بچ نکلنے والا کل ۔۔۔ ثنا فاطمہ
بچ نکلنے والا کل
ثنا فاطمہ
بچ نکلنے والا کل
زندگی سوالوں کے
دائرے سے باہر ہے
راحتیں اذیت کو
فاصلے سے تکتی ہیں
سخت بے یقینی ہے
سخت لا مکانی ہے
راستے کی آنکھوں سے
وحشتیں ٹپکتی ہیں
اے نظر کی بے چینی
کیا تجھے نہیں معلوم
دکھ کا بیشتر حصہ
خود کا منتخب کردہ
پھر گِلے کا کیا مطلب؟
اک تھکا ہوا آنسو
کتنے درد روتا ہے
دُور آسمانوں پر
بخت کے ستارے کو
کون جگمگاتا ہے
زندگی کے ماروں کو کون آزماتا ہے
لطف چھین کر ان سے
وصل آشنائی کا
درد سے جڑے رشتے
سوز سے بھرا سینہ
کرب سے بھری آنکھیں
خاک سے اٹا رستہ
کون دیکھ پاتا ہے
کونسی خردمندی
کسطرح کی ہوشیاری
زندگی کا طول و عرض
موت ناپ لیتی ہے
ہے مفر کسی صورت؟
جاگتی ہوئی راتیں
کیسے جان پائیں گی
دکھ ادھورے خوابوں کے
پل میں محو ہوجانا
پل میں یاد کرلینا
کسطرح پرکھ پائیں
خواب ہے یا افسانہ
زندگی یا عَنقا ہے!
گمشدہ زمانوں کے
جھٹ پٹے میں گم ہو کر
عقیدتوں کا میلہ جب
اختتام پاے گا
گنبدوں کا سُونا پن
کس آنکھ میں سماے گا
عفریت کے ساے سے
بچ نکلنے والا “کل”
آنے والے موسم کو
راستہ بتاے گا
بس دھیان میں رکھنا
روشنی کا یہ پَنّہ
آخری سمے تم سے
چھوٹنے نہیں پاے
ورنہ وادئ دل کا
راہ ڈھونڈتا پنچھی
مہرباں زمانوں کی آنکھ میں چھپا منظر
کیسے دیکھ پاے گا ۔۔۔۔۔