سوگندھی ۔۔۔ سارا شگفتہ
سوگندھی
– سارا شگفتہ
میرے جسم میں تنا ہوا
تمہارا جسم بھی نہیں بتاتا
کہ سوگندھی کہاں ہے
لوگ گناہوں پر بھی جھوٹ بولنے لگے
آنکھیں تو پہلے ہی کالی تھیں
باپ بیٹی کے ساتھ اس لیے سویا
کہ اس نے بیٹی کو جنا
ماں!
مجھے میرے باپ کے نام سے لکھتی ہے
کیا ماں اور ماں اور ماں سوگندھی نہیں
حوا کا نکاح پڑھانے کے لئے
کوئی آسمان سے نہیں اُترا تھا!
میں بھی حرام کی، تم بھی حرام کے
لوگ خوف رکھتے ہیں
لیکن سوگندھی سے بھلا کتنا اور کتنا ڈرا جا سکتا ہے
کہتے ہیں!
سوگندھی نے سوگندھی پہ نظم لکھی ہے
بات لگتی ہے جب دن کالا ہوتا ہے
میں نے انکار سے دیکھا
لوگ سچ بول رہے تھے
آج!
میں اپنی شرمگاہ پہ سر رکھ کر سوجانا چاہتی تھی
میں نے دیکھا!
عورت ایسا نہیں کر سکتی
کیسا عذاب، کاندھوں تک ہی ساتھ دیتا ہے
بعض لوگ مجھے صدی بھی کہتے رہے ہیں
لیکن قبرستان میں کسی بھی کتبے پہ سوگندھی نہیں لکھا ہوا۔۔۔۔
کیا تنہائی بھی اتنی شرکت کر سکتی ہے
تم شاید کبھی نہ بول سکو
تنہا نہیں ہونا
مری زندگی میں کبھی کوئی تنہا نہیں آیا
اس لئے جانے کتنے مردوں کو بھولی بیٹھی ہوں
دیکھتے دیکھتے نیت سوگندھی ہو جاتی ہے
تو پھر، میں ہی، میں ہی، سوگندھی ہوں