نظم ۔۔۔ سرمد صہبائی
نظؐم
سرمد صہبائی
پیڑ کی سبز آغوش میں
کوکتی فاختہ نے کہا
آؤ میَں تم کو یوسف کا قصہ سناتی ہوں
بادل نے آنگن میں جھک کر کہا
مجھ کو دیکھو
میَں دریا کے لب چوم کر آ رہا ہوں
ہواؤں نے دستک دی
پھولوں نے خوشبو کی صف کو بچھایا، کہا
آؤ ہم تم کو رنگوں کی بانی سکھاتے ہیں
کوئی نہ ٹھرا
کسی نے پلٹ کر نہ دیکھا
سبھی دوڑتے، بھاگتے جانے کس سمت کو جا رہے تھے
اُنھیں کیسی جلدی تھی
جانے اُنھیں کون سا روگ تھا
بوڑھی ماؤں نے چادر کے کونے اٹھا کر دعا دی
کہا “پیارے لوگو
زمیں پر اکڑ کر نہ چلنا
زمیں حاملہ ہے
وہ آتے دنوں کے نئے موسموں کی بشارت سے لبریز ہے
آؤ اُس کا سواگت کریں”
کوئی بھی تو نہ ٹھرا
سبھی اپنی اپنی اناوں کی راسوں کو تھامے
زمیں روندتے بے خبر، بے خطر جانے کس سمت جا رہے تھے
سنو ایک پل کو ٹھر جاؤ
پورپ سے چلتی ہوا نے کہا
یہ زمیں غمزدہ ہے، اسے سانس لینے دو
صحرا کے خانہ بدوشوں نے
دریا کے ساحل پہ مٹی کے پیالے بناتے ہوؤں نے
جدائی کے گیتوں میں اُن کو صدا دی
کہیں بے اماں قافلوں نے دہائی دی
وادی کے محکوم لوگوں نے فریاد کی
یہ زمیں غمزدہ ہے، اسے سانس لینے دو
جولان کی چوٹیوں سے پکارا کوئی
رقص کرتی ہوئی نرتکی
حرف لکھتی ہوئی انگلیوں
اور ہاتھی کے پاؤں تلے رینگتی چونٹییوں نے
خبر دی
مگر کون تھا جو ٹھرتا
تکبر میں اکڑی ہوئی گردنیں
فرطِ افراط سے تھلتھلاتے بَدن
تند جبڑوں سے بہتی تحکم بھری جھاگ
باچھوں سے لالچ کی رالیں ٹپکتییں
کوئی آبِ حیوان تھا
جس کی طلب میں اُنھیں خون کی پیاس تھی
وہ ہوس کی زرہ بکتروں میں فتوحات کے
فحش تمغے سجائے
زمیں کو کچلتے چلے جا رہے تھے
کوئی بھی نہ تھا جو اُنھیں روکتا
کون، کوئی نہ تھا
ایک مچھر برار اچانک اڑی چھینٹ پانی کی
نتھنوں میں اتری تو چلتے قدم
تھم گئے
اُن کے سینوں میں دَم تھم گئے
تھم گئی آسمانوں پہ پرواز
شہروں میں بڑھتے ہجوموں کی رفتار
بازار، گلیاں، مکاں تھم گئے
ایک سنسان سکتے میں
ہست و عدَم تھم گئے
کوئی آسیب تھا جو زمانے کے رستوں پہ یوں پھِر گیا
کہ کہیں کوئی آدم نہ آدم کا سایا رہا
موت ہی موت چاروں طرف
موت جس کا نہ چہرہ، نہ مذہب، نہ نام و نسب
موت مٹی کی تقدیس، سینے پہ قدموں کی ہر چاپ
سنتی ہے
اور پھر یہی موت دل میں تمنا کا جادو جگاتی ہے
ہم سب کو جینے کی لذت سکھاتی ہے
پھولوں کے موسم میں
اس بار شہروں میں جب
اک نئی صبح آئی
تو سارے گھروں کے دریچے کھُلے
اور سب نے کہا
ہم نے پہلے کبھی اس قدر پھول دیکھے نہ تھے
کوکتی فاختہ کو کبھی ہم نے
پہلے سنا ہی نہ تھا
باخدا
آسماں اتنا نیلا نہ تھا