
نہیں اسیر تو آزاد بھی نہیں ہیں ہم
قفس ہے اور نہ کوئی آشیاں ہمارے لیے
سُنا ہے دیر سے پلکیں بچھائے بیٹھا ہے
تمام حلقۂ آشفتگاں ہمارے لیے
غروب ہونے لگیں گھنٹیوں کی آوازیں
پلٹ کے آئے گا کیا سارباں ہمارے لیے
وہ جانتے ہیں ہمیں شوقِ پیشوائی ہے
قدم بڑھاتے ہیں آیندگاں ہمارے لیے
سنور رہے ہیں کسی شب کدے میں آئینے
کھنچی ہوئی ہے صفِ مہ وشاں ہمارے لیے
یہی ستارے سرِ آسماں دمکتے رہیں
یہی سلوک رہے جاوداں ہمارے لیے
یہ آئنہ ہے کسی اور خوش ادا کے لیے
مگر جراحتِ دیدہ وراں ہمارے لیے
ہماری ٹوٹی ہوئی بیڑیوں سے ڈھالے گئے
یہ تیغِ تیز یہ تیر و کماں ہمارے لیے
گلی گلی میں بھکٹتی صبا بتاتی ہے
کہ بے قرار ہیں غُنچہ دہاں ہمارے لیے
کسی طلسمی کہانی کا کوئی حصّہ ہے
یہ بے نیازیِٔ سُود و زیاں ہمارے لیے
نظر کی حد سے پرے بھی ہیں اپنی جاگیریں
ہوئے ہیں خلق زمین و زماں ہمارے لیے
خدا کرے کہ ترے شہرِ مہربانی میں
کوئی کشش بھی ہو اے جانِ جاں ہمارے لیے
وہی یقین کی صورت گری بھی کرتا ہے
ورائے قریۂ وہم و گماں ہمارے لیے
یہ اور بات کہ ہم اپنے حال پر خوش ہیں
بہت ملول ہے پیرِ مُغاں ہمارے لیے
کسی کی بزمِ سخن میں طلب کیے گئے ہیں
دعائے خیر کریں مہرباں ہمارے لیے
ہزار شکر کہ اس عہد میں بھی ارزاں ہے
خیال و خواب کی جنسِ گراں ہمارے لیے
زباں پہ مہر لگانے کا حکم ہو جاری
عطائے خاص ہے حُسنِ بیاں ہمارے لیے
رُکی ہوئی ہے کسی آئنے میں اب بھی بہار
کِھلا ہوا ہے کہیں گُلستاں ہمارے لیے
ہمارے نطق کو مہمیز اک پری نے کِیا
کہ اُس نے ترک کی طبعِ رواں ہمارے لیے
بہت ہی سادہ ہے تقسیم اس گُلستاں کی
بہار اُن کے لیے ہے ، خزاں ہمارے لیے
یہ راز ہم پہ بہت دیر میں کُھلا ساجد
کہ اک چراغ بھی ہے سر گراں ہمارے لیے
غلام حسین ساجد