براون صاحب کی کوٹھی ۔۔۔ ستیہ جیت رے
براؤن صاحب کی کوٹھی
ستیہ جیت رے
جب سے براؤن صاحب کی ڈائری ملی تھی ، بنگلور جانے کاموقع تلاش کر رہا تھا، اور وہ موقع اچانک میرے سامنے آگیا۔ بالی گنج اسکول کے سالانہ ری یونین کے موقعے پر پرانے ہم جماعت انیک چندر بھومک سے میری ملاقات ہوگئی۔ انیک نے بتایا کہ وہ بنگلور میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں نوکری کرتا ہے۔’’ ایک بار میرے یہاں گھومنے پھرنے آؤ نا۔ دَ بیسٹ پیلس اِن انڈیا۔ میرے گھر میں ایک علیحدہ کمرہ بھی ہے۔ آؤگے نا؟‘‘
اسکول میں انیک میرا گہرا دوست تھا۔ اس کے بعد جیسا ہوتا ہے وہی ہوا۔ ہم الگ الگ کالج میں داخل ہوے۔ اس کے علاوہ وہ سائنس کا طالب علم تھا اور میںآرٹ کا ۔ دونوں نے مختلف راستوں پر چلنا شروع کیا۔ پھر وہ ولایت چلا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دونوں کی دوستی میں تھوڑی بہت رکاوٹ آگئی۔ آج تقریباً بارہ سال کے بعد اس سے ملاقات ہوئی۔
میں نے کہا، ’’آسکتا ہوں۔ کون سا موسم سب سے اچھا رہتا ہے؟‘‘
’’کبھی بھی۔ بنگلور میں گرمی نہیں پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحبوں کو یہ جگہ اتنی پسند تھی۔ جب مرضی ہو چلے آنا۔ اور ہاں، سات دن پہلے خبر بھیج دو تو بہتر ہوگا۔‘‘
خیر، اب ہوسکتا ہے براؤن صاحب کی کوٹھی دیکھنے کا سنہرا موقع مل جائے۔ لیکن اس کے پہلے یہ ضروری ہے کہ براؤن صاحب کی ڈائری کے بارے میں بتادوں۔
مجھے آپ ایک طرح سے پرانی کتابوں کا کیڑا کہہ سکتے ہیں۔ بینک میں نوکری کر کے جتنا کماتا ہوں اس کا تقریباً آدھا پرانی کتابوں کی خریداری میں چلا جاتا ہےـ سیاحتوں کی کہانیاں، شکار کی کہانیاں، تاریخ، سوانح عمری اور ڈائری وغیرہ۔ بہت ساری کتابیں پانچ سال کے درمیان میرے پاس جمع ہوگئی ہیں۔ کیڑوں کے چاٹے ہوے صفحات ، پرانے اور کمزور صفحات، ایک جگہ رکھے رہنے کی وجہ سے بے رنگ صفحات، ان سب سے بھی اچھی طرح واقف ہوں اور یہ سب میری عزیز ترین چیزیں ہیں۔اور پرانی کتابوں کی خوشبو! پہلی برسات کے بعد بھیگی مٹی سے جو سوندھی خوشبو آتی ہے اس کی اور پرانی کتابوں کے صفحات کی خوشبو، ان دونو ں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اگر، زعفران، گلاب، خس، حنا، یہاں تک کہ فرانس کے عمدہ سے عمدہ پرفیوم کو ان دونوں کے سامنے ہار ماننا پڑے گی۔
پرانی کتابیں خریدنے کامجھے نشہ ہے اور پرانی کتابیں خریدنے کے سلسلے میں ہی براؤن صاحب کی ڈائری ملی تھی۔ اتنا بتا دوں کہ یہ چھپی ہوئی ڈائری نہیں ہے۔ حالانکہ چھپی ہوئی ڈائری بھی میرے پاس ہے۔وہ ڈائری سرپت کے قلم سے لکھی ہوئی اصلی ڈائری ہے۔ سرخ چمڑے سے مڑھی ہوئی، ساڑھے تین سو اوراق کی رول دار کاپی، ساڑھے چھ انچ ضرب ساڑھے چار انچ جلد کے چاروں طرف سونے کے پانی کی نقاشی کیا ہوا بارڈر ہے اور بیچ میں سنہرے چھپے حروف میں صاحب کا نام لکھا ہوا ہے ـجان مڈلٹن براؤن۔ جلدالٹنے کے بعد پہلے ورق پر صاحب کے دستخط ہیں اور نیچے ان کا پتاـایور گرین لاج، فریزر ٹاؤن، بنگلور۔ اور اس کے نیچے لکھا ہے: جنوری1858۔ یعنی اس ڈائری کی عمر ایک سو تیرہ سال ہے۔ براؤن صاحب کانام کئی اور کتابوں پر تھا اور انھیں کتابوں کے ساتھ یہ سرخ چمڑے سے منڈھی کاپی تھی۔ شہرت یافتہ کتابوں کے مقابلے میں اس کتاب کی قیمت بہت کم تھی۔ مقبول نے بیس روپے کامطالبہ کیا، میں نے دس روپے قیمت لگائی، آخر کار بارہ روپے میں سودا طے ہوگیا ۔ براؤن صاحب کوئی نامی آدمی ہوتے تو اس کتاب کا دام ایک ہزار روپے تک ہوسکتا تھا۔
ڈائری سے اس زمانے کے ہندوستان کے صاحبوں کی روز مرہ کی زندگی کے علاوہ اور کسی چیز کے بارے میں بھی علم حاصل ہوسکتاتھا، ایسی امید مجھے نہیں تھی۔
سچ کہہ رہا ہوں، شروع کے سو ورق پڑھ جانے پر بھی اس سے زیادہ کچھ نہ ملا ۔ براؤن صاحب اسکول ماسٹر تھے۔ بنگلور کے کسی اسکول میں پڑھانے کا کام کرتے تھے۔ صاحب نے اپنی باتیں زیادہ لکھی ہیں؛ بیچ بیچ میں بنگلور شہر کا بھی ذکر ہے۔ ایک جگہ بڑے لاٹ صاحب کی بیوی لیڈی کیننگ کے بنگلور آنے کے واقعے کا بھی ذکر کیا ہے۔ بنگلور کے پھول پھل، پیڑ پودوں اور باغیچوں کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ ایک جگہ انگلینڈ کے اپنے آبائی گھر اور بچھڑے ہوے قریبی رشتے داروں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ بیوی الز بتھ کا بھی ذکر ہے جس کا کئی سال پہلے انتقال ہوچکا تھا۔ اس میں سب سے دلچسپ بات جو ہے وہ یہ کہ سائمن کون تھاـ اس کا لڑکا یابھائی یا بھانجا۔ یہ بات ڈائری سے سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ مگر ہاں، سائمن کے لیے صاحب کے دل میں جو گہرا لگاؤ تھا اسے سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ ڈائری میں سائمن کی عقل، سائمن کی ہمت، سائمن کے غصے، غرور، شرارت اور من موجی پن وغیرہ کا ذکرکیا گیا ہے۔ سائمن فلاں کرسی پر بیٹھنا پسند کرتا ہے ، آج سائمن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، آج دن بھر سائمن پر نظر نہ پڑنے کی وجہ سے دل اداس ہےـاس طرح کی چھوٹی موٹی باتیں بھی ہیں۔ ا س کے علاوہ سائمن کی دردناک موت کی خبر بھی ہے۔ 22ستمبر کو شام ساڑھے سات بجے بجلی گرنے سے سائمن کی موت واقع ہوئی تھی۔ دوسرے دن صبح کے وقت براؤن صاحب کے باغیچے کے جھلسے ہوے یوکلپٹس کے درخت کے پاس سائمن کی لاش ملی تھی۔
ا س کے بعد ایک مہینے تک ڈائری میں ایسی کوئی قابلِ ذکر بات نہیں ہے۔ جو ہے اس میں دکھ اور مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ براؤن صاحب نے اپنے وطن لوٹ جانے کی بات سوچی ہے، مگر ان کا دل نہیں چاہتا کہ وہ سائمن کی روح سے دور چلے جائیں۔ صاحب کی صحت بھی ذراخراب ہوگئی ہے۔ آج بھی اسکول نہیں گیاـ اس بات کاذکر پانچ پانچ جگہ پر ہے۔ لکاس نام کے ایک ڈاکٹر کابھی ذکر کیا گیا ہے جس نے براؤن صاحب کی صحت کی جانچ کی تھی اور دوا لکھ کر دی تھی۔
اس کے بعد اچانک دونومبر کی ڈائری میں ایک حیرت انگیز واقعے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور اسی واقعے نے میری نظر میں ڈائری کی قیمت ہزاروں گنا بڑھا دی ہے۔ براؤن صاحب روزانہ کے واقعات نیلی روشنائی سے لکھتے تھے مگر اس واقعے کو انھوں نے سرخ روشنائی سے لکھا ہے۔ اس میں انھوں نے ایک ایسے واقعے کا ذکر کیا ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ میں اس کا ترجمہ پیش کرر ہا ہوں:
’’ میں تیسرے پہر اپنا دل بہلانے کے لیے لال باغ کے پیڑ پودوں کے پاس گیا تھا۔ شام ساڑھے سات بجے گھر لوٹ کر جیسے ہی ڈرائنگ روم کے اندر داخل ہوا، دیکھا، سائمن آتشدان کے پاس اپنی پیاری ہائی بیکڈ کرسی پر بیٹھا ہے۔ سائمن!ـ واقعی سائمن ہی تھا۔ میں اسے دیکھ کر خوشی سے پاگل ہوگیا۔ اور وہ صرف بیٹھا ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی محبت بھری نگاہوں سے مجھے ایک ٹک دیکھ رہا ہے۔ اس کمرے میں روشنی نہیں ہے۔ میرے کام چور خانساماں ٹامس نے یہاں بتی نہیں جلائی ہے۔ اس لیے سائمن کو غور سے دیکھنے کے لیے میں نے جیب سے دیاسلائی باہر نکالی۔ تیلی کو ڈبیا سے رگڑتے ہی روشنی ہوگئی، مگر مجھے بہت ہی افسوس ہوا کیونکہ اس دوران سائمن غائب ہوگیا۔ اتنا ضرور ہے کہ مجھے یہ امید نہیں ہے کہ پھر کبھی سائمن کو دیکھ سکوں گا۔ اس طرح بھوت کی حالت میں بھی اگر وہ کبھی کبھی دکھائی دے جائے تو میرے دل سے تمام دکھ دور ہوجائیں۔ واقعی آج بہت خوشی کا دن ہے۔ مر کر سائمن مجھے بھول نہیں سکا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی پیاری کرسی کو بھی نہیں بھولا ۔دہائی ہے سائمن! بیچ بیچ میں تم نظر آجانا ۔ اس کے علاوہ میں تم سے اور کچھ نہیں چاہتا ہوں ۔ اتنا ہی میسر ہوجائے تو میں اپنی باقی زندگی چین و سکون سے گزار لوں گا۔‘‘
اس کے بعدڈائری پڑھی نہیں جاتی۔ جو کچھ بھی ہے، اس میں دکھ کی کوئی چھاپ نہیں، کیونکہ سائمن سے براؤن صاحب سے ہر روز ملاقات ہوجاتی ہے، سائمن کے بھوت نے صاحب کو مایوس نہیں کیاتھا۔
ڈائری کے آخری ورق پر لکھا ہے : ’’جو مجھے پیار کرتا ہے، اس کی موت کے بعدبھی اس کا پیار برقرار ہے۔ یہ جان کر مجھے بے حد سکون ملتا ہے۔‘‘
بس، اتنا ہی ۔ لیکن اب سوال اٹھتا ہے:براؤن صاحب کی کوٹھی، بنگلور کے فریزر ٹاؤن کا ایورگرین لاج، اب ہے یا نہیں، اور وہاں اب بھی شام کے وقت سائمن کے بھوت کی آمد ہوتی ہے یا نہیں؟ میں اگر اس کوٹھی میں جاکر ایک شام گزاردوں تو کیا سائمن کے بھوت کو دیکھ سکوں گا؟
بنگلور آنے پر پہلے دن انیک کو اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔ اس کی ایمبیسڈر گاڑی پر گھوم کر پورے بنگلور شہر کی سیر کی۔ یہاں تک کہ فریزر ٹاؤن کو بھی نہیں چھوڑا۔ بنگلور واقعی بہت خوبصورت جگہ ہے، اس لیے اس شہر کی تعریف کرنے میں مجھے جھجھک نہیں ہوئی۔ بنگلور صرف خوبصورت ہی نہیں ہے، کلکتہ سے یہاں آنے پر محسوس ہوا جیسے بنگلور ہر قسم کی ہلچل سے دور شانت شہر ہےـبالکل میرے غیر حقیقی خوابوں کے دیس جیسا۔
اگلے روز اتوار تھا۔ صبح انیک کے باغیچے میں رنگین چھتری کے نیچے بیٹھ کر چائے پیتے ہوے میں نے براؤن صاحب کا ذکر کیا۔ سن کر اس نے چائے کی پیالی بینت کی کرسی پر رکھ دی اور کہا، ’’دیکھو رنجن، جس کوٹھی کا تم نے ذکر کیا وہ شاید اب بھی ہو۔ ایک سو سال یوں کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہے۔ اور ہاں، وہاں جاکر اگر بھوت دیکھنے کا ارادہ ہے تو میں اس کام میں بالکل ساتھ نہیں دے سکتا ۔ برا مت ماننا بھائی، میں ہمیشہ سے ذرا حساس رہا ہوں۔ یوں ہی مزے میں ہوں۔آج کل شہر میں کوئی فساد نہیں ہے۔ بھوت کے پیچھے دوڑنے کامطلب ہے جان بوجھ کر فساد کو دعوت دینا۔ میں اس کام میں شریک نہیں ہوسکتا۔‘‘
انیک کی باتیں سن کر محسوس ہوا، بارہ سال کے دوران میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اسکول میں بھی وہ ڈرپوک کے نام سے مشہور تھا۔ یاد آیا، ایک بار ہمارے ہم جماعت جینت اور کچھ شرارتی لڑکوں نے مل کرایک شام بالی گنج کے سرکلر روڈ کے رائیڈنگ اسکول کے پاس خود کو سر سے پیر تک سفید کپڑے سے ڈھک کر اسے ڈرا دیا تھا۔ انیک اس واقعے کے بعد دو دن اسکول نہیں آیاتھا اور انیک کے والد نے ہیڈماسٹر ویریشور بابو کے پاس آکر اس واقعے کی شکایت کی تھی۔
میں اس بارے میں کچھ کہوں، اس کے پہلے ہی اچانک انیک نے کہا ، ’’اگر تمھیں جانا ہی ہے تو ساتھی کی کمی نہیں ہوگی۔ آئیے مسٹر بنرجی!‘‘
میں نے پیچھے کی طرف مڑکر دیکھا۔ تقریباً پیتالیس سال کے ایک ادھیڑ عمر شخص انیک کے باغیچے کے پھاٹک سے داخل ہوکر ہنستے ہوے ہماری طرف آرہے ہیں۔ ہٹا کٹا بدن، تقریباً چھ فٹ اونچا قد، لباس سلیٹی رنگ کی ہینڈ لوم کی پتلون اور اس پر گہرے نیلے رنگ کی ٹیریلین کی بش شرٹ، گلے میں کالا سفید بواور ریشمی مفلر۔
انیک نے تعارف کرایا،’’ آپ ہیں میرے دوست رنجن سین گپت اور آپ مسٹر ہرشی کیش بنرجی۔‘‘
معلوم ہوا کہ وہ بنگلور کی ایر کرافٹ فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ بہت دن سے بنگال کے باہر ہیں اس لیے ان کے لہجے میں غیر بنگالی پن کی چھاپ ہے۔ ساتھ ہی انگریزی الفاظ کااستعمال کثرت سے کرتے ہیں۔
انیک نے بیرے کو پکارا اورایک پیالی چائے لانے کا حکم دیا، اور پھر سیدھے براؤن صاحب کی کوٹھی کا ذکر چھیڑ دیا۔ سن کر انھوں نے ایسا قہقہہ لگایاکہ ایک گلہری جو کچھ دیر پہلے ہماری میز کے اردگرد چکر لگارہی تھی، اپنی دم اٹھا کر دیودارو کے پیڑ کے تنے کو پار کر اونچی ڈال پر چل گئی۔
’’گوسٹس؟ گوسٹس؟ یوسیریسلی بی لیو اِن گوسٹس ؟ اس زمانے میں بھی؟ اس دور میں بھی؟‘‘
بنرجی کی ہنسی کا سلسلہ تھمنے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔ دیکھا ان کے دانت سفید اور مضبوط ہیں۔
انیک نے کہا، ’’چاہے جو بھی ہو مسٹر بنرجی، گوسٹ اور نوگوسٹ، ویسا اگر کوئی مکان ہے اور رنجن جبکہ ایک عجیب وہم پالے ہوے ہے تو اس کے ساتھ کسی شام آپ وہاں تھوڑی دیر تک رہ سکتے ہیں یا نہیں، یہ بتائیے۔ وہ کلکتہ سے آیا ہے اور میرا مہمان ہے۔ اسے میں وہاں اکیلے نہیں جانے دوں گا۔ اور سچ کہوں، میں بہت محتاط رہنے والا آدمی ہوں، اگر میں اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں تو اسے آسانی کے بجاے پریشانی ہوگی۔‘‘
مسٹر بنرجی نے اپنی قمیص کی جیب سے ایک ترچھے پائپ کو باہرنکالااور اس میں تمباکو ٹھونستے ہوے کہا ، ’’مجھے کوئی دقت نہیں ہے۔ مگر ہاں، میں ایک ہی شرط پرجاسکتا ہوں۔ وہ یہ کہ میں اپنے ساتھ ایک کے بجاے دو آدمی لے کرجاؤں گا۔‘‘
اپنی بات ختم کر کے بنرجی نے پھر ایک قہقہہ لگایا اور اس قہقہے کی وجہ سے آس پاس کے پیڑوں سے چار پانچ قسم کے پرندوں کی کرخت آواز اور پنکھوں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی۔
انیک کا چہرہ حالانکہ ذرا اتر گیا مگر وہ انکارنہیں کرسکا۔
’’کوٹھی کا نام کیا بتایا؟‘‘ بنرجی نے پوچھا، ’’ایور گرین لاج؟‘‘
’’ڈائری تو یہی بتاتی ہے۔‘‘
’’ہوں…‘‘ انھوں نے پائپ کا کش لیا۔ ’’فریزر ٹاؤن میں صاحبوں کی کچھ کوٹھیاں ہیں، کاٹیج ٹائپ کی۔ اینی وے… اگر جاناہی ہے تو دیر کرنے سے کیافائدہ؟ واٹ اباؤٹ آج تیسرے پہر؟ یہی کوئی چار بجے؟‘‘
انجینئر ہونے سے کیاـ انداز بالکل ملٹری مین اور صاحب کے جیسا ہے۔گھڑی دیکھ کر ٹھیک چاربجے ہرشی کیش بنرجی اپنی مورس مائنر کارلے کر آدھمکے۔ جب گاڑی میں بیٹھ گئے تو انھوں نے کہا، ’’ساتھ میں کیا کیا لیا؟‘‘
انیک نے فہرست بتائی۔ پانچ سیل کا ایک ٹارچ، چھ موم بتیاں، فرسٹ ایڈ باکس، ایک بڑے فلاسک میں گرم کافی،ایک ڈبا ہیم سینڈوچ، ایک پیکٹ تاش، زمین پر بچھانے کے لیے ایک چادر، مچھروں کو بھگانے کے لیے ایک ٹیوب اوڈوماس۔‘‘
’’اور ہتھیار؟‘‘ بنرجی نے پوچھا۔
’’بھوت کو کس ہتھیار سے قابو میں کیا جاتا ہے؟‘‘
’’کیوں رنجن، تمھارے سائمن کابھوت کیسا ہے؟ خیر…‘‘ مسٹر بنرجی نے گاڑی کے دروازے کو بندکر تے ہوے کہا، ’’میرے پاس ایک چھوٹاسا آگ اگلنے والاہتھیار ہے، اس لیے سالڈ لیکوِڈ کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
گاڑی روانہ ہونے پربنرجی نے کہا، ’’ایورگرین لاج کی بات بے پر کی نہیں ہے۔‘‘
میں نے حیران ہوکر کہا، ’’آپ نے اس درمیان پتا بھی لگا لیا؟‘‘
بنرجی نے ایک ایک کر دو سائیکل سواروں کے بیچ سے گاڑی نکالتے ہوے کہا، ’’آئی ایم اے ویری میتھوڈیکل مین، مسٹر سین گپت۔ جہاں جانا ہے، وہ جگہ ہے یا نہیں، اس کے بارے میں پہلے سے ہی پتا لگالینا کیا ٹھیک نہیں ہے؟ اُس طرف شری نواس دیش مکھ رہتے ہیں۔ ہم ایک ساتھ ہی گولف کھیلتے ہیں۔ ان سے میری کافی پرانی جان پہچان ہے۔ صبح یہاں سے انھیں کے گھر گیا تھا۔ انھوں نے بتایا، ایور گرین نام کا ایک منزلہ کاٹیج تقریباً پچاس سال سے خالی پڑا ہے۔ مکان کے باہر ایک باغیچہ ہے، جہاں لوگ دس سال پہلے تک پکنک کرنے جایا کرتے تھے، مگر اب نہیں جاتے ۔ مکان بالکل سنسان علاقے میں ہے۔ پہلے بھی اس مکان میں کوئی ایک لمبے عرصے تک نہیں رہا ہے اور ہاں، کسی نے ہانٹڈ ہاؤس کہہ کر اسے بدنام نہیں کیا ہے۔ مکان کافرنیچر بہت پہلے ہی نیلام ہوچکا ہے۔ ان میں سے کچھ کرنل مارسر کے مکان میں ہے۔ وہ ایک ریٹائرڈ آرمی افسر ہیں اور فریزر ٹاؤن میں ہی رہتے ہیں۔ سب کچھ سننے کے بعد لگتا ہے، مسٹر سین گپت، ہمیں پکنک کر کے ہی لوٹ آنا پڑے گا۔ انیک نے تاش لاکراچھا ہی کیا ہے۔‘‘
بنگلور کی صاف ستھری چوڑی سڑک سے گاڑی گزرتے ہوے محسوس ہورہا ہے ، یہ شہر بھوت پریت سے اتنا خالی ہے کہ یہاں کسی بھوت بنگلے کے وجود کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔
لیکن اس کے بعد ہی مجھے براؤن صاحب کی ڈائری کی بات یاد آجاتی تھی۔ پاگل ہوے بغیر کوئی آدمی اس طرح کی حیرت انگیز باتیں ڈائری میں کیوں لکھے گا؟ سائمن کے بھوت کو براؤن صاحب نے خود ہی دیکھا ہےـ ایک بار نہیں، کئی بار۔ وہ بھوت کیا ہمیں ایک بار بھی دکھائی نہ دے گا؟
میں ولایت نہیں گیا ہوں مگر ولایت کی کاٹیجوں کی بے شمار تصویریں کتابوں میں دیکھی ہیں۔ ایورگرین لاج کے سامنے آنے پر آکر محسوس ہوا، میں واقعی انگلینڈ کے دیہی علاقے کے ایک پرانے ویران مکان کے سامنے آگیا ہوں۔
کاٹیج کے سامنے باغیچہ ہے ۔ یہاں اب پھولوں کی کیاریوں کی جگہ گھاس اور جھاڑ جھنکاڑ ہیں۔ لکڑی لے کر باغیچے کے اندر جانا پڑتا ہے۔ اس گیٹ کے سرے پر گھر کانام لکھا ہے۔ اور ہاں، شاید کسی پکنک کرنے والے کی جماعت نے ہی مذاق میں ’’ایورگرین‘‘ لفظ سے پہلے ایک’این‘ جوڑکر اسے ’’نیور گرین‘‘ بنادیا ہے۔
ہم گیٹ سے داخل ہوکر مکان کی طرف بڑھنے لگے ۔ چاروں طرف ان گنت پیڑ پودے ہیں۔ تین چار یوکلپٹس کے پیڑ ہیں، باقی جتنے بھی پیڑ ہیں ان کا مجھے نہیں معلوم ۔ بنگلور کی آب و ہوا میں یہ خاصیت ہے کہ وہاں کسی بھی علاقے کا درخت زندہ رہ جاتا ہے۔
کاٹیج کے سامنے ٹائل سے چھاؤنی کیا ہوا پورٹیکو ہے۔ اس کے ٹیڑھے میڑھے کھمبوں سے ہوتی ہوئی بیل اوپر کی طرف چلی گئی ہے۔ چھاؤنی کی بہت سی ٹائلیں غائب ہیں، جس کی وجہ سے درار سے آسمان دکھائی دیتا ہے۔ سامنے کے دروازے کا ایک پٹ ٹوٹ کر ترچھا پڑاہوا ہے۔ مکان کے سامنے کے دروازے کھڑکیوں کے کانچ ٹوٹ گئے ہیں۔ دیوار پر لونی لگنے کی وجہ سے ایسی حالت ہوگئی ہے کہ مکان کااصل رنگ کیا تھا،اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ہم دروازے سے مکان کے اندر داخل ہوے۔
اندر جاتے ہی ایک گلیارا ملا۔ پیچھے کی طرف ٹوٹی دیوار سے ایک کمرہ نظر آرہا ہے۔ ہمارے داہنے اور بائیں طرف بھی کمرے ہیں۔ داہنی طرف کا کمرہ بڑا معلوم ہوتا ہے۔ اندازہ لگایا، یہی بیٹھک رہی ہوگی۔فرش پر ولایتی انداز کے تختے لگے ہیں، مگرایک بھی تختہ صحیح سالم نہیں ہے۔ ہوشیاری سے قدم رکھنا پڑتا ہے اور ہر قدم پر کھٹ کھٹ کی آواز ہوتی ہے۔
ہم کمرے کے اندر داخل ہوے۔
خاصا بڑا کمرہ ہے۔ فرنیچر نہ ہونے کی وجہ سے اور بھی سونالگتا ہے۔ مغرب اور شمال کی طرف کھڑکیوں کی قطار ہے۔ ایک طرف کی کھڑکی سے گیٹ سمیت باغیچہ دکھتا ہے، دوسری طرف کی کھڑکی سے درختوں کی قطار ۔ کیا انھیں پیڑوں میں سے کسی پر بجلی گری تھی؟ سائمن اسی کے نیچے کھڑا ہوگا اور وہیں پر اس کی موت واقع ہوئی ہوگی۔ سوچتے ہی رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
اب میں نے جنوب کی طرف بغیر کھڑکی والی دیوار کی طرف دیکھا۔ بائیں کونے میں آتشدان ہے۔ اس آتشدان کے پاس ہی سائمن کی پیاری کرسی رہی ہوگی۔ کمرے کی چھت کی طرف دیکھنے پر مکڑی کے جالوں کو جھولے ہوے پایا۔ کسی زمانے میں ایورگرین لاج خوبصورت رہا ہوگا، اب اس کی حالت خستہ ہوگئی ہے۔
مسٹر بنرجی شروع میں ’’لا… لا… لا…‘‘ کرتے ہوے ولایتی لہجے میں گنگنا رہے تھے۔ اب انھوں نے پائپ سلگایا اور کہا ، ’’آپ لوگ کون سا کھیل کھیلنا جانتے ہیں؟ بر ج یا پوکر یا رمی؟‘‘
انیک اپنے سامان کو فرش پر رکھنے جارہا تھا، تبھی ایک آواز سنائی دی۔
کسی دوسرے کمرے میں کوئی آدمی جوتاپہن کر چہل قدمی کر رہا ہے۔
انیک کی طرف دیکھا تو اس کا چہرہ اترا ہوا پایا۔ پیروں کی آواز تھم گئی۔ مسٹر بنرجی اچانک اپنے منھ سے پائپ ہٹاکر زور سے چلا اٹھے،’ ’اِز اینی باڈی دےئر؟‘‘ اور ہم تینوں گلیارے کی طرف بڑھ گئے۔ انیک اپنے ہاتھ سے میرے کوٹ کی آستین تھامے ہوے تھا۔
جوتے کی آواز پھر سے شروع ہوئی۔ ہم جیسے ہی باہری گلیارے میں پہنچے، دوسری طرف کے کمرے سے ایک آدمی نکل آیااور ہم پر نظر پڑتے ہی چونک کر کھڑا ہوگیا۔ وہ بھی ایک ہندوستانی ہی تھا۔ چہرہ داڑھی اور مونچھوں سے بھرا ہونے کے باوجود بھی وہ شریف اور تعلیم یافتہ معلوم ہورہا تھا۔ اس نے کہا، ’’ہیلو!‘‘
وہ کون ہے، یہ سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ تبھی اجنبی نے خود ہی ہمارے تجسس کو رفع کردیا۔
’’میرا نام وینکٹیش ہے۔ آئی ایم اے پینٹر۔ آپ لوگ اس مکان کے مالک ہیں یاخریدار؟‘‘
بنرجی نے ہنستے ہوے کہا،’’دونوں میں سے ایک بھی نہیں۔ ہم چکر لگاتے لگاتے یوں ہی یہاں پہنچ گئے ہیں۔‘‘
’’آئی سی! میرا خیال تھا، اگر یہ مکان مجھے مل جاتا تو اپنے کام کے لیے ایک اسٹوڈیو بنالیتا۔ ٹوٹا پھوٹا ہونے پر بھی مجھے اعتراض نہیں ہے۔ مالک کون ہے، اس بارے میں آپ لوگوں کو کوئی علم نہیں ہے؟‘‘
’’جی نہیں، سوری۔ آپ کرنل مارسر کے یہاں جاکر معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ سامنے کے راستے سے بائیں طرف چلے جائیے ۔ پانچ منٹ کا راستہ ہے۔‘‘
’’شکریہ‘‘ کہہ کر مسٹر وینکٹیش وہاں سے چلے گئے۔
گیٹ کھولنے اور بند کرنے کے بعد مسٹر بنرجی نے ایک قہقہہ لگاتے ہوے کہا، ’’مسٹر سین گپت، یہ آدمی آپ کے سائمن یا اس قسم کا کوئی بھوت وغیرہ نہیں ہے۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا،’’ ابھی صرف سوا پانچ ہی بجے ہیں، ابھی سے آپ بھوت کی امید کیسے کرسکتے ہیں؟ اور یہ بھلے آدمی اگر بھوت تھے تو انیسویں صدی کے نہیں ہوں گے، کیونکہ ویسا ہونے پر ان کا لباس اور ہی طرح کا ہوتا۔‘‘
اس بیچ ہم بیٹھک میں لوٹ آئے ہیں۔ انیک نے فرش پر بچھی ہوئی چادر پربیٹھتے ہوے کہا، ’’بے وجہ کوئی وہم پالنے کامطلب ہے نروس ہونا۔ اس سے تو بہتر یہی ہے کہ ہم تاش کھیلیں۔‘‘
’’پہلے تو کچھ موم بتیاں جلالو،‘‘ بنرجی نے کہا، ’’یہاں شام اچانک اتر آتی ہے۔‘‘
دو موم بتیاں جلاکر ہم نے انھیں لکڑی کے فرش پر کھڑا کردیا۔ اس کے بعد فلاسک کے ڈھکن میں کافی نکال کرباری باری سے پی۔ ایک بات میرے دل میں بہت دیر سے تھی، اسے بغیر کہے نہیں رہ سکا۔ بھوت کانشہ میرے سرپر کتنا سوار ہوگیا ہے، یہ آپ پر میری اس بات سے ظاہر ہوجائے گا۔ بنرجی کی طرف مخاطب ہوکر میں نے کہا، ’’آپ نے بتایاتھا کہ کرنل مارسر نے یہاں کا کچھ فرنیچر خریدا تھا۔ وہ جب اتنے قریب ہیں تو کیا ان سے ایک بات دریافت کی جاسکتی ہے؟‘‘
’’کیا؟‘‘ بنرجی نے پوچھا۔
’’ایک خاص قسم کی ہائی بیکڈ چےئر کے بارے میں؟‘‘
انیک نے تھوڑا اکتا کر کہا، ’’اچانک ہائی بیکڈ چےئر کے بارے میں پوچھ کر کیا ہوگا؟‘‘
’’نہیں، یعنی براؤن صاحب نے لکھا ہے وہ سائمن کی بڑی ہی پیاری کرسی تھی۔ بھوت ہونے کے بعد بھی وہ اسی کرسی پر بیٹھتا تھا اور وہ آتشدان کے پاس رکھی رہتی تھی۔ ہوسکتا ہے اسے یہاں لاکر رکھنے سے …‘‘
انیک نے میری کاٹتے ہوے کہا، ’’ تم بنرجی صاحب کی اس مارِس کار پر ہائی بیکڈ چےئر لے آؤگے یا ہم تینوں ہی اسے کندھوں پر ڈھوکر لے آئیں؟ تمھارادماغ خراب ہوگیا ہے کیا؟‘‘
بنرجی نے ہاتھ اٹھاکر ہم دونوں کو چپ کرایا اور کہا، ’’کرنل مارسر نے جو کچھ خریدا ہے اس میں اس قسم کی کرسی نہیں ہے، یہ بات مجھے معلوم ہے۔ میں اکثر ان کے گھر جایا کرتا ہوں۔ اگر وہ کرسی وہاں ہوتی تو میری نگاہ ضرور پڑتی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ، انھوں نے دو بک کیس، دوآئل پینٹنگ، کچھ گلدستے اور شیلف سجانے کی کچھ شوقیہ چیزیں، جنھیں آرٹ آبجیکٹ کہتے ہیں، خریدی تھیں۔‘‘
میرا جوش ٹھنڈا پڑگیا۔ تاش نکال کر پھینٹنا شروع کیا۔ بنرجی نے کہا، ’’رمی ہی چلے، اور یہ کھیل تبھی جمتا ہے جب پیسہ لگاکر کھیلا جائے۔ آپ لوگوں کو اس بات پر کوئی اعتراض ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’بالکل نہیں۔ بس اتنی بات ضرور ہے کہ میں ٹھہرا بینک کا معمولی ملازم۔ بہت زیادہ پیسہ لگانے کی میری حیثیت نہیں ہے۔‘‘
باہر دن کی روشنی پھیکی ہوگئی ہے۔ ہم کھیل میں مشغول ہوگئے۔ تاش کے کھیل میں تقدیر کبھی میرا ساتھ نہیں دیتی ہے۔ آج بھی وہی حالت رہی۔ میں جانتا ہوں، انیک دل ہی دل میں گھبرایا ہوا ہے، اس لیے اگر جیت اس کی ہو تو مجھے بہت سکون ملے گا، مگر اس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ صرف مسٹر بنرجی کی تقدیر ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ وہ ولایتی لہجے میں گنگناتے جارہے ہیں اور داؤں پر داؤں جیتے جارہے ہیں۔ کھیلتے کھیلتے سناٹے کے بیچ ایک بلّے کی آواز سنائی دی، جس کی وجہ سے میرے جوش پر اور زیادہ پانی پھر گیا۔ بھوت بنگلے میں بلّے کا رہنابھی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بات جب میں نے بنرجی سے کہی تووہ ہنس کر بولے، ’’بٹ اٹ واز اے بلیک کیٹ۔ اسی گلیارے سے ہوکر گیا ہے۔ بلیک کیٹ تو بھوت کے ساتھ جاتا ہی ہے، ہے نا یہ بات؟‘‘
کھیل کا سلسلہ چلتا رہا۔ بیچ میں ایک انجان پرندے کی کرخت آواز کے سوا کسی طرح کی آواز، منظر یا واقعے نے ہماری تنہائی میں خلل نہیں ڈالا۔
گھڑی ساڑھے چھ بجارہی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ باہر بالکل روشنی نہیں ہے۔ اچھے پتے مل جانے کی وجہ سے میں لگاتار دو مرتبہ جیت چکا ہوں۔ اس بیچ رمی کا ایک اور دور چل چکا ہے۔ تبھی کانوں میں ایک عجیب سی آواز آئی۔
کوئی باہر سے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
ہم تینوں کے ہاتھ تاش سمیت نیچے گرپڑے۔
کھٹ کھٹ… کھٹ کھٹ…
انیک کا چہرہ اس بار اور زیادہ اتر گیا۔ میرا سینہ بھی اندر ہی اندر دھڑک رہا ہے۔ مگر بنرجی میں گھبراہٹ کا نام ونشان تک نہیں ہے۔ اچانک سناٹے کو چیر کر وہ اپنی پرزور آواز میں چیخ اٹھے،’ ’ ہو از اٹ؟‘‘
دروازے پر دوبارہ کھٹکھٹاہٹ شروع ہوگئی۔
بنرجی پتالگانے کے لیے جھٹ سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’اکیلے مت جائیے۔‘‘
ہم تینوں ایک ساتھ کمرے کے باہرآئے۔ گلیارے میں آنے کے بعد بائیں طرف ہم نے ایک آدمی کو کھڑا پایا۔ وہ سوٹ پہنے ہے اور اس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ اندھیرے میں اسے پہچاننا مشکل ہے۔ انیک نے میری آستین پکڑ لی، اس بار اور زیادہ زور سے۔ اس کی حالت دیکھ کر خودبخود میرا حوصلہ بلند ہوگیا۔
اس بیچ بنرجی کئی قدم آگے بڑھ چکے تھے وہ چلا اٹھے، ’’اوہ، ہیلو ڈاکٹر لارکسن! آپ یہاں؟‘‘
اب میں نے بھی اس ادھیڑ شخص کو غور سے دیکھا۔ سونے کے چشمے کے پیچھے اس کی نیلی آنکھوں میں ایک دھند سی آگئی اور اس نے کہا،’’ تمھاری مارِس گاڑی باہر دکھائی دی۔ اس کے بعد دیکھا، کھڑکی سے موم بتی کی روشنی آرہی ہے ۔اس لیے سوچا، ایک بار دیکھ لوں کہ تم پر کس پاگل پن کابھوت سوار ہوا ہے۔‘‘
بنرجی نے ہنس کر جواب دیا،’’میرے ان دو جوان دوستوں کو ایک عجیب ایڈونچر کا شوق چرایا ہے۔ کہا، ایور گرین لاج میں بیٹھ کر تاش کھیلیں گے۔‘‘
’’ویری گڈ، ویری گڈ۔ جوانی ہی اس قسم کے پاگل پن کا وقت ہوا کرتا ہے۔ ہم بوڑھے صرف اپنے اپنے گھر کے کوچ پر بیٹھ کر پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ ویل ویل، ہیو اے گڈ ٹائم۔‘‘
لارکسن صاحب نے ہاتھ اٹھاکر ’’گڈ بائی‘‘ کہا اور لاٹھی ٹیکتے ہوے چلے گئے، اور ہمیں بھی بھوت کی امید چھوڑنا پڑی۔ اب اور کیا کریں!
ہم پھر تاش کھیلنے میں مشغول ہوگئے۔ شروع میں تقریباً ساڑھے چار روپے ہار گیاتھا۔ پچھلے آدھے گھنٹے کے درمیان اس میں سے کچھ واپس آگیا ہے۔ سائمن کا بھوت نہ بھی نظر آئے مگر تاش میں جیت کر اگر گھر لوٹ سکوں تو آج کے اس سنسنی خیز ماحول اور ایڈونچر میں کوئی معنویت پیدا ہوسکتی ہے۔
بیچ بیچ میں آنکھیں گھڑی کی طرف چلی جاتی تھی۔اصلی واقعہ کب ہوا تھا، اس کا وقت مجھے معلوم نہیں۔ براؤن صاحب کی ڈائری سے اتناپتاچلاتھا کہ شام کے کسی وقت بجلی گرنے سے سائمن کی موت ہوئی تھی۔
میں تاش بانٹ رہا ہوں، مسٹر بنرجی اپنا پائپ سلگارہے ہیں، انیک سینڈوچ کھانے کی غرض سے پیکٹ میں ہاتھ ڈالنے جارہا ہے کہ اسی وقت اچانک اس کی نگاہ ایک دم بدل جاتی ہے اور اس کے جسم کے اعضا جیسے اکڑ سے جاتے ہیں۔
اس کی نگاہ دروازے کے باہر گلیارے کی طرف ٹکی ہوئی ہے۔ ہم دونوں کی نگاہ بھی اسی طرف چلی جاتی ہے۔ جو کچھ دیکھتا ہوں اس کی وجہ سے چند پل کے لیے میراگلابھی سوکھ جاتا ہے اور سانسوں کا چلنا بند ہوجاتا ہے۔
باہر گلیارے کے اندھیرے سے دو چمکتی ہوئی آنکھیں بلا پلک جھپکائے ہماری طرف گھور رہی ہیں۔
مسٹر بنرجی کا داہنا ہاتھ آہستہ آہستہ کوٹ کے ویسٹ پاکٹ کی طرف چلا جاتا ہے اور عین اسی وقت آئینے کی طرح وہ معاملہ میرے سامنے صاف ہوجاتا ہے اور میرے دل سے سارا خوف دورہوجاتا ہے۔ میں نے کہا ،’’آپ کے پستول کی ضرورت نہیں ہے، صاحب! یہ وہی کالا بلّا ہے۔‘‘
میری بات سے انیک کی ہمت بھی بڑھ گئی۔ بنرجی نے پاکٹ سے ہاتھ باہرنکال کر کہا، ’’ہاؤ رِڈیکلس!‘‘
اب وہ چمکتی آنکھیں ہمارے کمرے کی طرف آنے لگیں۔ چوکھٹ پار کرتے ہی موم بتی کی روشنی میں میری بات سچ ثابت ہوئی۔ یہ وہی کالا بلّا تھا۔
چوکھٹ پار کر کے بلا بائیں طرف مڑا ۔ ہماری نگاہ اس کے ساتھ ساتھ گھوم رہی تھی، اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔ اس بار ہم تینوں کے حلق سے ایک ساتھ ایک ہی لفظ نکلاـ اچانک حیران ہونے پر جو لفظ حلق سے نکلتا ہے، بالکل ویسا ہی لفظ۔ اس لفظ کے ادا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ جب ہم تاش کھیلنے میں مشغول تھے، اس بیچ نہ جانے کہاں سے گاڑھے سرخ رنگ کے مخمل سے لپٹی ہوئی ہائی بیکڈ کرسی آتشدان کے پاس آگئی تھی۔
اماوس جیسی کالی رات کے اندھیرے میں بلّا چپ چاپ کرسی کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے بعد وہاں ایک پل رکا رہا، پھر اس نے ایک چھلانگ لگائی اور کرسی پر گول مول ہوکر لیٹ گیا۔ ٹھیک اس وقت ایک عجیب آواز سن کر میرا جسم جیسے پتھر کا یا سُن سا ہوگیا ۔ کسی نادیدہ بوڑھے کی ہنسی ہوئی آواز اور اس کے درمیانی وقفوں میں بار بار یہ صدا آرہی تھی :
’’سائمن… سائمن… سائمن…سائمن!‘‘ اور اس کے ساتھ ہی بچکانہ پن سے بھری خوشیوں اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ ۔
ایک چیخ سنائی دی اور انیک بے ہوش ہوگیا۔ اور مسٹر بنرجی؟ وہ انیک کو گود میں لے کر گلیارے سے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔
میں بھی اب بیٹھا نہ رہ سکا۔ تاش ، موم بتی، چادر، فلاسک، سب کچھ پڑا رہ گیا۔
خوش قسمتی سے بنگلور کی سڑکوں پر لوگوں کی آمدو رفت کم رہتی ہے، ورنہ ہماری گاڑی کی تیز رفتار کی زد میں آکر اس وقت کتنے آدمی زخمی ہوتے، کہنا مشکل ہے۔
انیک کو گاڑی میں ہوش آچکا تھا، مگر اس کے منھ سے ایک لفظ بھی باہر نہیں نکل رہا تھا۔ پہلی بار مسٹر بنرجی کے حلق سے آواز نکلی۔ انیک کے ہاتھ سے برانڈی کا گلاس چھین کر ایک ہی گھونٹ میں آدھا گلاس پی گئے اور گھرگھراتی آواز میں بولے، ’’سو سائمن واز اے کیٹ۔‘‘
میں بھی اس حالت میں نہیں تھا کہ کچھ بولتا،مگر میرے دل نے ہامی بھری۔
واقعی سائمن براؤن صاحب کا عقلمند، من موجی، سعادت مند، پرتمکنت اور لاڈلا تھا۔ جس سائمن کی موت آج سے ایک سو تیرہ برس پہلے بجلی گرنے سے ہوئی تھی، یہ وہی پالتو بلّا تھا۔